اسلحہ کی کھپت کے لیے لڑائی ناگزیر
شیئر کریں
حمیدااللہ بھٹی
امن پسند حیران ہیں کہ غزہ کے مکینوں کو دن رات اسرائیلی حملوں اور بمباری کا سامنا ہے۔ سارا علاقہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا پینے کا صاف پانی اور علاج معالجہ تو ایک طرف فضائی وزمینی حملوں کانشانہ بن کر شہریوں کی اکثریت موت کی نیند سو چکی جسے فلسطینیوں کی نسل کشی کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا مگر سفاکی و بے رحمی دیکھ کربھی اسرائیلی حملے بند کرانے میں کردار اداکرنے کی بجائے امریکہ جارح اسرائیل کی حفاظت کاعزم کیوں کرتاہے؟نومبر کے صدارتی انتخابات کی اہم امیدوار کمیلا ہیرس بھی اسرائیل کی تمام تر سفاکیت دیکھنے کے باوجود دفاعی امدادجاری رکھنے پر کیوں مُصرہے ؟ایسے حالات میں جب خطے کا کوئی ملک جارحیت تو درکنا ر اسرائیلی حملہ روکنے کی سکت نہیں رکھتا تو امریکہ کیوں شب وروز دفاعی امداد کے اعلان کررہاہے؟رواں ماہ ہی اسرائیل کے لیے بیس ارب ڈالر کے امریکی ہتھیاروں کی منظوری دی گئی ہے جس میں 19ارب ڈالرمالیت کے جنگی طیارے،774ملین ڈالرزکے ٹینک کارتوس اور دیگر اسلحہ شامل ہے۔ کیا اسرائیل کو خطے کے کسی ملک سے خطرہ ہے ؟تو اِن تما م سوالوں کا جواب یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کا امن امریکی مفاد کے منافی ہے۔
جنگ وجدل کا ماحول ہی امریکی اسلحے کی منڈی کے لیے سازگار ہے ۔اسرائیلی حملے بندکرانے میں اُسے فائدہ نہیں۔ صدر جوبائیڈن کی طرح کمیلا ہیرس بھی امریکی مفاد کے تحفظ کے لیے اسرائیلی دفاع کی بات کرتی ہیں۔ خطے کاہر ملک اسرائیل سے خوفزدہ ہے۔ فلسطین ،شام اور لبنان بیک وقت اسرائیلی حملوں کی زد میں ہیں لیکن اپنا دفاع کرنے سے بھی قاصر ہیں ۔اِس لیے یہ کہنا کہ کسی ہمسایہ ملک سے اسرائیل کو خطرہ ہو سکتا ہے تو اِ سے زیادہ لغو کوئی اور بات ہو ہی نہیں سکتی ۔دراصل اسلحے کی پیداوار کھپانے کے لیے لڑائی ناگزیر ہے۔ اسی لیے تنازعات کے تصفیے میں تاخیر کی جاتی ہے تاکہ کہیں نہ کہیں لڑائی ہوتی رہے ۔اگر ساری دنیا میں امن قائم ہوجائے تو اسلحہ کی کھپت کیسے ہوگی ؟ یہی وجہ ہے کہ فریقین کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے اور امن قائم کرنے میں دلچسپی نہیں لی جاتی۔ ایران وسعودیہ میں تعلقات بحال کرانے پر بھی چین سے امریکہ ناخوش ہے مگر کیا امریکی سوچ سے دنیا لاعلم ہے ؟ایساہرگز نہیں بلکہ دنیا میں ہوتے مظاہرے اشارہ ہیں کہ امن پسندوں کو امریکی کردارناپسند ہے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ امریکی غلبے میں ضعف کی وجہ بھی یہی طرزِ عمل ہے۔ اسی وجہ سے مسلم دنیا میں روسی مخالفت کم ہوئی ور آج کمزور معیشت کے باوجودمسلم امہ میں روسی کردارفروغ پذیر ہے اورچین کی طرف رجحان بڑھنے لگا ہے۔
کشیدگی میں اضافہ ہونے سے اسلحے کی خریداری بڑھتی ہے اسی بناپر کشیدگی ختم یالڑائی بندکرانے سے پہلوتہی کی جاتی ہے امریکی اور برطانوی حکومتوں نے ہمیشہ تنازعات کوفروغ دیا ۔جنوبی ایشیا،مشرقِ وسطیٰ میں برطانیہ نے تنازعات کی بنیاد رکھی جنھیں امریکہ نے آتش فشاں بنادیاہے، جبکہ یوکرین جنگ شروع کرانے اور تائیوان کو ایشو بنانے میں امریکی ہاتھ ہے۔ میزائل اور جوہری ہتھیارختم کرنے کی صورت میں امریکہ نے یوکرین کو سرحدوں کی حفاظت کرنے کی یقین دہانی کرائی مگرجب یوکرین نے خود کو محفوظ خیال کرتے ہوئے کچھ ایسے فیصلے کیے جن سے غصے میں آکر روس نے حملہ کردیاتو اب عملی طورپرساتھ دینے کی بجائے امریکہ محض ہتھیار دینے اور بیان بازی تک محدودہے ۔یوکرین اور فلسطین میں لڑائی جاری ہے جبکہ کئی ایسے مزید علاقے ہیں جہاں لڑائی کی آگ بڑھنے کے خدشات ہیں مگرامن قائم کرنے میں مدد دینے کی بجائے امریکہ دوربیٹھ کر ہوا دینے کی کوشش میں ہے۔ 1895کی لڑائی کے دوران چین کو شکست دیکر جاپان نے تائیوان کو قبضے میں لیا جسے چین اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ چینی دعوے کو اقوامِ متحدہ نے تسلیم کرتے ہوئے 1971میں ایک اہم فیصلہ کیا۔ اِس حوالے سے جنرل اسمبلی نے ایک قراردادنمبر 2758پاس کی جس کے مطابق اقوامِ متحدہ نے اپنے ہر زیلی اِدارے پربھی تائیوان کو بطور ملک رُکن بنانے پر پابندی لگادی۔ اِس طرح ایک چین کا مطالبہ عالمی سطح پر تسلیم کرلیاگیالیکن اپنے وعدوں کو بُھلاکرامریکہ اب تائیوان کو ایک الگ اور خود مختار ملک تسلیم کرناچاہتاہے تاکہ اِ س آڑ میں اسلحہ فروخت کرسکے ۔بائیڈن انتظامیہ کے عزم اور اسلحہ فروخت کے اعلانات کو چین اشتعال انگیزی تصور کرتا ہے چین نے نہ صرف تائیوان کے قریب فوجی مشقیں بڑھا دی ہیں بلکہ تخفیف اسلحہ اور جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے امریکہ سے جاری ہر قسم کے مذاکرات معطل کردیے ہیں لیکن امریکہ کو چینی غصے کا احساس تک نہیں کیونکہ اُس کی نظر تائیوان کی آمدن پر ہے۔ کمپیوٹر چپ بنانے اور دنیا کو فروخت سے تائیوان ہر برس اربوں ڈالر کماتا ہے اِس مضبوط معیشت کو فروخت کے لیے امریکہ نے اسلحہ پیش کردیاہے۔ گزشتہ نو برس کے دوران اُس نے تائیوان کو دس ارب ڈالر سے زائد کے تیار ہتھیار فروخت کیے ہیں ۔ ایف سولہ کی دیکھ بھال اور دیگر پرزہ جات کی قیمت الگ ہے 2015میں دوارب ڈالر ،2018میں ایک ارب ڈالر،2019میں سوا دوارب ڈالر جبکہ 2020میں چار ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا ۔دراصل امریکہ جس کے پاس عالمی منڈی میں فروخت کے لیے اسلحہ کے علاوہ اشیا کی کمی ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے دنیا میں جنگ ہونا یا جنگ کے بادل چھائے رہنااُسے بھاتاہے پہلے کسی ایک فریق کو تھپکی دیکر جارحیت پر اُکساتا ہے اور پھر پورے خطے کو اسلحہ بیچنے لگتا ہے البتہ اتنی احتیاط کرتا ہے کہ پسندیدہ فریق کو جدید جبکہ ناپسندیدہ کو ازکار رفتہ ہتھیار دیتاہے۔
ایران اور سعودیہ کوایک دوسرے کے مدِ مقابل لانے میں امریکی کردار کسی سے پوشیدہ نہیں اِس طرح اُسے کئی معاشی فوائد حاصل ہوئے۔ اول ،سعودیہ کی حفاظت کے نام پر نہ صرف فوجی اڈے بنانے کی اجازت لی بلکہ اخراجات کی ادائیگی بھی سعودی حکومت کی ذمہ داری لگادی۔ دوم،ہر برس اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا موقع میسر آیاہے ۔سوم،نہ صرف تیل کی ترسیل یقینی ہو گئی ہے بلکہ یہ ترسیل بھی امریکی کرنسی ڈالر میں ہونے کاپابندبنالیاہے ۔چہارم،سعودیہ کے ساتھ عالم ِ اسلام کی حمایت کا فائدہ الگ ملاہے ۔سچ یہ ہے کہ سعودیہ کی بظاہر حمایت صرف معاشی فوائد کے لیے ہے۔ ٹرمپ نے بطورصدر سعودی دورے کے دوران بارہ ارب ڈالر اسلحہ فروخت کرنے کی ڈیل کی 2017میں سعودیہ قطر کشیدگی کے ایام میں امریکہ نے پہلے تو سعودیہ سے تین ارب پچاس کروڑ ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا معاہدہ کیالیکن اِس معاہدے کے صرف ایک ماہ بعد ہی قطر سے بھی بارہ ارب ڈالر کے ایف پندرہ اور دیگر اسلحہ فروخت کی ڈیل کر لی ۔اِس خطے کے تیل پر امریکہ کی خاص طورپر نظر ہے۔ اسی لیے بیک وقت کئی محاذوں پر کام کر رہا ہے۔ پورے خطے کو خوفزدہ کرنے کے بعد اب منظر نامہ بھی اسرائیل کی مرضی کے مطابق بنانے کی کوشش میں ہے۔ 2016میں خلیجی ریاستوں کواسلحہ بیچ کر امریکہ نے 33ارب ڈالر کمائے۔ ایران عراق جنگ ،عراق کویت جنگ میں امریکی کردار عیاں ہے پہلے تو عراق کوہتھیار بیچ کر ایران کی فوجی طاقت کو نقصان پہنچایا۔جب یہ مقصد حاصل کر لیا تو صدام حسین سے کویت پر حملے کی حماقت کراکر اُسے بھی عبرتناک موت مار دیا۔اب جبکہ ایران عراق جنگ کاخدشہ نہیں رہا لیکن امریکہ بدستور اسلحہ بیچنے میں مصروف ہے۔ 2017میں 1319 ملین ڈالر کے عراق کو اسلحہ فراہمی کے معاہدے کیے گئے ۔مسئلہ کشمیر کے دونوں فریقوں پاکستان اور بھارت کواسلحہ بیچ کر امریکہ ہر سال اربوں ڈالر کماتا ہے۔ امریکی مفاد کی وجہ سے ہی غزہ ،یوکرین ، تائیوان جیسے تنازعات ختم نہیں ہورہے۔ اِس لیے امن پسندوں کوغزہ میں شروع نسل کشی پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں ۔سب کچھ امریکی ایما پر اور اُس کی مرضی ومنشا کے عین مطابق ہورہا ہے۔