جب ہم نے کہا آپ برا مان گئے
شیئر کریں
(قسط نمبر:2)
اسی طرح میں نے اکتوبر2016ء کو ’’ برہان،ہڑتال ،ڈیل اورکشمیری عوام ‘‘کے عنوان کے تحت اپنے مضمون میں عرض کیا تھا کہ ’’ 2016ء میں لیڈر شپ اس وہم میں مبتلا ہو گئی کہ اگر انھوں نے ہڑتال ختم کر دی تو انھیں عوامی غیض و غضب کا نشانہ بننا پڑے گا حالانکہ ہڑتال کی ابتدائی حدت صرف جنوبی کشمیر تک ہی محدود تھی اور اب صورتحال یہ ہے کہ ہڑتال بہر کیف ختم کرنی ہے اس لیے کہ ایک قوم اتنی طویل ہڑتال کا جو کھم نہیں اٹھا سکتی ہے جتنا کشمیریوں نے اب تک اٹھارکھاہے ۔ہڑتال سے متعلق غلط فہمیاں پھیلانے میں ہم سب کا انتہائی کلیدی رول رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہڑتال کے آپشن کو استعمال کرتے کرتے ہم نے ہڑتال کی ’’معنوی اور حسی اہمیت ‘‘خود ہی ختم کر دی ہے ۔کشمیر کے مظلوم قوم کی ’’تحریک آزادی‘‘کی یہ چند علامات تھیں جنہیں ہم نے خود ہی غیر متعلق کر دیا ہے ۔ہر عقل مند اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ چند لاکھ کی ایک محدود قوم سواارب انسانوں کے ایٹمی اور معاشی قوت کے ساتھ جنگ نہیں لڑ سکتی ہے سوائے ’’ طویل المدتی حکمت سے بھر پور علاماتی تحریک ‘‘ کے ذریعے جس میں جارح کا زیادہ اور مجروحین کا کم سے کم نقصان ہو ۔ کشمیر میں موجود بندوق کا مقابلہ بھارت کے بندوق سے کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے اس لیے کہ کہاں پچیس لاکھ فوج جن میں سے آٹھ لاکھ کو جموں و کشمیر میں ہی بٹھا دیا گیا ہو اور کہاں چند سو نہتے ’’مجاہدین‘‘جن کی ٹریننگ سے لیکر اسلحہ تک ’’عسکری لغت‘‘میں نا ہی ٹریننگ اور نا ہی اسلحہ قراردیا جا سکتا ہے ۔ میرے خیال میں بندوق،پتھر اور ہڑتال علاماتِ ناراضگی ہیں بھارت کے تکبر کو مٹانے والی قوت نہیں اور ہم ’’لقمانِ دوراں‘‘کے زعم میں مبتلا کشمیریوں نے ان علامات کو بھی اپنی حماقتوں سے ناکارہ کردیا ہے ۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ2016ء میں مسلسل ہلاکتوں اور گرفتاریوں کے بعد لامتناہی ہڑتالوں اور احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کی حدت میں بعدمیں کمی ضروری آئی ہے مگر اثرات کو آج 2018ء میں بھی اچھی طرح محسوس کیا جا سکتے ہیں ۔آزادی پسند قیادت جو بے رحم حالات کے اندیشوں کے بعد ’’رسمی طور پر ‘‘ایک صف میں کھڑی نظر آتی ہے نے سیاسی غلطی کر کے 2010ء کے طرز پرکلینڈر دینے شروع کر دئیے ۔جواز یہ پیش کیا گیا کہ عوام ہڑتال ختم کرنے کے حق میں بالکل نہیں ہے ۔لیڈر شپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوامی جذبات کی لہر میں خود بہہ نہ جائے بلکہ سانس روک کر اس کے تمام تر منفی نتائج پر گہری نظر رکھتے ہو ئے قدم بڑھانے یا روکنے کا فیصلہ کریں ۔حقیقت یہ بھی ہے کہ ’’لیڈرشپ کو دباؤ میں رکھ کر پریشان ‘‘کرنے کی بات بھی جھوٹی نہیں ہے ۔مستند اور مصدقہ اطلاعات کے مطابق ’’دھمکی آمیز خطوط سے لیکر وفودتک ‘‘بہت ساری تنظیموں اور انجمنوں نے اس طرح کی کوششیں کر کے ہڑتال کو ختم نہ کرانے میں کامیابی حاصل کی ۔لیڈر شپ کو کھلے عام دباؤ میں رکھنے کی کامیاب کوشش اس وقت بھی ہو ئی جب سید شاہ گیلانی کے گھر پر تمام اسٹیک ہولڈرس کی میٹنگ کے وقت نوجوانوں کی بھیڑ نے باہر جمع ہو کر قیادت کے خلاف نعرہ بازی کی حتیٰ کہ محمد یسٰین ملک نے باہر آکر انھیں سمجھانے کی کوشش کی۔ یہاں یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ نوجوانوں کی ایک تعداد لیڈر شپ پر ’’بکنے اور جھکنے کا شرمناک الزام ‘‘تک عائد کرتی ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر قیادت نے 2010ء کے ایجی ٹیشن سے کچھ سیکھنے کے بجائے کچھ مختلف کرنے کا حوصلہ کیوں نہیں کیا؟
اب جہاں تک لیڈرشپ کا عوامی موڑ پر تحریک کو منحصر رکھنے کی بات کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں اور میں اپنے نقطہ نگاہ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں کہ کوئی بھی تحریک عوامی تعاون اور حوصلوں کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ قیادت کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ تحریک کے لیے ’’حکمت عملی ،منازل اور پروگراموں کا تعین خالص قیادت کا کام ہوتا ہے کسی عوام کا نہیں ۔آخر قیادت کس مرض کی دوا ہے جو صرف حالات کی بے رحمی یا عوامی موڑ کا ہی رونا روتی رہے گی ۔لیڈر ہر رنگ میں رنگ جانے والوں کا نام نہیں ہے بلکہ اس کا مخلص ہونے کے ساتھ ساتھ حکمت کے جوہر سے متصف ہونا بھی ضروری ہے تاکہ وہ صحیح وقت پر درست قدم اٹھا سکے جیسا کہ علامہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں ’’حکمت یہ بھی ہے کہ آدمی(لیڈر)اس وقت کے حالات پر نظر رکھتا ہو،مواقع کو سمجھتا ہواور یہ سمجھتا ہو کہ کس موقع پر کیا تدبیر کی جانی چاہیے حالات کو سمجھے بغیر اندھا دھند قدم اٹھادینا،بے موقع کام کرنا اور موقع پر چوک جانامغفل لوگوں کا کام ہے ۔اورایسے لوگ خواہ کتنے ہی پاکیزہ مقصد کے لیے کتنی ہی نیکی اور نیک نیتی کے ساتھ کام کر رہے ہوں ،کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں (تحریک اور کارکن)لیڈر بھیڑ اور عوام کو دیکھ کر اپنی منزل متعین نہیں کرتا ہے بلکہ اس میں ہواؤں کا رخ بدلنے کا حوصلہ ہوناچا ہیے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نہ خود مایوس ہو اور نہ ہی قوم میں مایوسی کو گھر کرنے کی گنجائش پیدا کرے ۔ہاں ساتھ چلنے والوں کو بھی معلوم ہو نا چاہیے کہ جھوٹی تسلیاں دیکر قوم کو چند ایام تک غلط فہمی میں رکھا جا سکتا ہے مگر ہمیشہ ہمیش کے لیے نہیں ۔
بد نصیبی یہ ہے کہ ہم ایک جذباتی قوم ہے جوہر مسئلے کو جذبات کی عینک سے ہی دیکھتی ہے ۔جذباتی ہونا برا نہیں ہے پراگر ہم ہر مسئلہ جذبات کے ہی آئینے سے جانچتے رہیں گے تو پھرعلم و حکمت اوردانش ہم سے روٹھ جائیں گے ۔ہم بھارت سے حق مانگتے ہیں اور اس کے لیے صرف جذبات سے کام نہیں چلے گا یہ صفت مظلومین میں قدرتی ہو تو سونے پر سہاگہ ورنہ لیڈروں کی بدنصیبی کہ ہر دن لوگوں کو اس دشوار ترین مہم کے لیے آمادہ کرنا ہوگا۔ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہڑتال تحریک کا ایک حصہ ہو سکتا ہے پر ’’تحریک ‘‘نہیں کہ اگر ہڑتال ختم کردی توتحریک بھی ختم ۔ہڑتال سے متعلق ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم طویل ہڑتالوں کے باربار متحمل نہیں ہو سکتے ہیں اور اگر ہم نے یہ سلسلہ جاری رکھا تو قوم تنگ آکر آمادہ بغاوت ہو سکتی ہے ۔میں نے 2010ء اور2016ء میں بعض غیبی قوتوں کو بھی دیکھا کہ وہ ہڑتال کوحکومت کے خاتمے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہو ئے آخری درجے کے تشدد تک لے جانا چاہتے تھے۔میں نے کئی بڑے بڑے اجتماعات میں (جن میں کم و بیش لوگ پچاس ہزار سے لیکر تین لاکھ تک ہوتے تھے)مقررین کو آگ اورشعلے برساتے ہو ئے سنا حتیٰ کہ میںنے کئی اجتماعات میں لوگوں سے تلقین کی کہ ’’لیڈرشپ جب ہڑتال ختم کرنے کی اپیل کرے گی ہمیں ہڑتال ختم کرنی چاہیے‘‘ اس لیے کہ بعض مقررین نے ان عوامی اجتماعات میں کھلے عام یہ تک کہا تھاکہ ’’خبردار!2010کی طرح پیسہ لیکر ہڑتال ختم کرنے والوں کی بات پر کان نہ دھرنا۔کئی مقامات پر براہ راست حریت کانفرنس کا نام لیکر یہ تک بتایا گیا کہ انہی حضرات نے پیسہ لیکر گذشتہ ہڑتالیں ختم کرادی ہیں ۔جو لوگ میرے سمیت حریت والوں سے ہڑتال کو لمبا کرنے پر ناراضگی جتاتے ہیں انھیں اس صورتحال کا بھی ادراک کر لینا چاہیے کہ لیڈرشپ کو کس طرح اپنے پیچھے چلانی کی کوششیں کی گئیںباوجوداُس سب کے حریت کو فوائد و نقصانات کا بھر پور ادراک کرتے ہو ئے اندیشوں سے اوپر اٹھ کر فیصلہ لینا چاہیے تھا۔
حیرت یہ کہ جب بھی ’’دانشوران کشمیر‘‘سے ہڑتال کا متبادل پیش کرنے کی اپیل کی گئی تو ان کے لب نہیں کھلے آخر کیوں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اجتماعی طور پر دانشورانہ بصیرت ہی سے محروم ہو چکے ہیں !اگر نہیں اور اللہ کرے کہ نہیں ہی اس کا جواب ہو تو پوچھا جا سکتا ہے کہ پھر ہم لیڈرشپ کے پاس جا کر انھیں متبادل کے بجائے مختصر کرنے کی تلقین کے برعکس اس کے لمبا کرنے پر لچھے دار تقریریں کیوں کرتے ہیں ؟کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اگر سال بھر کے ہڑتال کے بعد بھی ’’دلی سرکار‘‘چپ سادھ لیے بیٹھ جائے گی تو ہمارے لیے ہڑتال کا آپشن محدود نہیں ختم ہو جائے گا ۔مجھے یاد آرہا ہے کہ کشمیر میں لیڈرشپ سے لیکر دانشوروں تک بہت سوں میںمتضاد اور عجیب مزاج ہے ۔یہ خود آج جس چیز کے وکیل ہوتے ہیں کل اسی کی مخالفت کرتے ہیں اور کبھی اس کے برعکس جس کے آج مخالف ہیں کل اسی کے وکیل اور یہ سیاسی بصیرت نہیں بلکہ تند و تیز لہروں کا ردعمل ہوتا ہے ۔جب میری ہی طرح بہت سے دانشوروں اور علماء نے ہڑتال مختصر کرنے کی اپیل کی تو ہمارے آزادی پسند لوگ برا مان گئے اور ان کے خیال میںبھارت کا علاج ہی ایک سخت ہڑتال تھی جو 2016ء میں سخت ترین کے بعد نتائج کے اعتبار سے ہمیں ہی پریشان کر چکا ہے اور اس سچائی کا اعتراف کرتے ہو ئے کہ برہان کی شہادت کے بعد جو ہڑتال ہوئی نے بھارت کو سخت ترین بوکھلاہٹ میں مبتلا کردیا تھا۔مگر برے اثرات کشمیریوں پر ہی مرتب ہو گئے اس لے کہ نئی دلی میں براجمان شخص انتہائی سنگدل انسان ہے ۔
(ختم شد)