میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اروناچل پردیش چین کا حصہ قرار

اروناچل پردیش چین کا حصہ قرار

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۸ مئی ۲۰۲۵

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

چین نے بھارت پر کاری ضرب لگاتے ہوئے نئی دہلی کے زیرِ قبضہ اروناچل پردیش کو زنگنان کا نام دیتے ہوئے اسے اپنا علاقہ قرار دے دیا ہے اور زنگنان کے 27 مقامات کے نام بھی تبدیل کر دیئے ہیں۔چینی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ چین کی حکومت نے زنگنان (اروناچل پردیش) کے مقامات کے نام تبدیل کرنا چینی خود مختاری ہے، زنگنان تاریخی، جغرافیائی اور انتظامی اعتبار سے چین کا حصہ ہے، ان مقامات کو چینی نام دینا ہمارے اندرونی معاملات میں شامل ہے۔ یہ اقدام چین کے خودمختار انتظامی دائرہ اختیار کے تحت کیا گیا ہے، ایسا کرنے کا مقصد خطے میں تاریخی اور ثقافتی شناخت کو اجاگر کرنا ہے۔بھارت زنگنان کو اروناچل پردیش کے نام سے اپنا حصہ قرار دیتا ہے جبکہ چین اسے جنوبی تبت کا علاقہ تصور کرتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان اس مسئلے پر پہلے ہی کشیدگی پائی جاتی ہے۔دفاعی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان کے بھارتی جارحیت پر منہ توڑ جواب کے بعد چین کی جانب سے زنگنان پر دو ٹوک موقف بھارتی حکومت کیلئے بڑا دھچکا ہے، مودی حکومت نے خطے کے ہر ملک کے ساتھ تنازع کھڑا کرکے ثابت کیا ہے کہ بھارتی حکومت خطے کے امن کی دشمن ہے۔
اروناچل پردیش میں جگہوں کے نام تبدیل کرنے کی چین کی کوشش کو ایک فضول اور مضحکہ خیز کوشش قرار دیتے ہوئے بھارت نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اس طرح کی کوششوں سے اس ناقابل تردید حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کہ یہ ریاست بھارت کا اٹوٹ اور لازم و ملزوم حصہ تھی، ہے اور رہے گی۔ چینی حکومت کے اس اقدام پر میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا ہے کہ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ چین نے بھارتی ریاست اروناچل پردیش میں جگہوں کے نام بدلنے کی اپنی فضول اور مضحکہ خیز کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ اپنے اصولی موقف کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ایسی کوششوں کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں۔جیسوال نے کہا کہ تخلیقی نام تبدیل کرنے سے اس ناقابل تردید حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کہ اروناچل پردیش بھارت کا ایک اٹوٹ اور لازم و ملزوم حصہ تھا، ہے اور رہے گا۔
بھارت زنگنان کو اروناچل پردیش کے نام سے اپنا حصہ قرار دیتا ہے، چین زنگنان کو جنوبی تبت کا علاقہ تصور کرتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان مسئلے پر پہلے ہی کشیدگی موجود تھی۔اس سے قبل 2024 میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے زنگنان سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ چین، بھارت سرحد کو کبھی محدود نہیں کیا گیا اور اسے مشرقی سیکٹر، مڈل سیکٹر، مغربی سیکٹر اور سکم سیکٹر میں تقسیم کیا گیا ہے۔مشرقی سیکٹر میں زنگنان ہمیشہ سے چین کا علاقہ رہا ہے، چین نے بھارت کے غیر قانونی قبضے تک زنگنان پر مؤثر انتظامی اختیار استعمال کیا تھا، یہ ایک بنیادی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
1987 میں بھارت نے غیر قانونی قبضے کے تحت چین کی سرزمین پر نام نہاد ‘اروناچل پردیش’ تشکیل دیا تھا، چین نے اس وقت ایک بیان جاری کیا تھا جس میں اس کی سختی سے مخالفت کی گئی تھی اور اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ بھارت کا اقدام غیر قانونی اور کالعدم ہے، چین نے 2024 میں کہا تھا کہ چین کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔زنگنان میں جغرافیائی ناموں کے عوامی استعمال کے لیے چوتھا بیج مارچ 2024 میں جاری کیا گیا تھا۔
بھارت نے کہا کہ یہ ہمالیہ کا علاقہ بھارت کا ایک لازمی حصہ ہے، بیجنگ نے ماضی میں بھی اروناچل پردیش میں مقامات کے نام تبدیل کیے ہیں اور یہ مسئلہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک کشیدگی کی وجہ بنا ہوا ہے۔خاص طور پر جب دونوں ہمسایوں کے تعلقات میں 2020 میں سرحد پر ایک مہلک فوجی جھڑپ کے بعد تیزی سے خرابی آئی تھی۔
اروناچل پردیش کا پرانا نام ”شمال مشرقی سرحدی ایجنسی” تھا جسے 1972 میں بدل کہ اروناچل پردیش کر دیا گیا۔ فروری 1987 کو اسے ”یونین” کی بجائے بھارت کی ریاست کا درجہ ملا۔ اروناچل پردیش میں بہت سی علیحدگی پسند تحریکیں ہیں جو برسوں سے بھارتی تسلط سے آزادی چاہتی ہیں۔ ان میں ”نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ” اور”اروناچل ڈریگن فورس” سرِفہرست ہیں۔ یہ تحریکیں علاقے کو آزاد اور خودمختار دیکھنا چاہتی ہیں۔ اروناچل ڈریگن فورس جسے ”ایسٹ انڈیا لبریشن فرنٹ” بھی کہا جاتا ہے، ایک مسلح تنظیم ہے جس کا مقصد ایک ایسی آزاد ریاست کا قیام ہے جیسی برٹش راج میں ”برٹش تولا کاؤنٹی” تھی جس میں اروناچل پردیش کے ساتھ آسام بھی شامل تھا۔ بھارت کا الزام ہے کہ ان تنظیموں کو چین کی حمایت حاصل ہے۔ آسام اور دیگر ریاستوں سے اروناچل پردیش میں داخل ہونے کے لیے بھی خاص اجازت نامہ درکار ہے۔
بھارت خود کو ایک کامیاب جمہوری ریاست قرار دیتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ شاندار جموریہ آج کل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔اروناچل پردیش ان سات ریاستوں میں شامل ہے جن سے بھارتی تعلق ایک تنگ درے کی شکل میں ہے اور یہاں پر آزادی کی تحریکیں عروج پر ہیں۔ ان تحریکوں نے اپنے علاقوں میں دہشت گردی کے تربیتی کیمپ بھی قائم کر رکھے ہیں۔بھارت میں چلنے والی آزادی اور علیحدگی کی تحریکوں میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ، کے ماتا پور لبریشن آرگنائزیشن برچھا کمانڈو فورس، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا ، مسلم ٹائیگر فورس، آدم سینا، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد، کارگورکھا ٹائیگر فورس، پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ شامل ہیں۔ منی پور میں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگر فورس، نیشنل ایسٹ مائینارٹی فرنٹ، کوکی نیشنل آرمی، کوکی ڈیفنس فورس، ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل، تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فورس ، تری پورہ آرمڈ ٹرائیبل والنٹیرز فورس ، تری پور مکتی کمانڈوز، بنگالی رجمنٹ ، مینرو رام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ، پنجاب میں ببر خالصہ انٹرنیشنل، خالصتان زندہ باد فورس، خالصتان کمانڈو فورس، بھنڈرانوالہ ٹائیگر فورس، خالصتان لبریشن فرنٹ، خالصتان نیشنل آرمی ہیں۔ اس کے علاوہ گوہاٹی میں رات کے وقت سڑکوں پر گوریلوں کا راج ہوتا ہے اس لیے غروب آفتاب کے بعد لوگ گھروں باہر نہیں نکل سکتے۔ بھارتی پنجاب، ناگا لینڈ، بہار، مغربی بنگال، مقبوضہ کشمیر اور آزادی پسند ریاستوں کے تقریباً 66فیصد عوام بھارت سے اکتا چکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں