میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ماہ صفر اور جاہلانہ رسومات 

ماہ صفر اور جاہلانہ رسومات 

جرات ڈیسک
جمعه, ۱۸ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

مولانا محمد الیاس گھمن

اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ پسندیدہ دین اسلام میں ہر طرح کی جامعیت، کاملیت اور ہمہ گیریت ہے کہ یہ وقت اور علاقوں کی قیدود میں مقید نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو محض منطقی فلسفے کی بنیاد پر کتابوں تک محدود نہیں بلکہ عملی زندگی کے ہر گوشہ کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ ادیان عالم میں اسلام کی نمایاں خوبی اعتدال ہے، یہ افراط اور تفریط سے پاک ہے۔اپنی کاملیت اور جامعیت کی بنیاد پر اس میں الحاد و بدعات، رسوم و رواج  اور خرافات کی قطعاً گنجائش نہیں یہ اپنے ماننے والوں کو ایسی تعلیم دیتا ہے جو دنیا و آخرت کی کامیابیوں کے حصول کی اکیلی ضامن ہے۔
اسلام اپنے پیروکاروں کو فرسودہ خیالات، جاہلانہ رسومات، متعصبانہ نظریات اور باطلانہ معتقدات، ملحدانہ افکار اور مبتدعانہ اعمال سے بچنے کی صرف ترہیب ہی نہیں بلکہ سختی سے روکتا ہے اور ایسے تمام امور کو ناجائز قرار دیتا ہے جن کی بنیاد کسی غلط سوچ، بے بنیاد فکر اور نظریہ پر قائم ہو۔ان بے بنیاد افکار و نظریات میں سے ایک ماہ صفر المظفرکو منحوس سمجھنا بھی ہے، صفر الخیر کا مبارک مہینہ شروع ہے، دیگر مہینوں کی طرح یہ بھی ایک مہینہ ہے لیکن جہالت اور دین دوری کی وجہ سے اس کو توہم پرستی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ جبکہ شریعت اسلامیہ نے اس کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے کہ اس کو منحوس تصور کرنے کر غلط نظریہ قرار دیا گیا ہے۔
تاریخ اسلامی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قبل از اسلام اس مہینے کو لوگ منحوس سمجھتے تھے اور بہت سارے معاشرتی طور پر اچھے کاموں سے رکے رہتے تھے اور انتظار کرتے تھے کہ صفر کا مہینے گزر جائے تب ان کاموں کو پورا کریں گے۔ یہ بات قابل تعجب نہیں کیونکہ قرآن اس زمانے کو جاہلیت کا زمانہ قرار دیتا ہے۔ محل تعجب تو یہ ہے کہ آج کی زمانے میں جب تعلیم عام ہو چکی ہے، شعور و آگہی ہر سو پھیل چکی ہے، بالخصوص دین اسلام کی تعلیمات ہر کچے پکے گھر میں داخل ہو چکی ہیں۔ ایسے زمانے میں بھی ایک بہت بڑا طبقہ جو بظاہر پڑھا لکھا، باشعور اور دیندار نظر آتا ہے ان میں بھی بدعقیدگی کے جرثومے تاحال ختم نہیں ہوئے۔ بہت دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ شریعت جن اوہام و توہمات، افکار و نظریات اور فرسودہ معتقدات سے بچنے کا حکم دیتا ہے آج انہی کو اپنایا جا رہا ہے چنانچہ بعض باتیں اس مہینے کے متعلق مشہور ہیں جو  سراسر غلط بے بنیاد اور بے سروپا ہیں، ذیل میں ان کی نشاندہی کی جاتی ہے:
1۔اس مہینے میں نحوست نازل ہوتی ہے۔
2۔اس مہینے میں آفات نازل ہوتی ہیں۔
3۔اس مہینے میں حادثات نازل ہوتے ہیں
4۔اس مہینے میں بیماریاں اترتی ہیں۔
5۔اس مہینے میں نئے شادی شدہ جوڑے کو حقوق زوجیت سے روکا جاتا ہے کہ یہ منحوس مہینہ ہے۔
6۔اس مہینے میں مخصوص طریقے کی مروجہ قرآنی خوانی ضرور کرانی چاہیے۔
7۔اس مہینے میں آٹے کی 365 گولیاں بنا کر پانی کے تالاب وغیرہ میں ڈالنا۔
8۔اس مہینے میں 311 مرتبہ سورۃ مزمل پڑھنا۔
نوٹ: اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم پڑھنا باعث برکت ہے لیکن اس کے لیے بعض دنوں کو متعین کر کے اسے لازمی سمجھنا اور دین کا جز قرار دینا یہ ہرگز درست نہیں۔ قرآن پڑھیں سارا سال پڑھیں کوئی منع نہیں کرتا لیکن اپنی طرف سے ایام اور اوقات کی تعیین کو دین سمجھ کر ضروری قرار دینا سراسر غلط ہے۔
9۔اس مہینے میں لولہے لنگڑے اور اندھے جنات اترتے ہیں۔
10۔ اس مہینے میں چنے ابال کر تقسیم کرنا ضروری ہے۔
11۔اس مہینے میں چوری بنا کر تقسیم کرنا ضروری ہے۔
12۔اس مہینے میں مزاج میں شدت اور تیزی آ جاتی ہے۔
13۔اس مہینے میں پہلے 13 دن انتہائی بھاری ہوتے ہیں۔
14۔اس مہینے میں گھریلو لڑائی جھگڑے ضرور ہوتے ہیں۔
15۔اس مہینے میں صندوقوں اور پیٹیوں کو ڈنڈوں سے خوب پیٹا جائے تاکہ جنات بھاگ جائیں۔
16۔اس مہینے میں مٹی کے برتن توڑ دینے چاہییں۔
17۔اس مہینے میں کاروبار میں خسارہ آتا ہے۔
18۔اس مہینے میں آخری بدھ کے روز عید منائی جائے۔
19۔اس مہینے میں نکاح نہیں کرنا چاہیے۔
20۔اس مہینے میں شادی و بیاہ اور خوشی کی تقریبات نہیں کرنی چاہییں۔
21۔اس مہینے میں بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آخری بدھ کو آسمان سے تین لاکھ بیس ہزار بلائیں نازل ہوتی ہیں ان سے بچنے کے لئے مخصوص قسم کی چار رکعت نماز نفل ادا کی جاتی ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ہررکعت میں ایک دفعہ سورہ فاتحہ، سترہ مرتبہ سورہ کوثر،پندرہ مرتبہ سورہ اخلاص اور ایک ایک مرتبہ معوذتین پڑھی جاتی ہے۔ پھر سلام پھیرکر مخصوص دعا کی جاتی ہے، اس میں تین سو ساٹھ مرتبہ اللہ غالب علی امرہ ولکن اکثر الناس لایعلمون پڑھا جاتا ہے اورسبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی
المرسلین والحمد للہ رب العالمین کے ذریعہ دعا ختم کی جاتی ہے۔ اس کے بعد فقراء ومساکین میں مختلف قسم کے کھانے تقسیم کیے جاتے ہیں۔
صفر کے آخری ایام میں اس خاص عمل کے میسجز بھی واٹس ایپ اور سوشل میڈیا وغیرہ پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ قرآن وہ کتاب ہے جس کی آیات کی برکت سے بیماریاں دور ہو جاتی ہیں لیکن ان کو خاص طریقوں سے مخصوص کرنا اور کسی خاص مہینے میں ہی اس کی برکت کا قائل ہونا یہ سراسر غلط بات ہے۔  اب صفر سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان مبارک ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ  اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ …لَا صَفَرَ۔
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صفر(منحوس)نہیں ہے۔ (صحیح البخاری، باب لا ھامۃ ولاصفر،  رقم الحدیث:  5757)
یاد رکھیں!اسلام میں نحوست اور اس طرح کے توہمات کی کوئی گنجائش نہیں، عبادات کوعام معمول  کے مطابق ادا کیا جائے، کوئی بھی نیک اور خیر کا کام مثلاً قرآن کریم کی تلاوت اور صدقہ و خیرات کو مخصوص طریقوں  خاص نہ کریں، اور شریعت میں جائز امورمثلاًکاروبار، نکاح، شادی بیاہ،سفر کرنا وغیرہ کو اس مہینے یا کسی بھی دن اور مہینے کی نحوست کی وجہ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اپنے معاشرے میں پھیلتی بدعقیدگی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، اسی طرح اس مہینے میں کی جانے والی بدعات اور خرافات سے اپنی اور اپنی آنے والے نسل کی حفاظت کا اہتمام کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ مسلم معاشرے کو توہم پرستی اور جاہلانہ نظریات سے محفوظ رکھے اور اسلام کی واضح تعلیمات کو اپنانے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں