ایس ایس ڈی او تربیتی ورکشاپ، ویلو ، ای سیگریٹس سمیت نول ٹوبیکو پراڈکٹس کی فروخت پر تشویش
شیئر کریں
(رپورٹ :معین خان)سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرسید کوثر عباس نے ویلو ، ای سیگریٹس سمیت نول ٹوبیکو پراڈکٹس کی عام مارکیٹ میں فروخت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوجوان نسل بلخصوص نول ٹوبیکو پراڈکٹس کا بری طرح شکار ہورہے ہیں، تعلیمی اداروں میں بھی ان مصنوعات کا استعمال ہورہے ہیں جو کہ والدین کے لئے پریشانی کا باعث بن رہا ہے ۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر نول ٹوبیکو پراڈکٹس کو نشہ آور مصنوعات قرار دیکر ان پر فوری پابندی عائد کی جائے ، پاکستان میں تماکبو سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر بھاری اخراجات اٹھتے ہیں ۔ وہ گذشتہ روز مقامی ہوٹل میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کی نول ٹوبیکو پراڈکٹس بارے تربیتی نشست سے خطاب کر رہے تھے ۔ اس تربیتی ورکشاپ میں راولپنڈی، اسلام آباد ،جہلم ، ملتان اور لاہور کے صحافیوں نے حصہ لیا ۔ سی ٹی ایف کے سے صوفیہ منصوری نے نول ٹوبیکو پراڈکٹس اور ان کے اثرات ،پروگرام منیجر ایس ایس ڈی او خرم ملک نے نول پراڈکٹس کنٹرول بارے میڈیا کے کردار پر پریذنٹیشن دی ۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ایس ڈی او سید کوثر عباس نے اپنے خطاب میں کہا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر ویلو سمیت دیگر نوعیت کے نول ٹوبیکو پراڈکٹس مقامی سطح پر تیا ر نہیں ہورہے اور نہ ہی صحت سے متعلقہ اداروں کو اس کے خطرات کا علم ہے ،اسی لئے ابھی تک کسی بھی ادارے کوان پراڈکٹس کے اثرات کا بھی پتہ نہیں ہے لیکن عالمی سطح پر کئی ممالک میں ان مصنوعات پر پابندی عائد کی جاچکی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر فوری طور پر ویلو طرز کی تمام پراڈکٹس کو نشہ آور قرار دیکر ان پر فوری پابندی عائد ہونی چاہیئے ۔ انہوں نے کہا کہ اس نوعیت کی مصنوعات یونیورسٹیوں، کالجز ، تعلیمی اداروں کے قریب فروخت نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی مارٹس اور ڈیپارنمنٹل سٹورز پر ان کے ڈسپلز ہونے چاہیں ۔انہوں نے کہا کہ والدین کو اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے ، تعلیمی اداروں سے واپسی پر بھی چیکنگ ہونی چاہیے کہ ان پاس اس نوعیت کی کوئی نشہ آور چیز تو نہیں ہے ۔ سید کوثر عباس نے کہا کہ اگر بروقت ہم نے اس معاملے پر توجہ نہ دی تو سکول سطح پر ہمارے بچے اس نشے میں مبتلا ہو کرمعاشرے کے مفید شہری بننے کی ڈور سے باہر ہوجائیں گے ۔ اگر عالمی اداروں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ صرف ملک میں سگریٹ نوشی کرنے والوں کی تعداد 24 ملین سے زیادہ ہے ، نول پروڈکٹس ، نسوار اسکے علاوہ ہیں ۔ سی ٹی ایف کے سے صوفیہ منصوری نے شرکا کو بتایا کہ ہمارے پاس سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر نول ٹوبیکو پروڈکٹس کے استعمال کے اعداد و شمار ہی نہیں ہے، اپنی سطح پر کی گئی ابتدائی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت تک پاکستان میں یومیہ 1200 بچے جن کی عمریں 12 سے 18 سال تک ہیں وہ نول پروڈکٹس کا شکار ہورہے ہیں ، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ویلو ، ای سگریٹس سمیت دیگر نول ٹوبیکو پراڈکٹس گلی اور محلہ کی سطح کی مارکیٹس سے باآسانی مل جاتیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 615 ارب کے سگریٹس استعمال ہورہے ہیں اس رپورٹ کی توثیق عالمی ادارہ صحت نے بھی کی ہے ہمیں اس مرحلہ پر مداخلت کرنے کی ضرورت ہے ، میڈیا ،والدین ، پارلیمان (وفاقی ،صوبائی) سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے ۔ تربیتی ورکشاپ کے اختتام پر ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ایس ڈی او سید کوثر عباس اور سی ٹی ایف کے سے صوفیہ منصوری نے صحافیوں میں سرٹیفکیٹس بھی تقسیم کیے ۔