انسدادِ توہین صحابہؓ بل کی متفقہ منظوری خوش آئند
شیئر کریں
سینیٹ سے انسداد توہین صحابہ، اہلبیت اور امہات المومنین ؓکے بل کی متفقہ طور پر منظوری اہم قانون سازی ہے۔اس بل کے تحت صحابہ کرام، اہل بیت عظام اور امہات المومنینؓ کی شان میں گستاخی کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیتے ہوئے اس کی سزا تین سال سے بڑھا کر دس سال کردی گئی ہے جبکہ جرمانہ دس لاکھ کردیا گیا ہے علاوہ ازیں گستاخی کی نوعیت سنگین ہونے کی صورت میں عمر قید کی سزا ہو سکے گی۔ بل پربات کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ آج کل سوشل میڈیا پر صحابہ کرام اہل بیت عظام امہات المومنین کی انتہائی گستاخی کی جارہی ہے، جو سوشل میڈیا پر توہین ہورہی ہے وہ اس ایوان میں بیان بھی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ صحابہ کرام اہل بیت و امہات المومنین کی توہین کے ثبوت لیگل کمیشن برائے توہین نے ہمیں فراہم کیے ہیں، سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی توہین روکی جائے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ قومی اسمبلی نے متفقہ طورپر توہین روکنے کا بل منظور کیا ہے اسے یہاں بھی متفقہ منظور کیا جائے۔ایک اسلامی ملک میں جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے اولاً تو اس طرح کی قانون سازی کی ضرورت ہی پیش نہیں آنی چاہئے تھی اور نہ ہی اس میں ترمیم کرکے سزائیں سخت کرنے کی نوبت آنی چاہئے تھی۔بہرحال اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیاہو گی کہ اس کی ضرورت شدت سے محسوس کرنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ بدقسمتی سے بعض عناصر کی جانب سے ایسا ہو رہاتھا اور کچھ عناصر لاعلمی میں بھی پروپیگنڈے کا شکار ہو کر اس حرکت کے مرتکب ہو رہے تھے جن کی روک تھام کے لئے جامع اور سخت سے سخت قوانین کی ضرورت تھی۔ اس کی اشد ضرورت اس لئے بھی تھی کہ ملکی قوانین اور نظام جرم وسزا سے مایوس ہو کر بعض جذباتی عناصر سزا کا اختیار اپنے ہاتھ میں لینے کا ارتکاب کر رہے تھے اور حکومت و ریاست اس مد میں دباؤ اور مشکلات کا شکار تھی۔ بہرحال ملک میں نظام عدل موجود ہونے کی صورت میں جملہ علمائے کرام کی متفقہ رائے ہے کہ انفرادی سزا کا کسی کو بھی حق نہیں پہنچتا اور نہ ہی شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔ ان جملہ معاملات کے پیش نظر قوانین میں ترمیم ضروری تھی جملہ حالات سبھی کے پیش نظر تھے، اس لئے اس ترمیم کے حوالے سے کسی جانب سے بھی کوئی مخالفانہ موقف نہیں اپنایا گیا۔ سوائے اس کے کہ حالات کا بیان کیا جائے اور اس بل کی منظوری دی جائے۔ اس ترمیم کے بعد توقع کی جانی چاہئے کہ جذباتی عناصر بھی اب خود ہی معاملہ نمٹانے کی بجائے قانون کا سہارا لینے کا موزوں راستہ اختیار کریں گے اور عدالتوں سے فیصلے اور سزائیں دینے کا تیز تر عمل شروع ہو گا جس کے نتیجے میں معاشرے میں محولہ عناصر اور افراد عبرت حاصل کریں گے۔
٭٭٭