سرزمین حرمین شریفین کا دفاع پاکستان کی ذمہ داری
شیئر کریں
منذر حبیب
پاکستان کی طرف سے سعودی عرب تربیتی مشن پر فوج کا دستہ بھیجنے کے اعلان پر بعض سیاستدان ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر متحرک ہو گئے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دوبارہ سے اس مسئلہ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ وطن عزیز پاکستان میں چند لوگ ایسے موجود ہیں جو پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کسی طور مضبوط و مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے اوراسلامی فوجی اتحاد کا مسئلہ ہو یا فوج بھجوانے کا معاملہ‘ ان کی کوشش رہتی ہے کہ اس حوالہ سے متفقہ امور کو بھی متنازعہ بنا کر ملک میں اختلافات کی فضا پیدا کی جائے ۔جب یمن سے حوثی باغیوں نے سرزمین حرمین شریفین کو اعلانیہ نقصان پہنچانے کی باتیں اور سعودی فورسز اور شہروں پر حملے شروع کیے توبرادر اسلامی ملک نے بھی حرمین کی سرزمین کے لیے خطرات کھڑے کرنے کی کوششیں کرنے والے باغیوں کو کچلنے کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر اتفاق رائے سے طے پایا کہ سرزمین حرمین شریفین کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان و عقیدہ کا حصہ ہے اس لیے پاکستان حرمین کے تحفظ کے لیے اپنی فوج وہاں بھیجے گا لیکن بعض سیاستدانوں کے شور شرابا پر حکومت اس معاملہ کو پارلیمنٹ میں لیجانے پر مجبور ہوئی ۔ اس دوران اسلامی فوجی اتحاد کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا اور پھر کئی دن تک جاری رہنے والے اس اجلا س میں برادر اسلامی ملک کا میڈیا ٹرائل کرتے ہوئے بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی رہیں جس کا بہت زیادہ نقصان ہوا ۔ اس موقع پر پارلیمنٹ میں سعودی عرب کے خلاف جو بیان بازی کی جاتی رہی اس کا دکھ اور غم عوام آج بھی اپنے سینے میں محسوس کرتے ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے طویل عرصہ سے کوششیں کر رہے ہیں اور دونوںممالک کی سیاسی و عسکری قیادتوں کے درمیان مسلم امہ کو درپیش اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ خاص طور پر زیر بحث رہا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کی افواج کے مابین دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے مشترکہ مشقیں اسی مقصد کے تحت کی جاتی رہی ہیں کہ سب مل کر مسلمہ امہ کو نقصانات سے دوچار کرنے والے دہشت گردی کے عفریت سے کس طرح نمٹ سکتے ہیں؟کچھ عرصہ قبل پاکستانی فوج کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے لیے بنائی گئی سعودی اسپیشل فورسز کو ٹریننگ دینے کا آغاز کر کے دوطرفہ دفاعی تعلقات کے نئے دور کی شروعات کی گئیںاور انسداد دہشت گردی کی کوششوں پرخاص طور پر بات چیت کی گئی ۔ پاکستان نائن الیون کے بعد چونکہ دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار رہا ہے۔ آئے دن بم دھماکوں اور خودکش حملوں سے پاکستانی افواج اور دیگر دفاعی اداروں کو بہت زیادہ نقصانات اٹھانا پڑے تاہم اللہ کا شکر ہے کہ افواج پاکستان نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعہ ملک میں پھیلے ہوئے بیرونی قوتوں کی تخریب کاری و دہشت گردی کے پھیلائے گئے تمام نیٹ ورک بکھیر کر رکھ دیے اور دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ساری دنیا پاکستان کی افواج اور اداروں کی کامیابیوں کا کھلے عام اعتراف کرتی نظر آتی ہے۔
سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک نے پاکستان کے اسلامی فوجی اتحاد میں شامل ہونے پر بہت خوش کا اظہار کیا کہ اس سے ان کی افواج کو بھی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کے تجربات سے استفادہ حاصل کرنے کا بھرپور انداز میں موقع ملے گاتاہم اس موقع پربعض عناصر نے مسلم ممالک کے اس اتحاد کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی سازش کی کہ جب تک اس میں ایران، عراق اور شام شامل نہیں ہوں گے اس اتحا د کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ اعتراض بھی درست نہیں تھا۔ عراق جہاں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کرکے امریکیوںنے اپنی مرضی کے لوگوں کو اقتدار میں بٹھا دیاوہ اس اتحاد میں کیونکر شامل ہوگا اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟ ایران جس پر یمن میںبغاوت کرنے والے حوثی باغیوں جو آئے دن سعودی سرحدوں پر میزائل داغتے ہیں ‘کی مددوحمایت کا الزام ہے کیا وہ اس اتحاد میں شامل ہونے کے لیے تیار ہوگا؟۔ اسی طرح شام جہاں بشار الاسد کی حکومت ہے اور جس نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کروادیا۔ کیا اسے اتحاد میں شامل کیا جاسکتاہے؟ میں سمجھتاہوں کہ ایسی باتیں صرف سعودی عرب کی زیر قیادت اتحاد کو متنازعہ بنانے کی کوششیں تھیں بہرحال یہ مرحلہ گزر گیااور جنرل (ر) راحیل شریف اسلامی فوجی اتحاد کے باقاعدہ سپہ سالار مقرر کر دیے گئے۔ اس سے پاکستان کی اہمیت دنیا بھر میں بڑھی ہے اور پاکستان بلاشبہ دفاعی لحاظ سے مضبوط و مستحکم ہوا ہے۔
پاکستان کی طرف سے سعودی عرب فوجی دستہ بھجوانے کے اعلان پر بعض سیاستدان سیخ پا دکھائی دیتے ہیں اور وہی پرانے مخصوص الزامات دہرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایک دن قبل سینیٹ کا اجلاس چیئرمین میاں رضا ربانی کی زیر صدارت ہوا تو اس موقع پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابرنے پاکستان کی طرف سے فوجی دستہ سعودی عرب بھجوانے کے اعلان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ یہ پارلیمنٹ کی مشترکہ قرار داد کی توہین ہے۔ بتایا جائے کہ سعودی عرب بھجوائے گئے فوجیوں کی حدودوقیود کیا ہوں گی؟۔ فرحت اللہ بابر کے اس بیان پر چیئرمین سینٹ نے وفاقی وزیر دفاع غلام دستگیر کو پاکستانی فوج کے دستے سعودی عرب بھجوانے کے حوالہ سے پارلیمان کو اعتماد میں لینے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ پیپلز پارٹی لیڈر کی طرف سے پارلیمنٹ کی قرارداد کی توہین کی باتیں بالکل فضول ہیں اور حقائق سے بالکل عاری ہیں۔ جب واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سعودی عرب بھجوانے جانے والے فوجی سعودی فورسز کی ٹریننگ کے لیے بھیجے جائیں گے اور انہیں سعودی عرب سے باہر کہیں تعینات نہیں کیا جائے تو پھر اس پر انہیں کیا اعتراض ہے۔ا فسوسناک امر یہ ہے کہ جو لوگ پاک فوج سرزمین حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے بھجوانے پر اعتراض کرتے ہیں انہیں یمن کے حوثی باغیوں کیخلاف بات کرنے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی جو آئے دن سرزمین حرمین شریفین پر میزائل حملوں کی کوشش کرتے ہیں اور مکہ مکرمہ پر بھی میزائل پھینکنے کی کوشش سے باز نہیں آتے۔
ایک رپورٹ کے مطابق حوثیوں کی جانب سے اب تک سعودی عرب پر 95میزائل فائر کیے گئے ہیں جنہیں سعودی سکیورٹی فورسز نے راستے میں ہی تباہ کر دیا۔ ابھی دو دن پہلے کی بات ہے کہ سعودی اتحاد نے باغیوں کے ایک اڈے پر حملے کر کے سرزمین حرمین شریفین پر میزائل حملوں کی سازش کو ناکام بنا دیا۔فرحت اللہ بابر حوثی باغیوں کی طرف سے علی الاعلان مکہ اور مدینہ کو نشانہ بنانے کی دھمکیوں اور میزائل حملوں سے متعلق کبھی نہیں بولیں گے اور اگر پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت باہمی مشاورت سے سعودی فورسز کی تربیت کے لیے پاک فوج کا دستہ بھیجنے کا اعلان کر دیں تو پاک سعودی تعلقات میںرخنہ ڈالنے کی کوششیں کرنے والوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سرزمین حرمین شریفین کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دفاعی سٹریٹیجک معاہدہ ہے جس کے مطابق یہ بات طے ہے کہ پاکستان یا سعودی عرب میں سے کسی ایک ملک پر اگر حملہ ہوتا ہے تو دونوں ممالک اسے اپنے اوپر حملہ تصور کریں گے اور برادر ملک کا اسی طرح دفاع کیاجائے گا جس طرح اپنے ملک کی سرحدوں کا تحفظ کیاجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب کی سرحدوں کے تحفظ کی بات کی ہے۔ سعودی عرب کے دفاع کے لیے پاکستانی افواج اور حکومت میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور وہ اس بات پر متفق ہیں کہ حرمین الشریفین کی سرزمین کے تحفظ کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیاجائے گا۔ پاکستانی قوم نے پاک فوج کے حالیہ فیصلہ کی مکمل تائیدو حمایت کی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض لوگ مخصوص ایجنڈے کے تحت اس حوالہ سے بھی قوم کے ذہنوں میں انتشار اور خلفشار پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیںجو کہ کسی طور درست نہیں ہے۔پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے درست کہا ہے کہ سرزمین حرمین شریفین کا تحفظ پاکستان کا ذمہ داری ہے۔ برادر اسلامی ملک کو میزائل حملوں کا سامنا ہے اور فوج علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے بھیجی جارہی ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ وزیر دفاع کی یہ بات پوری مسلم امہ کے دل کی آواز ہے۔ پاکستان سمیت پوری مسلم امہ کو سرزمین حرمین شریفین کے دفاع کے لیے کوئی کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے۔