جمہوریت کے فائدے
شیئر کریں
اقبال نے کہا تھا جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں انسانوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ کم از کم پاکستان میں تو اس شعر کو درست قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں ایسے ایسے افراد منتخب ہوئے ہیں جن کا مقام ایوان نہیں پاگل خانے کے کمرے ہونا چاہیے ۔دستور قوموں کا ضابطہ حیات ہوتا ہے اگرچہ یہ انسانی تخلیق ہے جس میں ترمیم وقت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کو ایک مقدس دستاویز قرار دیا جاتا ہے۔ یوں تو دنیا کے ہر ملک کا دستور تحریری ہے لیکن مادرجمہوریت برطانیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا دستور تحریری نہیں روایتی ہے لیکن اس غیر تحریری دستور پر عمل دنیا بھر کے تحریری دساتیر سے زیادہ ہوتا ہے ابھی گزشتہ جمعرات کو برطانیہ میں وزیراعظم نے قبل از وقت انتخابات کا انعقادکرایا اور ایوان میں موجود اکثریت کھو بیٹھیں ،برطانیہ کی آبادی تقریباً13کروڑ ہے اور اس آبادی کی نمائندگی ایوان نمائندگان میں 650 ارکان پر طے ہے ایوان بہت وسیع ہے لیکن کابینہ اتنی ہی قلیل، کابینہ کے ارکان کی تعداد صرف 12 ہے اور یہ وہ طے شدہ تعداد ہے حکومت کسی کی بھی ہووزراء کی تعداد 12 سے تجاوز نہیں کرسکتی ۔
اب ہم دنیا کے بڑے ممالک پر نظر ڈالتے ہیں دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑاملک چین ہے جس کی آبادی کم وبیش150 کروڑ ہے اور یہاں وزراء کی تعداد 14 ہے دوسرا بڑا ملک ہمارا پڑوسی بھارت ہے آبادی کم وبیش135 کروڑ اور وزراء کی تعداد 32 ہے۔ امریکا کو پاکستان کا مائی باپ کہا جاتا ہے اور بعض دل جلے تو کہتے ہیں کہ پاکستان امریکا کی غیراعلانیہ ایک ریاست ہے امریکا کی آبادی 32 کروڑ اور وزراء کی تعداد 14 ہے اب ہم ذرا پاکستان کی آبادی پر نظر ڈالیں تو یہ 20 کروڑ کے قریب ہے اور وزراء کی تعداد96 ہے مشیر ،معاونین خصوصی اور اسی قسم کے دیگر عہدیدار اس کے سواء ہیں۔ یوں یہ تعداد تقریباً200 تک پہنچ جاتی ہے ۔ہر وزیر ،مشیر معاونین خصوصی کے سالانہ اخراجات تقریباً16 کروڑ روپے ہوتے ہیں اب حساب آپ خود کریں کہ اس فوج ظفر موج پر قوم کا کتنا سرمایہ ضائع ہوتا ہے ۔
دستورپاکستان میرے لیے محترم دستاویز ہے کہ یہ ہمارے بزرگوں کا تحفہ ہے اس کی بہت سی دفعات سے مجھے اختلاف ہے لیکن اس اختلاف پر اس کی چند دفعات بھاری آتی ہیں جن میں سرفہرست 7 ستمبر1974 کو ہونے والی آئینی ترمیم ہے (ساتویں آئینی ترمیم جس کے تحت امت مسلمہ کے سینے میں پیوست خنجر قادیان کے ملعون ومردود کا لگایا زخم تھا جس نے امت مسلمہ کو کم وبیش سوسال تک تقسیم کئے رکھا ،قادیانی فتنہ کو امت مسلمہ سے علیحدہ کئے جانا اور غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانا) اس ترمیم کے نتیجہ میں امت مسلمہ ایک ناسور سے پاک ہوئی اور اس ترمیم کی منظوری کا کردار یہاں علامہ شاہ احمد نورانی ؒ ،مولانا مفتی محمودؒ سمیت دیگر علما ء کو جاتا ہے خصوصاً سیدابولاعلیٰ مودودی کی تحریروں ، عنایت اللہ شاہ بخاری، شورش کاشمیری کی تقریروں نے بھی نمایاں کردار ادا کیا ۔
یوں تو دستور پاکستان میں بہت سی ترامیم ہوئیں 7 ترامیم تو دستور منظور ہونے کے ایک سال 24 دن کے اندر ہی کر دی گئی تھیں۔ یوں 7 ویں ترمیم کے سواء باقی تمام ترامیم میںدستور کا بنیادی ڈھانچہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا تھا پھر ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں ہونے والے اقدامات کو آئینی تحفظ دیتے ہوئے مارچ 1985 میں معرض وجود میں آنے والی اسمبلی نے 8 ویں ترمیم مکمل کی جس کے تحت بہت سارے امور کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 58/B-2 کے تحت صدر مملکت کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ جب دیکھے کہ منتخب حکومت اپنے فرائض کی ادائیگی میںناکام ہو گئی ہے تو وہ حکومت کو برطرف اور اسمبلی کو تحلیل کر سکتا ہے 1977 میں برپا ہونے والی تحریک میں صدر مملکت کوئی قدم اُٹھانے کے سلسلے میں معذور تھے کہ آئین میں تمام اختیارات کا مرکز وزیراعظم کو قرار دیا تھا اور صدر مملکت صرف وزیراعظم کے مشورے پر عمل کے پابند تھے اس دور میں ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا کہ”کسی دل جلے نے ایوان صدر پر لکھ دیا کہ فضل الٰہی چوہدری کو رہا کرو” یاد رہے کہ ان دنوں فضل الٰہی چوہدری صدر پاکستان ہوا کرتے تھے۔ اب یہ لطیفہ ہے یا حقیقت یہ تو شہر اقتدار کے باسی جانیں لیکن عملاً فضل الہیٰ چوہدری ایوان صدر کے اسیر تھے کہ وہ وزیراعظم کے مشورے کے بغیر کوئی قدم اُٹھانے کے اہل نہیں تھے ترامیم ہوتی رہی یہاں تک کہ1997 میں معرض وجود میں آنے والی اسمبلی میں 16 ویں ترمیم کے ذریعے منتخب نمائندوں کو 9 رکن بنا دیا تھا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینا ہی نہیں کسی بھی مقام پر پارٹی کے "ڈان” کی رائے کے خلاف جانا اسمبلی کی نشست سے ہاتھ دھونا تھا یوں منتخب نمائندوں کے ضمیر پر قدغن لگا دی گئی ۔ پھر 18 ویں ترمیم منظور ہوئی جس ترمیم کی منظوری تو پیپلزپارٹی اپنا کارنامہ قرار دیتی ہے اور آصف زرداری صدر مملکت کے بے اختیار ہونے کو اس ترمیم کا حسن قرار دیتے ہیں اس ترمیم کے تحت ہی یہاں 58/B-2 ختم ہوئی وہی ایک نئی ترمیم نے جو بظاہر بہت خوبصورت ہے کہ کسی بھی حکومت کے وزراء،مشیروں ،معاونین خصوصی اور اسی طرح کے دیگر عہدیداروں کی تعداد اس ایوان کے ارکان کے 11 فیصد سے تجاوز نہیں کر سکتی یہ بظاہر تو ایک خوبصورت ترمیم ہے کہ اس طرح وزراء کی فوج ظفر موج سے نجات ملتی نظر آتی تھی لیکن ترمیم کرنے والوں کی نیتوں کا حال ترمیم میں چیخ چیخ کر بیان کر دیا کہ اس شق پر عمل آئندہ منتخب اسمبلی سے ہو گا یوں پیپلزپارٹی تو اپنے جیالوں کو نوازنے کا بھرپور موقعہ حاصل رہا 2013 میں معرض وجود میں آنے والی اسمبلیوں نے اس ترمیم کو آئین کی معطل شق جانا ماسوائے کے پی کے کے جہاں وزراء کی تعداد ایوان کے 11 فیصد کے مساوی ہے مرکز اور دیگر کسی بھی صوبے میں اس شق پر عمل نہیں ہوا مرکز میں 342 کے ایوان میں وزراء ،معاونین خصوصی ،مشیران گرامی کی تعداد اس شق کے مطابق 38 سے زیادہ نہیں ہوسکتی لیکن تقریباً 96 وزراء ،وزراء مملکت سمیت 200 افراد ایسے ہیں جو وزیر کے مساوی مراعات کے حقدار ہیں یہی صورتحال سندھ ،بلوچستان اور پنجاب میں بھی ہے یوں دستور ایک ایسی دستاویز بن گیا ہے جس شق پر چاہا عمل کر لیا جس شق کو چاہا عملاً معطل کر دیا یہ دستور کے ساتھ وہ مذاق ہے کہ جو اسی دستور کے آرٹیکل 6 کے زمرے میں بھی آتا ہے آئین کا آرٹیکل 6 کیا کہتا ہے یہ ماہرین قانون بخوبی جانتے ہیں اب دستور کی اس خلاف ورزی کا نوٹس کون لے گا اور دستور پر اس کی روح کے مطابق عمل کون کرائے گا یہ ایسا سوال ہے کہ جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
میں نے یہ تو ایک مثال دی ورنہ دستور میں یہ بھی تحریر ہے کہ اس دستور کے نافذ العمل ہونے سے 10 سال کے اندر ہر سطح پر قومی زبان اردو کو نافذ کیا جائے گا تمام سرکاری خط وکتابت اور دستاویزات اردو میں تیار ہوگی انگریزی کا درجہ صرف زبان کی حد تک رہے گا اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہ ہوگی لیکن مفاد پرست طبقہ جو کہ بدقسمتی سے حکمران بھی ہے دستور کی ان شقوں پر عمل کرانے کے لیے تیار نہیں کہ اس طرح غریب کا بچہ بھی اعلیٰ مقام حاصل کر سکتا ہے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ منتخب ایوان ہو یا اعلیٰ بیوروکریسی ہر جگہ اس ایلیٹ کلاس کے تھرڈ کلاس گریجویٹ بچے ہی نمایاں نظر آتے ہیں جن کی نا انگریزی اچھی ہے نا اردو پر انہیں عبور حاصل ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ وہ منہ ٹھیرا کر کے غلط انگریزی بولنے کے سواء کچھ نہیں جانتے یوں کہا جائے کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا۔ وہ کسی بھی مقام پر قوم کی نمائندگی کرنے کے اہل ثابت نہیں ہوتے لیکن کیونکہ تعلق طبقہ اشرافیہ سے ہے یوں اقتدار کا ایوان ان کی گزر گاہیں اور بیوروکریسی ان کی خالہ کا گھر ہے جہاں چاہ جس سیٹ پر چاہا قبضہ کیا اور بیٹھ گئے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ان حالات میں ” جمہوریت” کے فوائد عوام کو کیونکر حاصل ہو سکتے ہیں۔
٭٭…٭٭