”ذاتی “دوستی
شیئر کریں
دوستی انسانی فطرت کا وہ حصہ ہے جس کی تاریخ بھی انسانی تاریخ جتنی ہی قدیم ہے لیکن دوستی کے مطلب ومعنی ہر دور میں بدلتے رہے ہیں، بزرگوں کا کہنا ہے کہ دوست نہیں ہوتاہر ہاتھ ملانے والا بے غرض دوستی کو انسانیت کی معراج کہا جاتا ہے لیکن یہ سب کتابی باتیں ہیں عملی زندگی اس سے قطعی مختلف ہے۔ بے غرض دوستی تو صرف اس عمر میں ہوتی ہے جب انسان میں نفع نقصان کی سوچ پروان نہیں چڑھی ہوتی، وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ دوستی کے پیمانے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ پرائمری کی دوستی ہی اصل دوستی ہوتی ہے، ہائی اسکول او ر کالج کی دوستی میں تعلیمی مفادات مقدم ہو جاتے ہیں ،جو اچھا پڑھنے والا ہو اس کے پاس نوٹس کا اچھا ذخیرہ موجود ہو ،اس سے دوستی ہر طالب علم کی خواہش ہوتی ہے۔ شاید اسی فلسفہ کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریزی میں کہا گیا "Friend indeed is friend in need” یعنی اچھا دوست وہی ہوتا ہے جو مشکل وقت میں کام آئے ۔
دوست بنانا ہر شخص کا حق ہے اور دوستی میں جغرافیائی سرحدیں بھی حائل نہیں ہوتیں لیکن یہ دوستیاں عموماً افراد کے درمیان ہوتی ہیں، افراد جن کے پاس قومی راز نہ ہو،ان کی غیرملکیوں سے دوستی میں بھی کچھ حدود ہوتی ہیں کہ کہیں کوئی غیرملکی انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرلے ۔لیکن جب معاملات عام شہریوں سے نکل کر سیاستدان اور بیوروکریسی تک پہنچ جائیں تو پھر یہ حدود مزید سخت ہو جاتی ہیں کہ ان سیاستدانوں میں سے ہی کچھ حکمران ہوتے ہیں تو کچھ حزب اختلاف کا حصہ لیکن ملکی معاملات کی معلومات کا ایک بڑا حصہ ان کی رسائی میں ہوتا ہے ۔
بھارت کے جندال گروپ کی پاکستان کی اعلیٰ سیاسی شخصیات سے دوستی نئی بات نہیں ہے یہ سلسلہ تقریباً گزشتہ30سال سے جاری وساری ہے۔ 1989ءمیں جب پاکستان میں سارک سربراہ کانفرنس ہوئی تو جڑواں شہروں میں کشمیر کا لفظ ممنوعہ ٹھہرا۔ ہر اُس نشانی پر،جس پر کشمیر لکھا تھا پردہ ڈال دیاگیا کہ بھارتی وزیراعظم راہول گاندھی میں اس سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آنا تھا۔ راہول گاندھی اور بے نظیر بھٹو زمانہ طالب علمی میں ایک ہی ادارے سے وابستہ رہے ہیں اور تقریباً ہم عمر بھی، یوں ان کی دوستی تھی اور بے نظیر کو یہ پسند نہیں تھا کہ اس کا دوست پاکستان میں کشمیر کا نام دیکھ کر پریشان ہو جائے ورنہ جڑواں شہروں میں بہت سے نان بائی اور مٹھائیوں کی دکانیں بھارتی شہروں کے نام سے وابستہ ہیں خصوصاً دہلی ،بدایوں،ریواڑی وغیرہ جہاں کشمیر کے نام پر پردے ڈالے گئے وہیں ان دکانوں کو نمایاں کیا گیا کہ مہمان کو اپنائیت کا احساس رہے یہ کام یقیناً اس وقت کی وزیراعظم کی اجازت کے بغیر نہیں ہوا ہو گا۔ اعتراز احسن اس وقت وزیرداخلہ تھے لیکن اتنے بڑے وکیل نہیں تھے کہ وہ وزیراعظم سے بالاتر ہو کر ایسا کوئی فیصلہ کر سکتے، یہ بھی شنید ہے کہ اس دوران آزاد خالصتان کی تحریک چلانے والے حریت پسند سکھوں کی فہرست جو کم وبیش ایک لاکھ افراد پر مشتمل تھی، بھارتی وفد کے حوالے کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان سکھوں میں سے بڑی تعداد موت کے گھاٹ اتار دی گئی اور جو جان بچا کر بھارت سے بھاگ سکے وہ خالصتان آنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ابھی خالصتان بھارت کے قبضہ میں ہے، اگر اس وقت دوستی نہ نبھائی جاتی تو کشمیر کب کا آزاد ہو چکا ہوتا کہ کشمیر کو بھارت سے ملانے والی زمینی پٹی خالصتان سے گزرتی ہے لیکن ایسا نہ ہو سکا اس کے بعد کشمیریوں نے آزادی کی مسلح جدوجہد شروع کی اور 1989ءسے تقریباً 28سال کے عرصہ میں سواپانچ لاکھ کشمیری مسلمان جام شہادت نوش کر چکے جن میں جوان ہی نہیں بوڑھے اور معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ ہزاروں کشمیری خواتین گوہر عصمت سے محروم ہو چکیں ،معذورین کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے، سید علی گیلانی ہو یا آسیہ اندرابی قیدوبند کی صعوبتیں ان کے حوصلے نہیں توڑ سکیں ۔80 سالہ علی گیلانی اپنی عمر کا نصف سے زیادہ حصہ بھارتی جیلوں میں گزار چکے آسیہ اندرابی کا بھی یہی حال ہے ۔
سجن جندال کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ نواز شریف کے ذاتی دوست ہیں اور دوسری جانب انہیں مودی کا بھی دوست قرار دیا جاتا ہے۔ مودی جانے سجن کی دوستی جانے اور بھارت جانے، لیکن ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ وہ نواز شریف کا دوست ہے یا وزیراعظم ہاو¿س کا۔ اس کی دوستی مودی سے ہے یا پردھان منتری بھون سے۔1999ءمیں جب واجپائی نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کے جواں ہمت فوجیوں نے کارگل کے برف پوش پہاڑوں پر مورچے بنا کر کشمیر سے بھارت کے فرار کا راستہ ہموار کر دیا تھا تو سجن جندال نے اس وقت بھی اپنے دوست نواز شریف سے ایک ذاتی ملاقات کی تھی اور اس کے بعد پاکستانی جوانوں کو کارگل سے واپس آنے کا حکم جاری ہو گیا ۔
بھارت کی دفاعی تجزیہ نگار اور ادیبہ برکھا دت اپنے تجزیہ میں لکھتی ہیں کہ کارگل میں بھارت کلی طور پر دلدل میں دھنس چکا تھا اور اس کے لیے کشمیر سے اپنے فوجی جوانوں کو باحفاظت نکالنا ایک مسئلہ بن چکا تھا لیکن اس وقت واجپائی کے ذاتی دوست جندال فیملی نے بھارت ماتا کے لیے اپنا کردار ادا کیا اور پاکستان میں اپنے دوست نواز شریف کو آمادہ کیا کہ وہ کارگل سے اپنے فوجی واپس بلا لے۔ یوں سجن جندال کی نواز شریف سے دوستی کام آئی اور پاکستانی فوجی کارگل کے برف پوش پہاڑوں سے نیچے اتر آئے۔ نواز شریف اپنے اس اقدام کے مضمرات سے آگاہ تھے یوں انہوں نے ایک ساتھ کئی کام کیے۔ ایک طرف کیپٹن کرنال شیر خان اور لانس نائیک لولک جان کو نشان حیدر کے اعزاز سے نوازا۔ فوجیوں کو ستارہ¿ جرا¿ت اور تمغہ¿ جرا¿ت دیے تو دوسری جانب جنرل پرویز مشرف کے عرصہ ملازمت میں توسیع دے کر اسے بھی رام کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ کہنا کہ 12اکتوبر 1999ءکا اقدام پرویز مشرف کا ذاتی اقدام تھا مناسب نہ ہو گا اس اقدام کے پیچھے پوری فوج تھی ۔یوں شیر کو دم دبا کر جدہ بھاگنا پڑا تھا ۔
اب پھر نواز شریف برسر اقتدار ہے بھارت کلبھوشن کے ہاتھوں پوری دنیا میں بے نقاب ہو چکا کہ دہشت گردی کوکس ریاست کی سرپرستی حاصل ہے ۔کلبھوشن کو سنائی جانے والی سزا درحقیقت بھارت کا چہرہ بے نقاب کرنے کی ایک کوشش ہے جس میں دفاعی اداروں کا کردار ناقابل فراموش ہے ۔مودی پاکستان کے خلاف جس قدر خطرناک سوچ کا حامل ہے وہ ڈھکی چھپی بات نہیں اور مودی ایک طرح سے پاکستان کے لیے تحفہ بھی ہے کہ وہ چانکیہ فلسفہ کا پیروکار ہونے کے باوجود اپنے دل کی بات زبان پر بھی لے آتا ہے یوں پاکستان کو ممکنہ خطرات سے آگاہی ہو جاتی ہے۔ دسمبر 2015ءمیں نواز شریف کی نواسی مہرالنساءجو مریم نواز (مریم صفدر)کی دختر ہیں کی شادی تھی جس دن شادی کی تقریب تھی اسی دن مودی کابل میں ایک تقریب میں پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے تھے۔ اب سجن جندال نے کونسا منتر پڑھا کہ وہ مودی جو پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں کر رہا تھا نواز شریف کی نواسی کی شادی مبارکباد دینے کے لیے نجی دورے پر لاہور آنے کے لیے تیار ہو گیا۔ کابل سے لاہور ایئرپورٹ پر اترے اوروہاں سے مودی کی خصوصی ہیلی کاپٹر کے ذریعے جاتی امراءروانہ ہو گئے اس دوران سجن جندال جس کی کوئی سرکاری اور کوئی حیثیت نہیں ہے مودی کے ساتھ سائے کی طرح سے چپکا ہوا تھا، کہتے ہیں کہ اس ساری ملاقات کا انتظام کرنے والا سجن جندال ہی تھا کہ ایک طرف وہ نواز شریف کا ذاتی دوست اور دوسری جانب مودی کا یار ہے ۔
ذاتی دوستی اور تعلقات اس وقت تک قابل غور اور قابل گرفت نہیں ہوتے جب تک یہ عام شہریوں کے درمیان ہو، لیکن جب کوئی شخص کسی اہم منصب پر پہنچ جاتا ہے تو چاہے وہ منصب سرکاری ملازمت کی صورت میں ہو یا منتخب نمائندہ کی صورت میں، اس کی ذات اب ایک ذات نہیں رہتی ادارے کا حصہ بن جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ سیاستدان اور بیوروکریٹ عوامی پراپرٹی ہوتے ہیں ،وہ ہر معاملے میں عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ہم اگر جائزہ لیں تو پاکستان کا ماحول تو بالکل مختلف ہے یہاں مردوں کے درمیان بھی اگر عمروں کا زیادہ فرق ہو تو دوستی پر سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔ لڑکے اور لڑکی کی دوستی تو معاشرتی طور پر قابل قبول ہی نہیں ہے لیکن مغرب کا معاشرہ بالکل مختلف ہے وہاں نہ دوستی میں عمر کا فرق دیکھا جاتا ہے نہ جنس کا ،اس کے باوجود عوام عہدوں پر فائز سیاستدان اور بیوروکریٹ اگر ایسے کسی معاملے میں ملوث پائے جائیں تو یہ ان کی ذات کا معاملہ نہیں رہتا انہیں عوامی سطح پر جواب دینا ہوتا ہے کہ وہ پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں۔ بہت عرصہ نہیں گزرا کہ امریکی صدر بل کلنٹن کا معاشقہ سامنے آیا تھا وہ اپنے اسٹاف کی ایک ممبر کو دل دے بیٹھے تھے اور یوں جب تک یہ معاملہ کھلتا اور تادیبی کارروائی عمل میں آتی اس وقت ان کے وائٹ ہاو¿س سے رخصتی کا وقت آ گیا تھا لیکن اس کے باوجود ان کا احتساب ہوا اور آج وہ اپنے نام کے ساتھ نہ تو سابق صدرلکھ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی مراعات کے مستحق ہیں کہ ان کو ایوان صدر سے نکالا گیا ہے ۔نوازشریف بھی پاکستان کے وزیراعظم ہےں، یوں ان کی زندگی کا کوئی بھی لمحہ ان کی ذات تک محدود نہیں کہ ان کے پاس پاکستان کے انتہائی اہم راز ہیں ایسے میں ایک ایسے شخص سے ذاتی دوستی کا دعویٰ اور غیر سرکاری لیکن سب سے اہم ترجمان دختر نیک اختر کا سجن جندال کی گزشتہ دنوں اسلام آباد آمد اور مری میں ہونے والے راز ونیاز کو دو دوستوں کی ملاقات قرار دینا جبکہ کلبھوشن یادیو کا معاملہ انتہائی گرم ہے اور بھارت اس کی رہائی کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتا ہے ،عوامی سطح پر ہی نہیں سنجیدہ طبقہ میں بھی اضطراب پیدا کرنے کے لیے کافی ہے ۔نواز شریف اب ایک شخص نہیں پبلک پراپرٹی ہیں جنہیں اپنے ہر عمل کا جواب عوام کو دینا ہو گا۔