میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بیانیہ ساز وں کی ناقابل بیان حالت

بیانیہ ساز وں کی ناقابل بیان حالت

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۸ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

عماد بزدار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئیے بیانیہ لے لو بیانیہ لے لو کی صدائیں دینے والے کچھ ردی بیچنے والوں کی آپ سے ملاقات کراتے ہیں جو اخبار کے صفحات پر چھپتے ہیں کہ کیسے جانتے بوجھتے محض اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے طاقتور حلقوں کے سہولت کاری کرتے ہیں۔
2فروری کو جنگ کے ایک کالم نگار حفیظ اللہ نیازی اپنے کالم ” عمران خان تنہا، سیاست ہار گیا” میں لکھتے ہیں کہ
”آج عمران خان اکیلا تنہا ، عمران خان کی اپنی والی تحریک انصاف عملاً تحلیل ہو چکی ہے ۔عمران خان کی متاع سیاست لٹ چکی ”۔
”وائے ناکامی!متاع زندگی و کارواں ، سیاست سب کچھ جاتا رہا”۔
05 فروری کو جنگ کے کالم نگار کے کالم کا عنوان تھا ۔
” سیاسی عقد کے بعد شرعی نکاح بھی ٹوٹ گیا” کالم کے اندر کیا ہوگا اسی عنوان سے انداز لگائیں ۔
الیکشن کہانی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں ڈاکٹر صغرا صدف اپنے 05 فروری 2024 کے کالم میں لکھتی ہیں۔
"اس ملک کو ایک مہربان، دلیر اور کمٹڈ عورت کی سربراہی کی ضرورت ہے جو ہمارے مجروح تشخص کو باوقار کر سکے ۔ یقیناً مریم نواز اُمید اور کامیابی کی علامت بن چکی ہیں۔ پاکستان زندہ باد”۔
02 فروری کو سینئر کالم نگار الطاف حسن قریشی جنگ کے اپنے کالم میں لکھتے ہیں ۔
”مسلم لیگ نون کے بڑے بڑے جلسوں سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ وہ وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے ۔ اِس جماعت نے 2013ء اور 2018ء کے درمیان پاکستان کو اَندھیروں سے نجات دلائی تھی۔ اِس کے دور میں اشیائے خوردنی کی قیمتیں انتہائی ارزاں تھیں اور ملکی معیشت حیرت انگیز طور پر ترقی کر رہی تھی”۔
اِسی جماعت کے ممتاز لیڈر پروفیسر احسن اقبال نے گزشتہ برسوں میں اپنے حلقۂ انتخاب نارووال میں ایک معجزہ تخلیق کیا ہے اور اُسے علم کا شہر بنا دیا ہے ۔ پانچ یونیورسٹیاں قائم کیں اور کالجوں اور اسکولوں کا ایک وسیع جال بچھ گیا ہے ۔ اِن خدمات کی بدولت عوام اِس جماعت پر اعتماد کرتے ہیں جو اِس تلخ حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ بعض جرنیلوں اور جج صاحبان کی ملی بھگت سے وزیرِاعظم نوازشریف اقتدار سے محروم کیے گئے اور وہ اور اُن کے قریبی ساتھی سخت اذیتوں سے دوچار ہوئے ۔
اِس اکھاڑپچھاڑ کے نتیجے میں پاکستان سنگین بحرانوں کا شکار چلا آ رہا ہے ، چنانچہ عام شہریوں کے اندر نوازشریف کو دوبارہ اِقتدار میں لانے اور وطن کو خوشحال دیکھنے کی امنگ پائی جاتی ہے جسے مسٹر بلاول بھٹو شکست دینے پر تُلے ہوئے ہیں”۔
مجیب شامی دنیا اخبار پر اپنے 28 جنوری 2024 کے کالم میں لکھتے ہیں
”وہ مسلم لیگ ہاؤس میں بیٹھے میڈیا پرسنز کے ایک جم غفیر کو گزرے ہوئے دنوں کی جھلکیاں دکھا رہے تھے ، تو دیکھنے والی کئی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی تھیں۔ نواز شریف کے منشور میں جو بھی لکھا ہو ، وہ ایک بار پھر ملک کو معاشی طاقت بنانے کا ارادہ کئے ہوئے ہیں ،ان کا ماضی ان کے حق میں گواہی دے رہا ہے ۔ وہ جو کہتے ہیں ، اسے کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں ، انہوں نے بہت کچھ کر دکھایا ہے”۔
ان بیانیہ سازوں کے علاوہ ایک اور شخصیت ہیں جناب خورشید ندیم وہ اپنے موقف کو میاں کے مفاد کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کرلیتے ہیں آئیے ان کے کالمز پڑھ کر دیکھتے ہیں۔
یہ 9اگست دو ہزار اٹھارہ کا کالم ہے جب عمران خان انتخابات جیتے تھے ۔حالیہ چیئرمین رحمت اللعالمین اتھارٹی عمران کو مبینہ دھاندلی پر مشورہ دینے کے بعد لکھتے ہیں۔
”اگر عمران اس جرأت کا مظاہرہ کرسکیں اور سال ڈیڑھ سال بعد دوبارہ ایکشن ہوجائیں تو عمران خان کو سیاسی طور پر فائدہ ہوگا۔ پھر شاید اپاہج کے بجائے ، ایک صحیح سلامت اقتدار ان کا منتظر ہو”۔
”یہ ایک خواب ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس کی کوئی تعبیر نہیں۔ جب قوم رجالِ کار سے محروم ہوجائے تو پھر صرف بحران جنم لیتے ہیں”۔
عمران خان دوہزار اٹھارہ میں جب وزیر اعظم بننے والے تھے تب سال ڈیڑھ کے اندر دوبارہ الیکشن سے استحکام کو کوئی مسئلہ نہیں تھا ، تب نتائج تسلیم کرنا ضروری امر نہیں تھا ۔ اب اس وقت کی صورت حال کیا ہے آئیے خورشید احمد ندیم کی زبانی پڑھتے ہیں۔
” انتخابات کے بعد کا مرحلہ استحکام ہے ۔ استحکام کی پہلی اینٹ انتخابی نتائج کو تسلیم کرنا ہے ۔ انتخابی نتائج پر جو جماعت سب سے زیادہ خدشات کا اظہار کررہی تھی، اس کے حمایت یافتہ امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہوگئے ۔ دیگر جماعتوں کے پاس بھی بظاہر کوئی جواز موجود نہیں کہ وہ ان نتائج پر انگلی اٹھائیں۔ شکایات کا باب تو کبھی بند نہیں ہوتا اور یہ لازم نہیں کہ ہر شکوہ غلط ہو۔ اس کے باوصف نتائج کو قبول کرنا سیاسی بلوغت کی علامت سمجھی جائے گی” ۔
سہیل وڑائچ تسلسل سے لکھتے رہے جیسے میاں نواز شریف کا وزیراعظم بننا لوح محفوظ پر لکھ دیا گیا ہے۔ اپنے 8 فروری 2024 کے کالم جس دن الیکشن ہوئے لکھتے ہیں کہ
”مقتدرہ میں یہ واضح سوچ ہے کہ معاشی راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ریاست فرض سمجھ کر دور کرے گی۔ مقتدرہ میں ماضی میں یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ حکومتوں کو کمزور رکھا جائے لیکن اس بار مقتدرہ یہ چاہتی ہے کہ مضبوط حکومت ہو تاکہ وہ بڑے فیصلے کرسکے چنانچہ مقتدرہ کی خواہش ہے کہ نواز شریف سادہ اکثریت حاصل کرکے آسانی سے حکومت بنالے اور اسے اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں کی مدد نہ لینی پڑے ۔ سیاسی حلقوں میں اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ اب جب سارے گیند نواز شریف کی ٹوکری میں ڈالے جا رہے ہیں تو مقتدرہ کے دوسرے لاڈلے جہانگیر ترین اور علیم خان کو کیا ملے گا؟دونوں تجربہ کار ہیں اور دونوں ہی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صوبہ ہویا ملک، اس کو بہت بہتر طور پر چلا سکتے ہیں لیکن مقتدرہ فی الحال انہیں وزارتِ عظمیٰ یا وزارتِ اعلیٰ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ البتہ ترین اور علیم خان کو وزارت یا گورنرشپ کے ذریعے اکاموڈیٹ ضرور کیا جائے گا”۔
ان کے یعنی سہیل وڑائچ کے اس کالم یا پچھلے کالمز پر کچھ لکھنے کے بجائے میں آپ کو ان کے 16 فروری 2024 کے کالم کا عنوان بتاتا ہوں جس سے آپ اندازہ لگا سکتا ہیں کہ ردی کے بھاؤ بیچنے والے ان بیانیہ سازوں کے ساتھ ہوا کیا ہے۔
کالم کا عنوان ہے ”وہ ”روٹھ گیا ہے ”؟


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں