بارشیں،بے ضا بطگیاں ،بدعنوانیاں
شیئر کریں
13جون سے30جون تک پری مون سون اور پھر 3جولائی سے اب تک جاری مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں سیلابی ریلوں ، طوفانی ہوائوں کے باعث درماندہ بلوچستان کے بیس سے زائد اضلاع شدیدمتاثر ہوئے ہیں ۔یہاں تک کہ صوبے کا دار الخلافہ کوئٹہ اور مضافات میں تباہی مچی۔ مکانات منہدم ہوئے ،اموات ہو ئیں۔ صوبے کے اندر69افراد جاں بحق ہوئے ہیں ان میں 24 خواتین اور24بچے شامل ہیں۔ایک ہزار سے زائد مکانات تباہ ہوئے ہیں۔ حفاظتی پشتے ،بندات ،ڈیم ،کینالز اور پل پانی میں بہہ گئے ۔کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔صوبائی حکومت نے مختلف علاقوں میں ڈیمز اور کینالز کی غیر معیاری تعمیر کی تحقیقات اور تجاوزات کے خلاف کارروائی کا ارادہ کیا ہے ۔ اللہ کرے کہ بیان اور ارادے میں سچے ثابت ہوں ۔پی ڈی ایم اے کی نا اہلی کی انتہا کہ ہلاکتوں اور نقصانات کی درست تعداد بھی معلوم نہیں ۔ حالانکہ ہلاکتیں کئی زیادہ ہوئی ہیں، جورپورٹس میں کم بتائی گئی ہیں۔ متاثرہ اضلاع کی انتظامیہ کامرتب کردہ ریکارڈ بھی ان کے ڈیٹا کا حصہ نہیں۔ جس کی وجہ سے مرنے والوںکے لواحقین معاوضے سے محروم رہیں گے، اور نقصانات کی حقیقی تصویر پوشیدہ رہے گی۔ دراصل پی ڈی ایم اے اور دوسرے متعلقہ محکموں میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی سرے سے اہلیت نہیں۔ 2005ء کے زلزلے کے بعد این ڈی ایم اے ور صوبائی سطح پر پی ڈی ایم اے بنائے گئے تاکہ قدرتی آفات کے دوران یا پیشگی اقدامات کرکے نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے۔پی ڈی ایم اے بلوچستان کے بارے میں آڈیٹر جنرل پاکستان نے اپنی2019-20کی آڈٹ رپورٹ میں یہ نکتہ اٹھایا تھاکہ ’’پی ڈی ایم اے کے قیام کا مقصد وسائل کے مؤثر استعمال کو یقینی بناکر آفات کی روک تھام اور تباہی کے خطرات کو کم کرنا ہے۔ اس کے لئے پی ڈی ایم اے کو سالانہ بنیادوں پر منصوبے بنانے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ پی ڈی ایم اے کی سرگرمیوں کا بڑا زور آفت کے بعد کی سرگرمیوں پر ہے۔ ‘‘آدیٹر جنرل نے درست نشاندھی کی ہے، ہر بار کی طرح حالیہ بارشوں میں بھی دیکھا گیا کہ کئی علاقوں میں ریسکیوکا کام شروع ہونے سے پہلے ہی ریلیف یعنی خیموں اور راشن کی تقسیم کا کام شروع کیاگیا۔پیشگی اقدامات اور منصوبہ بندی کی بجائے آفات کے دوران یا بعد میں ہنگامی طور پر فنڈز کا اجراء کیا جا نے کا مقصد خلاف ضابطہ، غیر معیاری اور مہنگے داموں خریداری اور اخراجات ہیں۔یہ وارداتیں احتساب و محاسبہ کے اداروں کی ملی بھگت سے ہوتی ہیں۔ پی ڈی ایم اے خود مختار نہیں اور صوبائی وزیر داخلہ کے ماتحت ہے ۔ وزیرہی کی منشا و مرضی پر تعیناتیاں ہوتی ہیں۔ صوبے اور وفاق سے ملنے والے فنڈز وزیر کی ترجیحات کی تحت خرچ ہوتے ہیں ۔در حقیقت پی ڈی ایم پرکشش محکمہ بن چکا ہے ۔ جہاں دوسرے محکموں کے افسران و ملازمین بڑی سفارشیں کراکر ڈپوٹیشن پر چلے جاتے ہیں ۔پی ڈی ایم اے کو چلانے والے تین ڈائریکٹرز ہیں۔ ان میں ایک محکمہ جنگلات کے گریڈ17کا افسر جس نے خود کو خلاف قانون محکمہ میں ضم کرایا ہے ۔ دوسرا ڈائریکٹر موصوف محکمہ تعلیم کے اندر گریڈ17کا ٹیچر ہے ۔ اس کی تعیناتی بھی قانون کو روندتے ہوئے عمل میں لائی گئی ہے۔ اور ایک ڈائریکٹر، تحصیلدار ہے ،جسے سینیٹر سرفراز بگٹی نے پی ڈی ایم اے میں لاکر بٹھایا جب وہ محکمہ داخلہ کے وزیر تھے۔ پی ڈی ایم ا ے میں محکمہ تعلیم کے دو معلم اس وقت ڈیپوٹیشن پر تعینات ہیں ۔ گویا یہ سارے مالی فوائد و مقاصد کی خاطر لپکے ہیں ۔وگرنہ ان کی قابلیت و اہلیت ہے اور نہ ڈیزاسسٹر مینجمنٹ کی الف ب سے واقف ہیں۔ادارہ کے پاس ڈیزاسسٹر رسک ریڈیکشن کے شعبہ سے وابستہ تجربہ کار یا ماہرین نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ مون سون سے نمٹنے کے پیش نظر سالانہ منصوبہ بندی کرنے والا بھی نہیں ہے۔ نہ موسمیات کے ماہر ہیں ۔ زلزلہ اور دیگر آفات سے نبرد آزمائی کے آلات ہیں نہ اس نوع کے آلات استعمال کرنے کا تربیت یافتہ عملہ ہے۔ چند ماہ قبل قلعہ سیف اللہ میں بچہ کنویں میں گر گیا تھا اطلاع پر پی ڈی ایم اے کے دو افراد اس مقام پر پہنچے تھے۔
المیہ دیکھیے کہ درکار تکنیکی آلات تو کیا ان کے پاس رسی تک نہ تھی۔ افغان حکومت نے ماہر بندہ دینے کی آفر کی تھی۔ شرط یہ تھی کہ اسے افغانستان سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے قلعہ سیف اللہ پہنچایا جائے۔ مگر انہوں نے کوئی ہل جل نہ دکھائی۔غرض دفعتا ً ایمرجنسی کا اعلان بھی دراصل فنڈز کے اجرا اور استعمال کے لئے ماحول پیدا کرنے کا حربہ ہے۔ نیت فنڈز کی غتر بود کی ہوتی ہے ہوتی ہے ۔چناں چہ حال میں صوبے کے34اضلاع میں سے18کو مکمل اور جزوی طور پر آفت زدہ قرار دیا ہے۔ 9اضلاع کو مکمل جبکہ باقی 9اضلاع کی45یونین کونسلوں اور دیہاتوں کو آفت زدہ قرار دیاگیا ہے۔اس عمل میں بھی سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال ہوا اور کئی ایسے اضلاع کو بھی مکمل آفت زدہ قرار دیا گیا جہاں تباہی کم ہوئی۔ ۔ بازار سے پکی پکائی دیگوں کی خرید لوٹ مار کا ذریعہ بنادیا جاتا ہے۔کورونا کی پہلی لہر کے دوران صرف23دنوں کے کھانے کا6کروڑ روپے بل بنا تھا۔اس دوران ایک ارب 80کروڑ روپے کے اخراجات میں حیران کن بے ضابطگیاں دیکھنے کو ملی تھیں ۔لڈو ، تاش اور بچوں کے کھلونے کی خریداری کی مد میں لاکھوں روپے اخراجات ظاہر کئے گئے۔ اس بنا ء آڈیٹر جنرل نے آفات کے دوران ہنگامی خریداری کے طریقہ کار پر بھی’’ آڈٹ پیراز‘‘ لگاتے ہوئے ذمے داران کے تعین کے لئے تحقیقات کی سفارش کی، مگر اس جانب کوئی جنبش نہ ہوئی۔تب بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف نے اخراجات بارے شور بلند کیا تھا۔ اب تو خیر حزب اختلاف حکومت کی ہو کر رہ گئی ہے۔نہ اب انہیں ہیر پھیر نظر آر ہی ہے ۔گزشتہ کی مانند اس بار سرکار اور متعلقہ محکموں کی کارکردگی اور اعمال مزید عیاں ہوئے ہیں۔ وزارت و محکمہ بلدیات عضو معطل ہے ۔اس کا رونا جام کمال خان اپنی وزارت اعلیٰ میں روتے رہیں۔ صالح بھوتانی سے قلمدان لے کر گہرام بگٹی کو سونپا گیا،حالت مگر وہی رہی ۔موجودہ حکومت نے یہ وزارت دوبارہ صالح بھوتانی کو سونپ دی ہے۔ گویا معاملہ ’’ میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں ‘‘کے مصداق ہے ۔ وزارت بلدیات، محکمہ بلدیات،ڈپٹی کمشنر اور کمشنر دفاتر ، میٹرو پولیٹن کارپوریشن ہر لحاظ سے بد عنوانی کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ یہاں ہر ایک پیسہ بٹور کر شہر کوئٹہ کو ہر دن گزرنے کے ساتھ تباہی کے بھنور میں دھکیلنے میں جتا ہوا ہے۔ شہر کے رہائشی علاقے دھڑا دھڑ کمرشل میں تبدیل ہونے دیے جارہے ہیں۔ بڑے بڑے کاروباری پلازے تعمیر ہورہے ہیں۔ نقشہ اور دیگر لوازمات میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے متعلقہ دفاتر بعد ازاں کمشنر آفس کے بڑے چھوٹے سرکاری ملازم رشوت لے کر پورے کردیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے شہر میں ٹریفک کا نظام دھرم بھرم ہے۔
ٹریفک پولیس لاکھ جتن کرے بھلے ،شہر کے اندر دس ہزار اہلکار تعینات کرے ایسی صورتحال میں ٹریفک اور شہر میں میں بھیڑ کا حل نہیں نکالا جاسکتا۔ گلی محلوں کا تیزی سے اس رشوت خوری کے باعث کاروباری و تجارتی پلازوں میں تبدیلی ہی دراصل جملہ مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔ اس بربادی میں محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور واسا برابر ملوث ہے۔ شہر اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے تجارتی پلازتوں میں نجی ٹیوب ویل کی تنصیب ہوچکی ہے اس طرح موجود پانی کے بحران میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ زیر زمین پانی کئی علاقوں میں ختم ہوچکا ہے۔ جہاں موجود ہے وہاں پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے ۔ میٹرو پولیٹن کے اندر نقشہ نویس اور تجاوزات کے آفیسر ہوتے ہوئے اب وسطی شہر کی اکثر شاہراہیں تاجروں کے پارکنگ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ کوئی مائی کا لال یہ شاہراہیں کھلوا نہیں سکتا۔ عمارتیں ساری کی ساری مروجہ بلڈنگ کوڈ کے بر خلاف تعمیر ہورہی ہیں۔تہہ خانے ممنوع ہے مگر شاید ہی کوئی عمارت بغیر تہہ خانے کے ہوبلکہ اب تو زیر زمین دو منزلہ تہہ خانے بھی بنائے جارہے ہیں۔ عمارتوں کے چھجے کئی کئی فٹ نکالے جاچکے ہیں۔ سیاسی جماعتیں شہری مسائل پر خاموش ہیں۔ احتساب اور انسداد رشوت ستانی کے ادارے جیسے اس دھندے میں شریک ہوں۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن شہر کے پارک اور کھیل کے میدان برباد کرچکی ہے۔ چناں چہ ضروری ہے کہ عدالت عالیہ بلوچستان اس بربادی کا نوٹس لے، عدالت خود شہر کا دورہ کرے۔ اس وقت بھی شہر کے رہائشی علاقوں میں بڑے بڑے تجارتی پلازوں کی تعمیر کا کام ہورہا ہے۔ضروری ہے کہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے اندر حرام خوری ار رشوت بازاری پر فوری ہاتھ ڈالا جائے ۔ اگر حالیہ بارشوں کے باعث کوئٹہ کے اندر نقصانات کی وجہ برساتی نالوں پر تجاوزات کی تعمیر ہیں تویہی محکمے قصور وار ہیں۔طرہ یہ کہ صوبائی حکومت نے تجاوز ات ہٹانے اور نالوں کی صفائی وغیرہ کے لیے سات کروڑ مختص کئے ،اگر یہ رقم میٹرو پولیٹن کاروریشن بروئے کار لاتی ہے تو یہ بلی سے گوشت کی رکھوالی کے مترادف ہے ۔دوئم معمول سے زیادہ پری مون سون اور مون سون بارشوں کی پیشنگوئی کے پیش نظروفاقی حکومت اور وفاقی وزارت ماحولیاتی تبدیلی نے تب ہی صوبائی حکومتوں کو ضروری پیشگی اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی تھی۔ مگر پی ڈی ایم اے اور نہ ہی دیگر اداروں نے کوئی تیاری کی۔یہ رقم تب نالوں کی صفائی اور تجاوزات ہٹانے پر لگائی جاتی ۔عالم یہ کہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن ،محکمہ بلدیات اور وزارت کی جانب سے مسائل کے حل سے متعلق اقدامات محض اخبارات پر تصاویر اور بیانات تک محدود ہیں۔ دروغ گوئی سے کام چلا ئے جارہے ہیں ۔ اب تو ان کی کارکردگی کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ پڑا ہے۔ مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں ڈیموں اور حفاظتی پشتوں کا بہہ جانا فی الحقیقت اراکین اسمبلی ا،محکمہ ایری گیشن ،انجینئرز اور ٹھیکیداروں کی ملی بھگت ، ناقص و غیر فنی تعمیر ،بدعنوانی اور کمیشن خوری ہے۔ ڈیلے ایکشن ڈیم اگر کنکریکٹ کے اندر مطلوب معیاری میٹرویل استعمال ہو تو کبھی نہ ٹوٹے ۔ توجہ کوئٹہ کے پہاڑوں میں موجود سیلابی پانی کی گذر گاہوں پر مرکوز ہونی چاہیے، جو تقریباً قبضہ ہوچکے ہیں۔قبضے واگزار کرکے آبی گذر گاہوں پر مزید ڈیلے ایکشن ڈیم تعمیر کئے جائیں۔ کوہ مردار کے دامن واقع پشتون درہ میں’’ اسی ‘‘بعد ازاں’’ نوے ‘‘کی دہائی میں بارش اور سیلابی پانی ذخیرہ کرنے کے لئے بند تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ بہترین واٹرری چارجنگ پوائنٹ ہے۔1986ء میں یہ ڈیم بھر جانے کے باعث ٹوٹ گیا تھا۔ جس کے بعد اس سے آگے بند تعمیر ہوا۔ یوں دونوں مقامات پر آبادیاں تعمیر ہوئی ہیں۔ ضروری ہے کہ حکومت اسی کے دہائی والے مقام پر کنکریٹ کا بند تعمیر کرے جس سے زیر زمین پانی کی سطح کی بلندی کو کافی مدد ملے گی اور خوبصورت پہاڑی دوروں پر مشتمل یہ مقام ایک اچھی تفریح گاہ بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔