کراچی اور ریڈ زون
شیئر کریں
یہ ریڈ زون بھی کتنا زبردست، عجیب اور تماشا کن ایریا ہے، یہ تو وہ ایریا ہے جس کو ریڈ زون کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور ہم یہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ اس میں وہ ارباب اقتدار وسیاست داخل ہوتے ہیں جن کو عوام اپنے قیمتی ووٹ سے منتخب کرتی ہے اور ایسے موقع پر ان کے حلقے کی ہر گلی اور گلی کے ہر گھر اور ہر گھر کا ہر دروازہ ان کے لیے کھلا رہتا ہے۔ یہی لوگ اپنے ووٹروں سے بڑے جوش وجذبہ کے ساتھ مصافحہ کرتے اور گلے ملتے ہیں جب یہ ارباب سیاست انتخاب سے کامیابی حاصل کرکے دامن اقتدار میں آکر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بن جاتے ہیں تو یہ پھر اپنے اقتدار کے محلوں کی نہ صرف دیواریں بلند کردیتے ہیں بلکہ اپنے اقتدار کے ایوان کے ایریا کو ریڈ زون بنادیتے ہیں جس کے اندر جانا تو درکنار اور دور کی بات ہے اس کے دروازے تک رسائی بھی نہیں ہوتی۔ بہرحال……..
گزشتہ سے پیوستہ روز مصطفی کمال نے اپنے احتجاجی مظاہرے کو ملین مارچ کا نام دے کر میدان احتجاج میں اتر آئے اور شہر قائد کی عوام کو پانی، بجلی اور حقوق سے محروم رکھنے کے خلاف پرامن احتجاج کرنے لگے لیکن حکومت نے مظاہرین کے مطالبات پر سنجیدہ غور کرنے اور حل نکالنے کے بجائے اپنی اس طاقت کا استعمال کیا جو اقتدار کا ایک محض تماشا ہی تھا، حکومت نے اپنے ریڈ زون کا جغرافیہ بھی صرف اپنے محل تک محدود نہ رکھا بلکہ محل کی جانب جانے والی تمام سڑکوں، گلیوں اور راستوں تک بڑھادیا یہاں تک کہ شاہراہ فیصل کو بھی اپنے ریڈ زون کی لپیٹ میں کردیا اور وزیراعلیٰ نے پورے شہر کو اپنی راجدھانی ثابت کردیا۔ اور ریاستی تشدد کی وہ تاریخ رقم کردی جس کی مثال نہیں ملتی ۔ہمیں تو مشکل نظر آتی ہے چونکہ اس تشدد کی زد میں خواتین اور بچے بھی آئے۔ عورتوں اور بچوں کی چیخیں تو فرش سے عرش تک پہنچی ہونگی اور عدل وانصاف کے تقاضوں کو بھی شرمندگی ملی ہوگی اور حکومت کی شیلنگ اور ڈنڈوں پر سرکاری خزانے کا بے دریغ استعمال بھی سوالیہ نشان بنے گا۔ ہم مصطفی کمال کو تو خوش نصیب سمجھتے ہیں کیونکہ وہ عوام پر پانی بند ہونے کے احتجاج میں یہ دعویٰ اور اعلان تو کیا ہوگا کہ پانی کی بندش سے کربلا کی یاد تازہ ہوگی لیکن حکومت نے مصطفی کمال کو پانی کا گلاس دینے کے بجائے پانی کی بارش برساکر غسل بھی کروادیا اور وہ بھی حیرت میں غوطہ زن ہوکر یہ سوچ رہے ہونگے کہ میں تو پانی مانگنے آیا تھا لیکن پیپلز پارٹی نے مجھے پانی سے نہلاکر کم از کم ایک مطالبہ تو پورا کردیا۔
ہم اپنی عوام کو یہ پیغام دینا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ حکومت کی یہ طاقت ہے کہ جب وہ چاہے شہر کے ہوٹلوں اور پارکوں کو بھی ریڈ زون بناکر عوام کو اپنے گھروں تک محدود کرسکتی ہے اور جب چاہے گرفتاریاں کرکے تھانوں اور جیلوں میں اپنا مہمان بناسکتی ہے اور یہ سچ ہے کہ ہمیں حکومت کی کارستانیوں کی سمجھ نہیں آتی کہ اس حکومت کانزول کہاں سے ہوتا ہے۔ اور اس کا حقیقی نظریہ کیا ہے ہم تو یہ سمجھتے آرہے ہیں کہ ہر حکومت عوام کی خادم ہوتی ہے اور عوام کے دکھ درد میں نہ صرف شریک ہوتی ہے بلکہ اس کا ازالہ بھی کرتی ہے لیکن ہم موجودہ سیاست اور سیاست کے سوداگروں کو ناسمجھ اور نااہل قرار دیتے ہیں چند روز پہلے جماعت اسلامی مسائل کے احتجاج پر گورنر ہاﺅس کے سائے میں مورچہ زن تھی، کیمپ لگایا اور بڑے جوش وجذبہ کے سات صرف احتجاج رکھا بلکہ بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ حکومت کے خلاف تقاریر کرتے رہے مگر کسی نے یہ علاقہ ریڈ زون قرار دے کر ان کے کیمپ نہیں اکھاڑے، شیلنگ نہیں کی، ان کی روشنی نہ بجھائی اور نہ ہی گرفتاریاں کیں، ہم نے صرف حکومت کو یہ بھولا ہوا سبق یاد دلانا ہے کہ عوام کو تقسیم نہ کرو اور نہ ہی رہنماﺅں کی عزتیں پامال کرو یہ گناہ ہوگا۔