مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا اعلان
شیئر کریں
یہ عجیب اتفاق ہے کہ گزشتہ اتوار کو جس وقت وزیراعظم نریندرمودی نے حیدرآباد کے ایک عوامی جلسہ میں بی جے پی لیڈروں کو پسماندہ مسلمانوں کے حق میں کام کرنے کا مشورہ دیا، اسی وقت بی جے پی کے اقتدار والی ریاست ہریانہ میں مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ کرنے کااعلان کیا گیا۔ہرچند کہ اپیل کرنے والے بی جے پی کے لوگ نہیں تھے، لیکن یہ اسی سنگھ پریوار کے لوگ تھے جس کا ایک سیاسی بازو بی جے پی بھی ہے۔ آرایس ایس کی ذیلی تنظیموں وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل نے ہریانہ کے مانیسرمیں ایک پنچایت منعقد کرکے مقامی مسلمانوں کے خلاف خوب بھڑاس نکالی اور انھیں پاکستانی، روہنگیا اور بنگلہ دیشی قرار دیتے ہوئے انھیں ہریانہ بدر کرنے کے اعلانات کیے گئے۔
پنچایت میں مسلم دکانداروں کے معاشی بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہاگیا کہ مانیسرمیں روہنگیا، بنگلہ دیشی اور پاکستانی مسلمان اپنی شناخت چھپاکر رہ رہے ہیں اور انھوں نے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے اپنی جوس کی کئی دکانوں اور سیلون کے نام ہندو دیوی دیوتاں کے نام پر رکھے ہوئے ہیں،لہذ ان کی شناخت کرکے انہیں کھدیڑنا چاہئے۔ پنچایت میں موجود کئی شرپسندوں نے عہد کیا کہ وہ مسلم دکانداروں سے کسی طرح کی خرید فروخت نہیں کریں گے اور ان کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اس موقع پر حلال اشیا کا بائیکاٹ کرنے کا بھی اعلان کیا گیااورہندوں سے کہا گیا کہ وہ مسلمانوں کے سیلون میں بال نہ کٹوائیں۔ انھیں اپنے گھر کرائے پر نہ دیں اور ان کی دکانوں سے پھل نہ خریدیں وغیرہ وغیرہ۔
اس سے قبل ہریانہ کے ہی صنعتی شہر گڑگاں میں ادے پور اور امراوتی میں ہوئے قتل کے خلاف تمام ہندو تنظیموں کی ایک پنچایت میں سیکڑوں لوگوں نے علاقہ میں رہنے والے تمام باہری لوگوں کی نشاندہی کرکے ان کو باہر کا راستہ دکھانے کی بات کہی تھی۔ اس معاملے میں ڈیوٹی مجسٹریٹ کو ایک میمورنڈم سونپ کر سات دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اگر ان کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا تو ہندو خود ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔اس سے زیادہ بڑی ایک پنچایت بلائی جائے گی اور آگے کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔اس پنچایت میں بھی مسلمانوں کے خلاف خوب بھڑاس نکالی گئی اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔حالانکہ اس پنچایت سے پہلے منتظمین نے پولیس کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ امن کے ساتھ پنچایت کریں گے اور کسی قسم کی اشتعال انگیزی نہیں کریں گے، لیکن اس کے باوجود اس پنچایت میں کھلے عام مسلمانوں کو پاکستانی، بنگلہ دیشی اور روہنگیا قرار دے کر ان کا معاشی بائیکاٹ کرنے اور انھیں الگ تھلگ کئے جانے کی باتیں کہی گئیں اور پولیس نے ان پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
سبھی جانتے ہیں کہ قانونی طورپر ہندوستان کاکوئی بھی شہری کہیں بھی بودوباش اختیار کرنے اور کاروبار کرنے کے لیے آزادہے۔ مسلمان ہریانہ کے کئی حصوں میں برسہا برس سے آباد ہیں اور پرامن طریقے سے اپنے کاروبار کرتے چلے آئے ہیں، لیکن جب سے وہاں بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، ان کا جینا حرام کردیا گیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اسی گڑگاں میں جہاں ہزاروں مسلمان ملٹی نیشنل کمپنیوں میں برسرروزگار ہیں، ان کے لیے نماز جمعہ کی ادائیگی کے راستے بند کردیئے گئے تھے۔ درجنوں مقامات پر جہاں برسوں سے جمعہ کی نماز ادا ہورہی تھی، وہاں اس پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
ہریانہ میں مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے کی کارروائیاں ادے پور واردات کے بعد سے بڑھ گئی ہیں۔ سنگھ پریوار کے لوگ مختلف حصوں میں پنچایتیں کرکے مسلمانوں کے خلاف محاذآرائی کررہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ادے پور میں کنہیا لال کے بہیمانہ قتل کی جس وسیع پیمانے پر مسلمانوں نے مذمت کی ہے، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ تمام مسلم قائدین، مسلم تنظیموں نے اس وحشیانہ قتل کو اسلامی تعلیمات کے صریحا خلاف قرار دیتے ہوئے قصورواروں کو قرارواقعی سزا دئیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس بہیمانہ قتل کے حق میں کسی ایک مسلمان نے بھی آوازبلند نہیں کی جبکہ اس سے قبل گکشی کے جھوٹے الزامات لگاکر ملک کے مختلف حصوں میں درندگی اوربربریت کے ساتھ مسلمانوں کی جانیں لینے والوں کی حمایت میں نہ جانے کتنی تنظیمیں اور قانونی ماہرین میدان میں آئے۔ اتنا ہی نہیں جھارکھنڈ میں ایک بے گناہ مسلمان کی لنچنگ کرنے والوں کو ضمانت پررہا ہونے کے بعد ایک مرکزی وزیر نے باقاعدہ پھولوں کے ہارپہناکر ان کی حوصلہ افزائی کی۔خود اسی راجستھان کے راجسمند علاقہ میں 2018میں جب ایک وحشی درندے شمبھولال ریگر نے ایک بنگالی مزدور محمدافرازل کی کلہاڑے سے جان لے لی تھی اور باقاعدہ اس کا ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر ڈالا تھا تو اس کی حمایت میں سینکڑوں لوگ میدان میں آگئے تھے۔یہاں تک کہ اسے2019کا پارلیمانی چنا لڑانے کی بھی باتیں ہوئی تھیں۔ شمبھولال کو قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے باقاعدہ سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی تھی، جس کے نتیجے میں پانچ سوسے زیادہ افراد نے اس کی بیوی کے کھاتے میں تین لاکھ روپے جمع کرادئیے تھے۔بدترین مجرموں اور قانون شکنی کرنے والوں کا دفاع کرنے کی اس ملک میں ایک پوری تاریخ موجود ہے۔
حال ہی میں جب سپریم کورٹ نے نوپور شرما کی دریدہ دہنی اور ملک کا امن وامان غارت کر نے کے خلاف سخت ریمارکس دئیے تو بھکتوں کی پوری فوج سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوگئی اور ملک کی سب سے بڑی عدالت کے خلاف ایسے ایسے بے ہودہ تبصرے کئے گئے کہ انھیں یہاں نقل کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ جب اس سے کام نہیں چلا تو حکومت نواز سابق ججوں اور سابق سرکاری افسروں نے ایک بیان جاری کرکے سپریم کورٹ سے ریمارکس واپس لینے کا مطالبہ کیا۔15/سابق ججوں اور 77/ سابق اہل کاروں نے الزام عائد کیا کہ عدالت نے اس معاملے میں لکشمن ریکھا پار کردی۔انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ عدالت کی تاریخ میں یہ ریمارکس بدبختانہ، بے جوڑاور سب سے بڑی جمہوریت کے نظام انصاف کے لیے ایسا داغ ہیں جنھیں مٹایا نہیں جاسکتا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان سابق ججوں اور سبکدوش سرکاری افسروں نے نوپورشرما کی دریدہ دہنی کے خلاف عدالت عظمی کے بیان پر تو سخت الفاظ میں تنقید کی ہے، لیکن اس بیان میں کہیں بھی نوپور شرما کے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات چھلنے کردینے والے بیان کی مذمت نہیں کی گئی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سابق ججز اور سبکدوش افسران اسی فسطائی ذہنیت کے آلہ کار ہیں جو آج کل ملک میں ہرطرف اپنا جلوہ دکھا رہی ہے۔اسی ذہنیت نے آج تک نوپور شرما کو قانون کے لمبے ہاتھوں سے دور رکھا ہے اور ان تمام لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا جارہا ہے،جو نوپور شرما پر تنقید کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ کو بھی اسی وجہ سے اپنی حدوں میں رہنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان تبصروں سے عاجز آکر خود نوپورشرما کیس کی سماعت کررہے جسٹس جے بی پاردی والا کو یہ کہنا پڑا کہ اس قسم کے تبصروں سے قانون کی حکمرانی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور قانونی اداروں کا وقار مجروح ہورہا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہڈیجیٹل میڈیا ٹرائل عدلیہ کے کام کاج میں دخل ہے۔ یہ لکشمن ریکھا کو پار کرجاتا ہے۔ اب یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملک کو درپیش سنگین حالات پر سپریم کورٹ کی فکرمندی لکشمن ریکھا کو پارکررہی ہے یا پھر وہ لوگ لکشمن ریکھا کو عبور کررہے ہیں جو ملک کی سب سے بڑی عدالت پر کیچڑاچھال رہے ہیں یا مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا اعلان کرکے قانون شکنی کے مرتکب ہورہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔