ٹب کا سمندر
شیئر کریں
خواجہ حسن نظامی
…………….
آج صبح جو میں نہانے کے لئے اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سبز رنگ کا ٹڈہ ٹب میں تیر رہا ہے۔ کہتا ہوگا میں سمندرمیں غوطے کھا کھا کر اے جان تیری یاد کرتا ہوں۔ غارت کرے خدا تجھ کو اور تیری جان جاناں کو میرے پانی کو گھناؤنا کردیا۔ دیکھوتولمبے لمبے پاؤں پھیلائے ڈبکیاں کھاتا ہے، دم توڑتا ہے مگرروشنی کی الفت کا دامن نہیں چھوڑتا۔
اس فطرت کو خدا کی سنواراس کے ہاتھ میں کیا آتا ہے۔ برسات میں اس کثرت سے کیڑے کیوں پیدا کرتی ہے اوران کوعشق میں کیوں مبتلا کرتی ہے۔ اس کوکسی بشرکا بھی خیال ہے یا نہیں جو اشرف المخلوقات ہے، جو رات کے چپ چاپ وقت کو اورفرصت واطمینان کی گھڑیوں کوان کمبخت کیڑوں کی بدولت مفت رائیگاں کرتا ہے۔
اب صبح ہوگئی تب بھی چین نہیں اورنہیں تونہانے کے پانی میں اپنے جسم کا جہازدوڑا رہے ہیں، یہ ساری کارستانیاں نیچر(فطرت) کی ہیں۔ آج سے مجھے کوئی مصورفطرت نہ کہنا۔ میں ایک آزارد ہندہ فطرت کی تصویرکشی سے ہاتھ اٹھاتا ہوں۔ میرا اس نے ناک میں دم کردیا ہے۔
ٹڈہ صاحب ٹب کے سمندرمیں جان دے رہے ہیں۔ آرزو یہ ہے کہ مجنوں اورفرہاد کے رجسٹر میں ان کا نام بھی لکھا جائے۔ ڈوب کرمرنے کا صلہ ان کوبھی ملے۔ ہرگز نہیں میں تجھ کو مرنے ہی نہ دوں گا۔ زندہ نکال کر پھینک دوں گا۔ دیکھوں کیونکرتیرانام دفترعشق میں لکھا جائے گا۔
خیال توکروحضرت کی صورت کیا سہانی ہے۔ چکی سا چہرہ، بال سی گردن، لمباناؤ سا بدن، اس پر ٹانگیں شیطان کی آنت، جانور ہے یا ہوا ہے۔ فطرت صاحب کی عقل کے قربان جائیے کیا بدشکل پرندہ بنایا ہے۔ میں فطرت ہوتا اورعشق بازجانوروں کوپیداکرتا توبدن کے ہرحصہ کوسراپا درد سوزبناتا،جس کے دیکھتے ہی دکھے ہوئے دل آہ آہ کرنے لگتے،جناب فطرت نے شکل بنائی ایسی اوردرد دیا عشق کا کیا وضع الشی علی غیر محل کام کیا ہے۔
افوہ۔ بس اب نہیں بناتا۔ سقہ آئے توتازہ پانی بھرواؤں۔ جب نہاؤں گا اوراس عشق باز ٹڈے کی فریاد اردوادب سے کروں گا۔
مأخذ
چٹکیاں اور گدگدیا
٭٭٭