میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مسلم لیگ نون کا تنہا پرواز کا فیصلہ

مسلم لیگ نون کا تنہا پرواز کا فیصلہ

جرات ڈیسک
منگل, ۱۸ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ مسلم لیگ آئندہ انتخابات میں پنجاب میں کسی سیاسی جماعت سے اتحاد نہیں کرے گی بلکہ الیکشن میں قومی و صوبائی نشستوں کے لیے ہر حلقے میں اپنے امیدوار اتارے گی۔ آئندہ انتخابات کے لیے اپنی جماعت کی انتخابی مہم کے حوالے سے جمعے کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے پنجاب میں کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ ممکنہ اتحاد کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں کسی سے انتخابی اتحاد نہیں کریں گے اور عام انتخابات میں صوبے کے ہر حلقے میں شیر کا نشان موجود ہو گا۔ اگر ماضی کے ضمنی انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیں تو مسلم لیگ ن کو اپنے سخت سیاسی حریف پاکستان تحریک انصاف سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور حلقے کی سطح پر بھی اس کے ووٹ بینک میں گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ برس کے دورِ حکومت کے دوران عام شہری کی زندگی کو مہنگائی اور بدترین معاشی بحران نے عام شہری کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے جس سے پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں خاص طورپر مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک بری طرح متاثر ہواہے لیکن مسلم لیگی رہنما اپنی ڈیڑھ سال کی تمام بدانتظامی کے سبب عوام کو پہنچنے والی تکلیف اور ان کیلئے پیدا ہونے والے مسائل کو ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور مشکل مالی حالات سے نکالنے کا دعویٰ کرکے دھو دینا چاہتی ہے،جبکہ عوامی سطح پر لوگ مسلم لیگ ن کے اس بیانیے کو قبول کرنے کو تیار نظر نہیں آتے اور پی ٹی آئی کی حمایت کرنے والے افراد جماعت کے خلاف سیاسی کارروائیوں کا ذمہ دار بھی مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت ہی کو سمجھتے ہیں۔اس تمام صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے اور دوست ممالک سے قرضہ لینے کے اقدام نے مسلم لیگ ن کو انتخابی اعتماد فراہم کیا ہے یا پھر یہ جماعت پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ کے بعد صوبے میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا کا فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے؟
اس وقت مشکل یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے وقت پر حکومت چھوڑنے کے اعلان کے بعد بھی ابھی تک ملک میں انتخابات کا ماحول نہیں بن سکا ہے اور ملک کے حالات دیکھ کر ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ اگلے چند ماہ میں انتخابات ہونے والے ہیں،اگرچہ شہباز شریف کی حکومت نے چشمہ نیوکلیئر پلانٹ کے افتتاح اور پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کے اعلان کے ذریعے غیر اعلانیہ طورپر اپنی انتخابی مہم کے آغاز کا اعلان کر دیا ہے۔اوریہ اعلان کرکے کہ مسلم لیگ ن اگلے انتخابات میں کسی سیاسی جماعت سے انتخابی اتحاد نہیں کرے گی خود کو بہت زیادہ پراعتماد اور مضبوط ظاہر کرکے الیکٹیبلز کو مسلم لیگ ن کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ہے اور انتخابی قوانین میں ترمیم کرکے قومی اسمبلی کے ارکان کو الیکشن جیتنے کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہانے کی اجازت دینے کیلئے انتخابی اخراجات کی حد ایک کروڑ تک بڑھاکر یہ اشارہ دیاہے کہ انتخابات جیتنے کیلئے انھیں کھل کھیلنے کی اجازت ہوگی لیکن خود مسلم لیگ ن کے بہت سے پرانے رہنما اس مرتبہ انتخابی میدان میں اترنے سے کنی کاٹتے نظر آرہے ہیں،کیونکہ مسلم لیگ ن کے پرانے رہنما اور الیکٹیبلز یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی کارکردگی عوام کے سامنے ہے اور خوشنما بیانات اور بلند بانگ دعووں کے ذریعے ان کی پردہ پوشی نہیں کی جاسکتی۔
ایسا معلوم ہوتاہے کہ مسلم لیگی قائدین اس حقیقت کوتسلیم کرنے اور ایک لمحے کیلئے بھی یہ سوچنے کو تیار نظر نہیں آتے کہ عوام باشعور ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ جب بھی مسلم لیگ کی حکومت آئی ہے لوٹ مار کابازار گرم ہواہے۔مسلم لیگی رہنما اب انتہائی ڈھٹائی سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ مہنگائی مسلم لیگ ن کی حکومت کی پیدا کردہ نہیں اور وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ عوام یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان حالات کا ذمہ دار کون ہے۔مسلم لیگی حلقے اب یہ ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں کہ ملک کو درپیش موجودہ مسائل سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورِ حکومت کی ناقص پالیسیوں اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ توڑنے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ان کا استدلال یہ ہے کہ یہ مسلم لیگ ن کی حکومت کا دور نہیں تھا بلکہ یہ تحریک عدم اعتماد کے بعد بننے والی اتحادی حکومت تھی جس میں مسلم لیگ ن نے اہم کردار ادا کیا اور بہت سے مسائل اور مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔مسلم لیگی رہنما اب اپنا سارا زور ملک کو درپیش تمام مسائل کا ذمہ دار عمران خاں کو قرار دے کر خود کو مسیحا بنا کر پیش کرنے پر لگائے ہوئے ہیں،ان کوششوں میں وہ یہ بات فراموش کررہے ہیں کہ عوام یہ جانتے ہیں کہ اس اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کو خوش کرنے کیلئے ان کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھین لینے کی کوشش کی ہے جو شاید کوئی اور سیاسی پارٹی نہ کر تی۔عوام کو اب پتہ چل چکا ہے کہ جب بھی مسلم لیگ ن حکومت میں آتی ہے تو بیرون اور اندرون ملک ان کے کاروبار کی ترقی کا سفر شروع ہوجاتاہے اور بیرون ملک ان کے اثاثوں میں اضافہ ہونا شروع ہوجاتاہے،اس صورت حال میں بظاہر تو ایسا نظر آتا ہے کہ اگر انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوئے تو عوام اگلے انتخابات میں موجودہ حکومت کے کرتا دھرتاؤں سے حساب بے باق کرنے کی کوشش کریں گے۔مسلم لیگی حلقوں کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض کی بنیاد پر ڈالر کی قیمت میں کمی اور روسی تیل کی بدولت تیل کی قیمتوں میں معمولی کمی اور چشمہ پاور پلانٹ کے افتتاح کو اپنی بڑی کامیابی بناکر ہم انتخابی مہم میں عوام کے پاس جائیں گے تا کہ ہمیں اگلے پانچ سال کا مینڈیٹ ملے۔مسلم لیگ ن کا انتخابی اتحاد نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ جس پارٹی سے اتحاد کی بات کریں گے وہ پارٹی کی پکی تصور کی جانے والی سیٹیں ہی طلب کرے گا جس سے پارٹی کے اندر مزید خلفشار پیداہوجائے گا،مسلم لیگی رہنما خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ انھیں پارٹی کے اندر کی لڑائیاں سلجھانے میں مشکل ہو رہی ہے، ایسے میں وہ کسی سے کیا اتحاد کریں گے۔جہاں تک جہانگیر ترین کی زیر قیادت حال ہی میں بننے والی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی کا تعلق ہے تو اس جماعت کے بیشتر ارکان اگرچہ الیکٹیبلز ہیں اور عمران خان کی پارٹی میں رہتے ہوئے ان کی یہ پوزیشن تھی کہ وہ جس پارٹی سے کھڑے ہوجاتے ان کی جیت یقینی ہوتی لیکن مشکل وقت میں عمران خاں کو پیٹھ دکھانے کے بعد ان میں سے بہت سے الیکشن لڑنا تو درکنار اپنے حلقہ انتخاب میں جانے کی ہمت بھی نہیں کرپارہے ہیں،جبکہ دوسری طرف عمران خان کا ووٹر اسی جماعت کا رہے گا ایسی صورت حال میں مسلم لیگ ن کا اپنی موجودہ سیٹیں بھی دوبارہ حاصل کرلینا ایک معجزہ تصور کیا جائے گا۔ اگرچہ مسلم لیگ ن کی جانب سے پنجاب میں انتخابی اتحاد کا فیصلہ نہ کرنے کا اعلان قبل از وقت یا بے وقت معلوم ہوتا ہے۔ لیکن مسلم لیگی رہنماؤں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ بیان دیا ہے اوراس کا مقصد عوام پر یہ ظاہر کرنا ہے حکومت کی گزشتہ ڈیڑھ سال کی شرمناک کارکردگی کے باوجود مسلم لیگ ن کمزور نہیں ہوئی ہے اور اب بھی تنہا الیکشن لڑنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ورنہ مسلم لیگ ن کو یہ اعلان کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ جب انتخابی عمل کا آغاز ہوتا تو یہ چیز خود بخود واضح ہو جاتی۔ اس سے انھوں نے استحکام پارٹی والوں کو بھی خبردار کر دیا اور اپنے حلیفوں کو بھی چوکنا کر دیا ہے۔جبکہ ایک حلقے کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن اور اس کے سرپرستوں نے عمران خان کو ہر صورت اگلی حکومت سے باہر رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد اس حوالے سے بنائے جانے والے منصوبے پر عمل شروع کیاجائے گا اور ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جائے گی کہ پاکستان تحریک انصاف پوری قوت سے میدان میں موجود نہ رہے۔اس خیال کو تقویت رانا ثنا اللہ کے حالیہ بیان سے ملتی ہے جس میں رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ عمران خان کسی وقت بھی گرفتار ہو سکتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو مسلم لیگ ن کے لیے انتخابی میدان کشادہ ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے مسلم لیگ ن نے ایسے اعلانات کرنے کو مناسب سمجھا جو قبل از وقت تصور کیے جارہے ہیں۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ عمران خان کی انتخابات سے قبل گرفتاری سے کیا پی ٹی آئی کو ہمدردی کا ووٹ ملنے کا امکان ہے اور اس سے مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک کو دھچکا پہنچ سکتا ہے؟اس کے جواب میں سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اب معاملہ اس سے آگے بڑھ چکا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ کے باوجود اس کی ریٹنگ میں اضافہ ہوا ہے یعنی پارٹی کے ہمدردوں کی تعداد بڑھی ہے اور عمران خان کی گرفتاری انھیں مزید عروج پر پہنچادے گی جس سے مسلم لیگ ن کو خاص طورپر زیادہ نقصان اٹھانا پڑسکتاہے۔موجودہ صورت حال میں اگر عمران خان جیل چلے جاتے ہیں تو ووٹر اور پارٹی کے درمیان رابطے کی کڑی کمزور نہیں پڑے گی بلکہ مزید مضبوط ہوجائے گی اور 1970 کی یاد تازہ ہوجائے گی جب بھٹو کے بہت سے جاں نثاروں نے جیل میں رہتے ہوئے بھاری مارجن سے کامیابی حاصل کی تھی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں