چین اور امریکا کے مابین’’پانی ‘‘ پر جنگ کا آغاز ہوچکا ہے؟
شیئر کریں
آج کی دنیا میں چین اور امریکا کی دشمنی ضرب المثل ہے اور یہ دونوں ممالک عالمی معیشت کا میدان ہو یا پھر بین الاقوامی سفارت کاری کی رزم گاہ غرض ہر محاذ پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی چھوٹا سا چھوٹا موقع بھی اپنے ہاتھ سے ضائع جانے نہیں دیتے۔ لیکن دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین اور امریکا عسکری میدان میں براہ راست اُلجھنے سے ہمیشہ گریز کی پالیسی پر عمل پیرا رہے ہیں ۔ یعنی بیجنگ اور واشنگٹن آپس میں باقاعدہ جنگ کی بہ نسبت ایک دوسرے کے خلاف پراکسی وار کو زیادہ ترجیح دیتے رہے ہیں ۔لیکن اَب یہ محسوس ہورہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کی نوعیت شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی ہے اور بیجنگ اور واشنگٹن براہ راست عسکری جنگ نہ کرنے کی اپنی پرانی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے بہت جلد آپس میں باقاعدہ جنگ کا آغاز کرنے والے ہیں ۔
ہمارے اِس اندیشہ کی تصدیق رواں ہفتہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی زینت بننے والی اُس خبر سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق بیجنگ نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’چینی بحری افواج نے ساؤتھ چائنہ سی میں متنازعہ جزائر کے قریب غیر قانونی طور پراُس کے پانیوں میں داخل ہونے والے امریکا کے ایک جنگی بحر ی جہاز کو نہ صرف روکا بلکہ اُسے زبردستی واپس جانے پر مجبور بھی کیا ہے‘‘۔اس حوالے سے یہ پیپلز لبریشن آرمی کے جنوبی تھیٹر کمانڈ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’’امریکی جہاز نے پاراسل جزائر کے گرد اُس کے علاقائی پانیوں میں داخل ہو کر چین کی خودمختاری اور سالمیت کی سنگین خلاف ورزی کی تھی،جس پر چینی بحری افواج نے فوری کارروائی کرتے ہوئے امریکی بحری جہاز کو ڈرا دھمکا کر ساؤتھ چائنا سی سے بے دخل ہونے پر مجبور کردیا ۔ لیکن ساؤتھ چائنا سی میں امریکا کی اس جارحانہ کارروائی سے ثابت ہوتا ہے کہ واشنگٹن جان بوجھ کر ساؤتھ چائنا سی میں علاقائی امن و استحکام کو نقصان پہنچا نے کا ارادہ رکھتا ہے‘‘ ۔علاوہ ازیں چینی فوج نے عالمی ذرائع ابلاغ کو امریکی جنگی بحری جہاز بینفولڈکی متنازعہ جزائر میں داخلے اور پھر بعدازاں اُس کے بے دخلی کی تصاویر بھی جاری کی ہیں ۔
دوسری جانب امریکی بحریہ کے ترجمان نے اِس سارے معاملہ پر اپنا موقف دیتے کہا ہے کہ ’’چینی افواج کا بیان سراسر جھوٹ پر مبنی ہے ، جس میں رتی برابر بھی سچ شامل نہیں ہے ۔کیونکہ چین ہمیشہ سے ساؤتھ چائنا سی میں امریکی بحری آپریشنز کو غلط رنگ دے کر جنوب مشرقی ایشین پڑوسیوں کے ایما پر اپنی سمندری حدود میں امریکی بحریہ کی مداخلت کے جھوٹے دعوے کرتے رہا ہے۔حالانکہ بین الاقوامی قواتین کے تحت ساؤتھ چائنا سی میں جہاں بھی دنیا کی تمام بحری افواج کو نقل و حمل کا حق حاصل ہے۔امریکی بحریہ اُسی علاقے میں اپنے بحری نقل و حمل کرتی ہے اور مذکورہ جگہوں پر امریکی افواج کو اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق بحری سفر اور بحری مشقیں کرنے کا حق حاصل ہے اور امریکی افواج چین کے کسی بھی ناقدانہ بیان کی وجہ سے اپنی بحری نقل و حرکت ساؤتھ چائنا سی میں محدو د نہیں کرے گی ‘‘۔نیز ایک اورالگ بیان میں امریکی بحریہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ’’ امریکی رانلڈ ریگن کیریئر سٹرائیک گروپ ساؤتھ چائنا سی میں آپریشن چلا رہا ہے اور یہ ’معمول‘ ‘کے مطابق ہے اور اُن کے جہاز یو ایس ایس بینفولڈ نے بین الاقوامی قوانین کے تحت ساؤتھ چائنا سی میں پاراسل جزیروں پر نیویگیشن اور آزادی کے حقوق استعمال کیے اور یہ گروپ بین الاقوامی میری ٹائم سکیورٹی کے آپریشن کا حصہ ہے جس میں فلائٹ آپریشنز، بحری دفاعی مشقیں اور فضائی و بحری یونٹس کے درمیان تکنیکی تعاون کی تربیت شامل ہے‘‘۔
خیال رہے کہ ساؤتھ چائنا سی پر امریکا کے اتحادی ممالک جاپان اور جنوبی کوریا کے علاوہ دنیا کے کئی دیگر ممالک بھی مثلاً ویت نام ، فلپائن ، ملائشیا، تائیوان اور برونائی بھی حق ملکیت کے دعوے دار ہیں ۔لیکن بیجنگ ہمیشہ اِن تمام ممالک کے دعووں کو سختی کے ساتھ رد کرتا آیا ہے اور چین کا دیرینہ موقف ہے کہ مکمل ساؤتھ چائنا سی کا وہ اکیلا مالک ہے ۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ چین نے یہاں کچھ مصنوعی جزیرے بھی تعمیر کیے ہیں جن میں بحری بندرگاہیں اور فضائی اڈے شامل ہیں۔یاد رہے کہ 1974 کے دوران چین نے اس وقت کی جنوبی ویتنام کی حکومت سے پاراسل جزیروں کا کنٹرول حاصل کرکے خود سنبھال لیا تھا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ امریکی اور اُس کے اتحادی ممالک نے کبھی ساؤتھ چائنا سی میں چین کی مکمل ملکیت کو تسلیم نہیں کیا اور یہاں امریکا کے اتحادی ممالک جاپان اور ساؤتھ کوریا کو جب موقع ملتا ہے ،وہ یہاں چینی بحریہ کو زک پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔جبکہ ساؤتھ چائنا سی کے پانیوں میں امریکی بحری افواج خود بھی باقاعدگی سے بحری مشقیں کرتی ہیں۔ ساؤتھ چائنا سی میں ہونے والی بحری مشقوں کو امریکا نے نے فریڈم آف نیویگیشن آپریشنز کا نام دیا ہوا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں ہفتہ کو بین الاقوامی ٹرائبیونل کے اُس جانب دارانہ اور یک طرفہ فیصلے کو بھی پورے چھ سال مکمل ہوئے ہیں جس میں امریکا کی ایما پر ساری دنیا نے چین کے ساؤتھ چائنا سی پر دعوے کو رد کیا گیا تھا۔
اگرچہ چین نے بین الاقوامی ٹرائبیونل کے اِس معاندانہ فیصلہ کبھی تسلیم نہیں کیا ،لیکن اس کے باوجود امریکا اور اسی اتحادی ممالک ساؤتھ چائنا سی کو تجارتی اور عسکری سرگرمیوں کے لیئے ببانگ دہل استعمال کرتے رہتے ہیں اور اس بحری راہداری کی مدد سے ہر سال تین ٹریلین ڈالر کی عالمی تجارت کی جاتی ہے۔ساؤتھ چائنا سی یہ ہی وہ معاشی افادیت جس کی بناء پر امریکا اُس پر اپنے حق ملکیت کے سے دست بردار نہیں ہونا چاہتا ،جبکہ بیجنگ جلد ازجلد پورے ساؤتھ چائنا سی کو اپنے کنٹرول میں لینے کے جنون میں مبتلاء ہے۔ ساؤتھ چائنا سی میں امریکا اور چینی بحری افواج کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی شدت کو دیکھتے ہوئے ۔اکثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ساؤتھ چائنا سی بہت جلد بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان میدانِ جنگ بننے والا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭