اصلی اور جعلی حزب اختلاف
شیئر کریں
انوار حقی
اطلاعات ہیں کہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کے لیے سنجیدگی سے کوششیں شروع کر دی ہیں ۔ اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے بھی ہوئے ہیں ۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال ان مصدقہ اطلاعات کے بعد پیدا ہوئی ہے جن میں کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان بیک ڈور رابطوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ آصف علی زرداری اس سلسلہ میں بعض اشارے بھی دے چُکے ہیں اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ چند دنوں تک عملی پیش رفت بھی سامنے آ سکتی ہے ۔کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی طرف سے نامزد چیئر مین نیب مقرر کرنے کی شرط پر آئینی ترامیم کے معاملے میں تعاون کی حامی بھری ہے ۔
موجودہ صورتحال میں قائد ایوان کی طرح اپوزیشن لیڈر کا منصب بھی انتہائی اہم ہے ۔ چیئر مین نیب کی تقرری سے لے کر نگراں وزیر اعظم کے انتخاب تک تمام معاملات میں اپوزیشن لیڈر کی مشاورت ضروری ہے ۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار نواز شریف اور زرداری کے درمیان مفاہمت کو خارج ازامکان قرار دینے کا بوجھ اُٹھانے سے ہچکچا رہے ہیں ۔
قومی اسمبلی کے موجودہ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کو تبدیل کرنے کے لیے جو کاوشیں ہو رہی۔ ان کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اس بارے میں حتمی طور پر ہم کوئی بھی رائے قائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ البتہ ان خبروں نے ماضی کی حزب اختلاف کے سارے تہہ بہ تہہ اوراق پاتال سے نکال کرشعور کے پردوں پر بکھیر دیے ہیں۔ آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو ، سید خورشید شاہ، چوہدری اعتزاز احسن ، سراج الحق ، اسفند یار ولی خان اور مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی قیادت جب اپنے تبسم کی حسین شنگرف بکھیرنے لگتی ہے تو ذہن ان کے تاریک سائے کھوجنے لگتا ہے ۔ دل و دماغ اس پر بہت کڑھتا ہے کہ ماضی میں ہماری حزب اختلاف کے زیادہ تر رہنماؤں نے ہمارے سیاسی نظام کی فضاوُں پر قبر سی راتیں مسلط کی ہیں۔
عہد ساز فکشن نگار ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ ’’ عظیم فن انتشار کے دور میں جنم لیتا ہے ‘‘ ۔۔۔یہ قول بجا لیکن ہماری سیاست کے بازار میں اخلاص و وفا خریداروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ناپید ہو چکی ہے۔ پاکستانی سیاست نے 60 سالہ بحرانوں اور انتشار کے صلے میں بے اُصولی اور تنزلی حاصل کی ہے ۔ لیکن مایوسی کے اس عالم میں دل پر دستک دینے والے کا کہنا ہے کہ ہماری سیاست کے اس بھیانک انتشار کی کوکھ سے اصلی اور بے باک حزب اختلاف نے جنم لیا ہے ۔ وہ ٹالسٹائی کے قول کی صداقت سے انکار کے ہر زاویے کی نفی کرتا ہے اور عمران خان کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے اصلی قائد حزب اختلاف قرار دیتا ہے ۔ اور ساتھ میں اُس کا اصرار یہ بھی ہے کہ پہلی مرتبہ قوم کے سامنے جعلی اور اصلی اپوزیشن کا چہرہ واضح ہوا ہے ۔
جمہوری نظام میںحزب اقتدار سے زیادہ حزب اختلاف اہم ہوتی ہے ۔جس کی ذمہ داری صاحبان اقتدار کا محاسبہ کرنا ہوتا ہے پاکستان کی سیاست نے ساٹھ سال سے زائد کے عرصہ میں اصل اپوزیشن کا چہرہ خال خال ہی دیکھا ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں کی حزب اختلاف ہمیشہ ہاتھی کے دانتوں کی مثل رہی ہے ۔
سیاسی اور شخصی اختلاف کے باجود پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ڈاکٹر شیر افگن نیازی مرحوم کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔جنرل پرویز مشرف کی قربت حاصل ہونے کی وجہ سے میر ظفر اللہ خان جمالی ، تین ماہ کے لیے وزارت عظمیٰ کا ہُما اپنے سر پر بٹھانے والے چودھری شجاعت حسین اور شوکت عزیز کی وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ اُس وقت کے قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے ان کا سینہ رازوں کا دفینہ تھا۔ اپنی وفات سے تین چار ماہ قبل جب وہ سیاست سے ریٹائر ہو رہے تھے۔ انہوں نے راقم کو بُلا کر اپنی سیاسی زندگی کے حوالے سے کھل کر اور بے لاگ گفتگو کی تھی ۔ انہوں نے بتایا تھا کہ مولانا فضل الرحمن ایک سیاسی ڈیل اور مفاہمت کے نتیجے میں قائد حزب اختلاف کے منصب پر فائز ہوئے تھے ۔ ڈاکٹر شیر افگن خان نیاز ی نے اپنی وزارت کے دور میں ایک اخبار سے انٹریو کے دوران بھی اس کا انکشاف کیا تھا ۔ مبصرین تجزیہ نگار اور ناقدین اس کی تصدیق اُس وقت کی متحدہ مجلس عمل کی خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کے معاملات اور جنرل پرویز مشرف کے وردی میں صدر مملکت منتخب ہونے کی تمام کارروائی سے بخوبی کر سکتے ہیں ۔
خیبر پختونخواہ کے سادہ لو ح عوام نے اندھیروں کا سینہ چیر کر رخشندہ سورج تلاش کرنے کی خواہش میں دینی جماعتوں کے سیاسی اتحاد’’ متحدہ مجلس عمل‘‘ کو اپنے اعتماد سے نوازا تھا اور موجودہ اپوزیشن رہنما عمران خان نے وزارت عظمیٰ کے انتخاب کے دوران میں قومی اسمبلی میں اپنا ووٹ مولانا فضل الرحمن کو دیا تھا ۔کیا وقت تھا کہ عمران خان اور عوام ان قائدین کی اصلیت نہ جان سکے اور ایم ایم اے کے لیڈروں کو اپنی اُمیدوں کا مرکز قرار دے رہے تھے ۔ بالکل اسی طرح جیسے نصرت فتح علی خان کا چہرہ مہرہ اور جسامت ہنستے ہوئے بدھ (Laughing Buddha ) سے ملتی تھی ۔ جاپانی ان کی زبان نہیں سمجھتے تھے مگر نصرت فتح علی خان انہیں سرشاریوں سے بھر دیتا تھا۔ہمارے سادہ لوح پاکستانی بھی اسی طرح دینی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی محبتوں پر قربان نظر آتے تھے ۔ نصرت فتح علی خان کو تو سُر اور ساز پر دسترس حاصل تھی۔ اُس نے اپنے فن کی بدولت دلوں کو تسخیر کیا اور جاودانی پا ئی لیکن ہماری اس قیادت کے پاس ’’ نان رباط ‘‘ سمیت جو کچھ بھی ہے وہ صرف ان کے اپنے لیے ہے ۔
لیکن پھر وقت اور تاریخ نے کوئی منظر بھی سرسری نہیں رہنے دیا ۔اب سب کچھ واضح ہو چُکا ہے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں اور قائدین کے چہرے بھی بے نقاب ہو چُکے ہیں ۔ ماضی کی اپوزیشن سے سید خورشید شاہ تک سب کی کارکردگی واضح ہے ۔صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے خلاف مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف تحریک چلانا چاہتی تھیں لیکن اُس وقت کی اپوزیشن قیادت نے اُن کا ساتھ نہیں دیا تھا ۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ اس حوالے سے جس کرب کا اظہار کیا کرتی تھیں وہ بہت تکلیف دہ ہے ۔ مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی ، دولتانہ ، نوابزادہ نصر اللہ خان کے بارے میں مادر ملت کے خیالات آتش فشاں پبلیکیشنز کے زیر اہتمام شائع ہونے والی اشرف تنویر کی کتاب ’’ میں مولانا عبد الستار خان نیازی ‘‘ میںدرج ہیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی اپوزیشن’’قومی اتحاد ‘‘ ، جنرل ضیاء الحق مرحوم کی اپوزیشن جماعتیں سوائے پیپلز پارٹی کے ساری کی ساری کنٹرولڈ رہی ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے تیسرے دور حکومت میں چوہدری نثار علی خان اپوزیشن لیڈر تھے ۔ اس حوالے سے اگر ان کی شخصیت کسی صلاحیت کی حامل تھی تو وہ ’’ میثاق جمہوریت ‘‘ کے قبرستان میں دفن رہی ۔ موجودہ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی کارکردگی ہم سب کے سامنے ہے ۔ 2014 ء کے دھرنے کے دنوں پارلیمنٹ کے طویل ترین مشترکہ اجلاس میں چوہدری نثار پر چوہدری اعتزاز احسن کا برسنا اور بعد میں بالکل خاموشی اختیار کرلینا اس امر کا عکاس تھا کہ اپوزیشن والے اپنی زبان سے جو کچھ بھی کہتے پھریں لیکن عمل سے اپنے کہے کی تائید کبھی نہیں کرتے ۔ موجودہ حالات میں اپوزیشن کی دستار جن کے حصے میں آئی انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ سر ہی نہیں رکھتے۔ ایسے میں عمران خان اور ان کی جماعت نے آگے بڑھ کر قوم کو اپوزیشن کے اصل کردار سے آگاہ کیا ۔ شیخ رشید ان کے ساتھ رہے ۔ پاناما معاملے پر جس انداز میں ان دونوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا وہ ہماری سیاسی تاریخ میں نئے باب کا اضافہ ہے ۔ایک ایسے وقت میں جب نئے عام انتخابات کی جنگ کا بگل بجنے والا ہے ۔ اپوزیشن کے اصل کردار کو زند ہ رکھنے کے لیے قومی اسمبلی کی بعض اپوزیشن جماعتوں نے صائمہ اسحاق کے الفاظ میں سید خورشید شاہ کو کچھ یوں پیغام بھیجا ہے کہ
گُلاب رُت کا پرندہ اُڑان چاہتا ہے
خزاں سے کہہ دو کہ دامن سمیٹ لے اپنا