
مذاکرات کے درمیان ایران پر اسرائیلی حملہ کیوں؟
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
ڈگلس میکگریگر ایک ریٹائرڈ امریکی کرنل، تجربہ کار جنگجو اور عسکری ماہر ہیں۔ وہ سابق امریکی وزیرِ دفاع کے مشیر، مصنف، مشیر اور ٹی وی پر عسکری تجزیہ کار کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ دفاعی اور جغرافیائی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور "OurCountryOurChoice.com” کے مشاورتی بورڈ کے چیئرمین بھی ہیں۔ اپنے تازہ آرٹیکل میں کیا لکھتے ہیں کہ گزشتہ 72 گھنٹوں میں، جب واشنگٹن اور تہران کے درمیان مذاکرات جاری تھے، اسرائیل نے ایران پر پیشگی حملہ کر دیا۔ایران اس حملے سے غافل ضرور تھا، لیکن اسرائیل کے اندازے سے کہیں زیادہ تیزی سے سنبھل گیا ۔ بالکل ایک نئے "پرل ہاربر لمحے” سے۔
اسرائیل کے اس حیران کن حملے کے صرف 18 گھنٹوں کے اندر، ایران نے بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے سینکڑوں بیلسٹک میزائل ۔ جن میں ہائپر سونک میزائل بھی شامل تھے ۔تل ابیب اور اسرائیل کے مختلف علاقوں پر داغ دیے۔اسی دوران اسرائیل کا آئرن ڈوم ناکام ہوا۔ اسرائیلی انٹیلی جنس ناکام ہوئی۔اب نیتن یاہو واشنگٹن سے امریکی فوجی طاقت کے ذریعے اسرائیل کو بچانے کی بھیک مانگ رہا ہے ۔اْس شکست سے جو اْسی نے خود واشنگٹن کے اشاروں پر بنائی۔ادھر روس، چین، پاکستان اور بیشتر مسلم دنیا ایران کی حمایت میں متحد ہو رہے ہیں۔ ایران کو سپلائیز، آلات اور تکنیکی مدد کی تیز تر فراہمی جاری ہے۔
اب حقیقت کا سامنا کرنے کا وقت ہے: واشنگٹن نے 2003 سے اب تک مشرق وسطیٰ میں 12 کھرب ڈالر جھونک دیے۔نتیجہ؟ 7,000 امریکی ہلاک، 50,000 زخمی، کھلی سرحدیں، اور ہر سال 100,000 امریکی فینٹانائل کے زہر سے مر رہے ہیں۔آج امریکہ 37 کھرب ڈالر کے قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔ اور یہ رقم ایجنسی قرضوں کے بغیر ہے۔ 77 ملین امریکیوں نے صدر ٹرمپ کو اس وعدے پر ووٹ دیا کہ وہ غیر ملکی جنگوں کا خاتمہ کریں گے اور تیسری عالمی جنگ کو روکیں گے۔ٹرمپ کا مینڈیٹ اب بھی وہی ہے:امریکہ کی سرحدوں، بندرگاہوں، اور سمندری حدود کا دفاع۔غیر قانونی تارکینِ وطن کو نکالنا، مجرموں کو کچلنا جو امریکیوں کو قتل اور زیادتی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔قانون کی بالادستی کو بحال کرنا۔لیکن اب امریکی خون کا ایک قطرہ بھی غیر ملکی جنگوں کے لیے نہیں بہے گا۔
اگر اسرائیل نے خرق جزیرے (Kharg Island) جہاں سے ایران کی 90 فیصد تیل برآمدات ہوتی ہیں ۔یا بندر عباس پر حملہ کیا، تو ایران آبنائے ہرمز بند کر دے گا۔اس کا مطلب ہے کہ دنیا کی 20 فیصد تیل کی رسد رک جائے گی۔پھر؟ سپلائی چین متاثر، مہنگائی بے قابو، پیٹرول کی قیمت فی گیلن 7 ڈالر،ہر محنت کش گھر برباد، ٹرک بند، کھانے کی رسد رْک جائے گی، معیشت تباہ — صرف اس لیے کہ اسرائیل، جو اس پاگل پن کی جنگ کا آغاز کر چکا، امریکہ کو ایک وسیع تر جنگ میں گھسیٹ لے؟ ایک ایسی جنگ جس میں جوہری ہتھیاروں کا استعمال بھی ممکن ہے؟
ہماری 40,000 امریکی فوجیں یو اے ای، قطر اور خلیج فارس میں موجود ہیں — وہ سب ایرانی حملوں کے لیے آسان نشانے بن چکی ہیں۔ایرانی "شاہد 136” ڈرون کی قیمت صرف 20,000 ڈالر ہے۔ ایک امریکی پیٹریاٹ میزائل کی لاگت 40 لاکھ ڈالر ہے۔ذرا حساب لگائیں !ہم اپنی میزائل ذخیرہ گنوا دیں گے، دیوالیہ ہو جائیں گے اور ہمارے فوجی تابوتوں میں واپس آئیں گے۔واشنگٹن کو اب جو اقدامات کرنے چاہئیں وہ یہ ہیں: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جائے۔فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا جائے اور واضح کیا جائے کہ امریکہ ایران، اسرائیل یا کسی بھی مشرق وسطیٰ کی ریاست کی تباہی کے حق میں نہیں۔ اسرائیل سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ فلسطینیوں کا قتل بند کرے اور غزہ و مغربی کنارے سے اپنی افواج واپس بلائے۔ جب تک اسرائیل ان شرائط کو پورا نہیں کرتا، اس وقت تک اسرائیل کو ہر قسم کی فوجی امداد معطل کی جائے۔
غیر جانبدار ممالک کی افواج کو غزہ اور مغربی کنارے میں تعینات کرنے کی تجویز دی جائے تاکہ امن قائم رکھا جا سکے۔ امریکہ، روس، چین، بھارت اور برازیل پر مشتمل ایک امن کانفرنس منعقد کی جائے، جو ایران، اسرائیل اور اس کے ہمسایہ ممالک کے درمیان تنازع حل کرے۔میں نے خود امریکی فوجیوں کو میدان جنگ میں لیڈ کیا ہے۔میں نے قومی پرچم میں لپٹے تابوتوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میں مزید تابوت نہیں دیکھنا چاہتا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امکان ظاہر کیا ہے کہ امریکا اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری جنگ میں شامل ہوسکتا ہے۔لیکن انہوں نے ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ اس وقت امریکا کسی فوجی کارروائی میں ملوث نہیں ہے۔ٹرمپ نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ ایران اسرائیل جنگ میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اگر ثالثی کا کردار ادا کریں تو وہ اس کے لیے کھلے دل سے تیار ہیں۔امریکی صدر نے بتایا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات جاری ہیں اور ان کے بقول اب جب کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان شدید فضائی حملے ہو رہے ہیں، ایران ممکنہ طور پر معاہدے کے لیے زیادہ آمادہ ہوگا۔واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران اور اسرائیل کو معاہدہ کرنا چاہیے، دونوں ممالک کے درمیان جلد امن ہوگا۔ بہت ساری ملاقاتیں اور فون کالز ہو رہی ہیں، ایران اور اسرائیل معاہدہ کریں گے۔ٹرمپ نے کہا کہ یہ ویسا ہی معاہدہ ہوگا جیسا میں نے بھارت اورپاکستان کے درمیان کرایا، پاکستان اور بھارت کے معاہدے میں امریکا کیساتھ تجارت کی دلیل استعمال کی، 2 بہترین رہنماؤں سے بات کی جو فوری فیصلہ کرسکتے تھے اور سب کچھ رْک گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔