افغان طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے پردودھڑوں میں تقسیم
شیئر کریں
ایک سینئر طالبان رکن نے کہاہے کہ لڑکیوں کی تعلیم اتنا حساس معاملہ ہے کہ اس پابندی کے خاتمے کے فیصلے پر طالبان ہی میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی تھی، جس کے بعد خود سپریم لیڈر کو مداخلت کرنا پڑی تھی۔میڈیارپورٹس کے مطابق ایک سینئر طالبان رکن نے بات چیت میں کہاکہ لڑکیوں کی تعلیم اتنا حساس معاملہ ہے کہ اس پابندی کے خاتمے کے فیصلے پر طالبان ہی میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی تھی، جس کے بعد خود سپریم لیڈر کو مداخلت کرنا پڑی تھی۔اس مدعے پر طالبان کے جتنے بھی اراکین سے گفتگو کی گئی، انہوں نے اس موضوع کی حساسیت کی وجہ سے اپنا نام مخفی رکھنے کی درخواست کی۔ایک اعلی طالبان عہدیدار نے بتایا کہ سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ اور دیگر طالبان رہنما اس موضوع پر سخت موقف کے حامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس موضوع پر طالبان واضح طور پر اربن اور انتہائی قدامت پسندوں میں تقسیم ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ اس موضوع پر ہونے والی بحث میں اس بار انتہائی قدامت پسند جیت گئے۔گزشتہ برس اگست میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے ایک طرف اس گروہ کو سفارتی سطح پر مکمل تنہائی کا سامنا ہے تو دوسری طرف ملک میں غربت اور افلاس میں واضح اضافہ ہوا ہے جب کہ افغانستان کے لیے بیرونی امداد تعطل کا شکار ہے۔ بین الاقوامی برادری کا مطالبہ ہے کہ افغانستان کے لیے امداد کی فراہمی اسی وقت ہو گی جب طالبان اپنے ہاں انسانی حقوق کی صورت حال کو بہتر بنائیں گے اور لڑکیوں کی تعلیم کے حق کو تسلیم کریں گے۔ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے تناظر میں بین الاقوامی برداری کی شدید تنقید کے جواب میں طالبان اس پابندی کے خاتمے سے متعلق بیانات تو دیتے رہیں ہیں، تاہم یہ پابندی مکمل طور پر ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔