میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
غزہ میں اب نارمل سائز کے بچے پیدا نہیں ہو رہے ، اہلکار اقوامِ متحدہ

غزہ میں اب نارمل سائز کے بچے پیدا نہیں ہو رہے ، اہلکار اقوامِ متحدہ

ویب ڈیسک
پیر, ۱۸ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

اقوامِ متحدہ کے ایک اہلکار نے کہا ہے کہ غزہ میں انسانی صورتِ حال ماں اور بچوں کے لیے ایک خوفناک خواب ہے جہاں ڈاکٹر چھوٹے اور بیمار نومولود بچوں، مردہ پیدائش اور خواتین کو مناسب بے ہوشی کے بغیر سی سیکشن کروانے پر مجبور ہونے کی اطلاعات دے رہے ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق فلسطین کی ریاست کے لیے اقوامِ متحدہ کے آبادی فنڈ (یو این ایف پی اے )کے نمائندہ ڈومینک ایلن نے یروشلم سے ایک ویڈیو نیوز کانفرنس میں کہاکہ میں ذاتی طور پر اس ہفتے غزہ کی 10 لاکھ خواتین اور لڑکیوں کے لیے خوفزدہ ہو کر غزہ چھوڑ رہا ہوں،اور خاص طور پر ان 180 خواتین کے لیے جو ہر روز بچے کو پیدائش دے رہی ہیں۔غزہ کے شمال میں جہاں خاص طور پر بہت زیادہ ضرورت ہے ، بدستور زچگی کی خدمات فراہم کرنے والے ہسپتالوں کا دورہ کرنے کے بعد ایلن نے کہا، "ڈاکٹر رپورٹ کر رہے ہیں کہ وہ اب عام سائز کے بچے نہیں دیکھ رہے ۔بلکہ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں، افسوس ہے کہ وہ زیادہ مردہ پیدا ہونے والے بچے ہیں،اور زیادہ نوزائیدہ اموات ہیں جن میں غذائی قلت، پانی کی کمی اور پیچیدگیوں کی وجوہات شامل ہیں۔پیچیدہ ڈیلیوری کی تعداد اسرائیل کے ساتھ جنگ شروع ہونے سے پہلے کی نسبت تقریبا دُگنی ہے ،مائیں تنا ؤزدہ، خوف زدہ، غذائی قلت کا شکار اور تھکن سے چور ہیں،اور نگہداشت کرنے والوں کے پاس اکثر ضروری سامان کی کمی ہوتی ہے ۔ہمارے پاس سیزرین سیکشنز کے لیے بے ہوشی کی دوا کی ناکافی دستیابی کی اطلاعات ہیں جو پھر سے ناقابلِ تصور ہے ۔انہوں نے کہاکہ اسرائیل حماس کو تباہ کرنے کے اپنے بیان کردہ ہدف پر عمل پیرا ہے تو اس نے یہ کہہ کر اپنی پالیسیوں کا دفاع کیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کو جنگ زدہ علاقے میں مزید امداد بھیجنی چاہیے ۔ایلن نے کہا کہ اسرائیلی حکام نے یو این ایف پی اے کی کچھ سامان کی ترسیل کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا مثلا دائیوں کے لیے کٹس یا ٹارچ لائٹس اور سولر پینلز جیسے سامان کو ہٹا دیا تھا۔انہوں نے کہاکہ یہ ایک خوفناک خواب ہے جو انسانی بحران سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ یہ انسانیت کا بحران ہے جو تباہ کن سے آگے ہے۔ غزہ سے گزرتے ہوئے انہوں نے جو کچھ دیکھا تو وہ کہنے لگے کہ واقعی میرا دل ٹوٹ گیا۔ ایلن نے کہا کہ ہر راہ گیر یا بات کرنے والا بے چین، کمزور، بھوکااور زندہ رہنے کی روزانہ کی جدوجہد سے تھک کر چور تھا۔انہوں نے کہا کہ ایک فوجی چوکی پر انہوں نے ایک لڑکے کو دیکھا جو تقریبا پانچ سال کا لگ رہا تھا اور اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے چل رہا تھا، وہ واضح طور پر خوفزدہ تھا جبکہ اس کی تھوڑی بڑی بہن سفید پرچم پکڑے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں