میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سیہون دھماکے میں سندھ حکومت کی مجرمانہ غفلت

سیہون دھماکے میں سندھ حکومت کی مجرمانہ غفلت

منتظم
هفته, ۱۸ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

عقیل احمد راجپوت
دوسال قبل جب ضلع جیکب آباد اورضلع شکارپو رمیں تین متواتر بم دھماکے ہوئے توحکومت سندھ خواب خرگوش میں سوتی رہی۔ تب دہشت گردوں نے سہون میں جاکر خودکش حملہ کردیا جس کے نتیجہ میں 80 افراد شہید ہوگئے۔اس طرح 80خاندان اور400افراد متاثر ہوئے 300سے زائد زخمی بھی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں ۔ ان دھماکوں کے پیچھے چھپے ہاتھوں کو سب جانتے ہیں لیکن اس کوروکنے کے لئے کیا اقدامات کیے گئے ہیں اس کا جواب صفرہے۔

[box type=”shadow” align=”aligncenter” class=”” width=””] مزاروں پر دہشت گردی کے بڑے واقعات

پاکستان گزشتہ کئی سال سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور دہشت گردی کے ان سیکڑوں واقعات میں اب تک ہزاروں پاکستانی شہری اپنی جانیں دے چکے ہیں ۔ پہلے عام طورپر عوامی مقامات جن میں بسوں کے اڈے، ریلوے اسٹیشن بازار وشاپنگ سینٹر دہشت گردوں کا ہدف بنتے تھے لیکن بعد میں دہشت گردوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور زیادہ سے زیادہ بے قصور اور معصوم عوام کو بے خبری میں نشانہ بنانے کیلیے مساجد اور مزاروں کو نشانہ بنانا شروع کیا،مزاروں پر دہشت گردی کا حالیہ بڑا واقعہ صوبہ سندھ کے شہر سہون میں پیش آیا جہاں درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر کے احاطے میں دھماکے کے نتیجے میں کم وبیش100 افراد ہلاک اور سیکڑوں شدید زخمی ہوئے ہیں ۔ ماضی میں بھی پاکستان کی مختلف درگاہوں اور مزاروں کو دہشت گردوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاچکا ہے جن کی تفصیلات درج ذیل ہے۔ ٭27 مئی 2005، بری امام درگارہ، اسلام آباد 27 مئی 2005 کو اسلام آباد کی بری امام درگاہ پر خود کش حملے میں 18 افراد جاں بحق اور 86 زخمی ہوئے۔ ٭19 مارچ ، 2005، پیر راخیل شاہ، فتح پور بلوچستان کے ضلع جھل مگسی کے دور دراز گاؤں میں واقع پیر راخیل شاہ کے مزار میں ہونے والے دھماکے میں 35 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔ ٭یکم جولائی 2010، داتا دربار لاہور یکم جولائی 2010 میں داتادربار لاہور پر ہونے والے 3 دھماکوں میں 35 سے زائدافرادجاں بحق اور170 سے زائدزخمی ہوئے۔ ٭8 اکتوبر 2010، عبداللہ شاہ غازی ، کراچی 8 اکتوبر2010 میں دہشت گردوں نے عبداللہ شاہ غازی کے مزارکونشانہ بنایا، دہشت گردی میں 8 افرادجاں بحق اوردرجنوں زخمی ہوئے۔ ٭26 اکتوبر 2010، بابا فرید، پاک پتن پاک پتن میں بابا فرید گنج شکر کے مزار کے باہر ہونے والے دھماکے میں 6 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ ٭3 اپریل 2011، صوفی سخی سرور، ڈیرہ غازی خان 3 اپریل 2011 کو ڈیرہ غازی خان میں صوفی سخی سرورکی درگاہ پرخودکش دھماکے میں 50 افرادجاں بحق اوردرجنوں زخمی ہوئے۔ ٭25 فروری 2013، درگاہ غازی غلام شاہ، شکار پور 25 فروری 2013 کوشکارپورکی درگاہ غازی غلام شاہ میں ہونے والی دہشت گردی میں 4 افرادجاں بحق اوردرگاہ کے گدی نشین سمیت 12 زخمی ہوئے۔ ٭21 جون ، 2014، درگاہ بابا ننگے شاہ، اسلام آباد وفاقی دارالحکومت میں بابا ننگے شاہ کے مزار پر ہونے والے دھماکے میں 61 افراد زخمی ہوگئے تھے۔ ٭12 نومبر 2016 ، درگاہ شاہ نورانی، خصدار 12 نومبر2016 میں دہشت گردوں نے شاہ نورانی کے مزارپروارکیا، مزارپردھمال کے دوران ہونیو الے دھماکے میں 53 سے زائدافرادجاں بحق اور100 سے زائدزخمی ہوئے۔ ٭16فروری 2017 مزار لعل شہباز قلندر مزاروں پر دہشت گردی کا حالیہ بڑا واقعہ صوبہ سندھ کے شہر سہون میں پیش آیا جہاں درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر کے احاطے میں دھماکے کے نتیجے میں کم وبیش100 افراد ہلاک اور سیکڑوں شدید زخمی ہوئے ہیں ۔ [/box]
جیکب آباد میں نوویں اوردسویں محرم کی درمیانی شب دھماکا ہوا جس میں 40افراد ہلاک ہوئے پھرشکارپور میں امام بارگاہ میں خودکش حملہ ہوا جس میں 36افراد ہلاک ہوئے ۔ پھر عید الاضحیٰ کے دن خان پور میں امام بارگاہ میں دوخودکش حملہ آور آئے ۔ایک نمازی نے نماز سے قبل خودکش حملہ آور سے سندھی زبان میں بات کی توخودکش حملہ آور پشتوبولنے والانکلا جس کے باعث وہ سندھی میں کی جانے والی بات نہ سمجھ سکا اورجواب بھی نہ دے سکا اس طرح شورشرابہ ہوگیا جس کے باعث ایک خودکش حملہ آور عثمان پکڑا گیااوردوسرے خودکش بمبار کو پولیس نے نشانہ بنایا، دوسرا بمبار عبدالرحمان موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ عثمان نے دوران تفتیش حیرت انگیز انکشافات کیے لیکن حکومت سندھ نے اس پرایک لفظ بھی بات نہ کی اورنہ ہی وفاقی حکومت یا سیکورٹی اداروں سے صلاح مشورے کیے۔ اس سے واضح ہوجاتاہے کہ حکومت سندھ کی ترجیحات میں دہشت گردی کا خاتمہ شامل نہیں ہے۔ عثمان نے انکشاف کیاتھا کہ جتنے بھی خودکش حملہ آور پاکستان میں آتے ہیں ان کو افغانستان سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان ،داعش اور لشکر جھنگوی کی جانب سے بھیجا جاتاہے۔ پاکستان میں اس وقت داعش، لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان پاکستان کے ماسٹر مائنڈ یا سرپرست شفیق مینگل ہیں ۔ جس نے خضدار وڈھ ،جھل مگسی میں اپنے ٹھکانے بنالیے ہیں ۔ بلوچستان پولیس یا ایف سی بھی شفیق مینگل کے خلاف کارروائی سے گریز کرتی ہیں ۔ حال ہی میں ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ شفیق مینگل کوحساس اداروں نے گرفتار کرلیاہے، تاہم اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔ شفیق مینگل بلوچستان اورسندھ کے لیے ایک چھلاوا بناہواہے۔ اطلاعات کے مطابق وہ اب تک چار سو سے زائد نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کوداعش کے لیے بھرتی کرکے شام اورعراق بھیج چکا ہے۔ شکارپور،جیکب آباد سانحات کے بارے میں گرفتار بمبارعثمان نے یہ بھی انکشاف کیاتھا کہ عبداﷲ بروہی اس پورے علاقے کا سرغنہ ہے وہ شفیق مینگل کا نائب ہے اوروہ پورے علاقہ کواچھی طرح جانتاہے اوراس نے سندھ بلوچستان کے تیس مقامات کونشانے پرلیا ہواہے۔ عبداﷲ بروہی اوران کے ساتھی اس وقت روپوش ہیں لیکن کیا قانون اتنا کمزور ہے کہ وہ اس کی گرفت سے آزاد ہیں ؟

[box type=”shadow” align=”aligncenter” class=”” width=””]پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے واقعات

پاکستان میں 2007 سے 2017 تک ہونے والے دہشت گردی کے بڑے اور ہولناک واقعات میں ہزاروں شہری ہلاک اور اتنی ہی تعداد میں زخمی بھی ہوئے، جس کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہے۔ 2007ء 8 اکتوبر 2007 کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قافلے کو کراچی میں بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا، جس میں 139 افراد ہلاک ہوئے، تاہم اس واقعے میں بے نظیر محفوظ رہیں جو 8 سال کی جلا وطنی کے بعد وطن واپس لوٹیں تھیں ۔ اسی سال 27 دسمبر کو راولپنڈی میں ہونے والے ایک قاتلانہ حملے میں بے نظیر بھٹو کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ 2008ء 21 اگست 2008 کو اسلام آباد کے قریب واہ کینٹ میں قائم ملک کی اسلحہ ساز فیکٹری کے قریب 2 خود کش دھماکوں میں 64 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔اسی سال 20 ستمبر کو ایک خود کش بمبار نے بارود سے بھرا ٹرک اسلام آباد کے فائیو اسٹار ہوٹل ‘میریٹ’ میں گھسا کر دھماکے سے اڑا دیا تھا جس میں 60 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 2009ء 28 اکتوبر 2009 کو پشاور کی مارکیٹ کو دہشتگردوں نے کار بم دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس کے نتیجے میں 125 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔7 اور 9 دسمبر کو لاہور کی مارکیٹ میں ہونے والے 4 مختلف حملوں میں 66 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 2010ء یکم جنوری 2010 کو بنوں میں ایک گاؤں کے فٹ بال اسٹیڈیم پر بارود سے بھری ہوئی کار سے حملہ کیا گیا، اس واقعے میں 101 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔28 مئی کو لاہور میں مسلح افراد اور خود کش بمباروں نے احمدیوں کی عبادت گاہ پر حملہ کیا اور 82 افراد کو ہلاک کردیا۔9 جولائی کو مہمند ایجنسی کی مارکیٹ میں خریداری میں مصروف 105 افراد خود کش دھماکے کی نذر ہوگئے۔3 ستمبر کو کوئٹہ میں اہل تشیع برادری کی ایک ریلی پر ہونے والے خود کش دھماکے میں 59 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔5 نومبر کو درہ آدم خیل میں جمعے کی نماز کے دوران دھماکے کے نتیجے میں 68 افراد ہلاک ہوگئے۔ 2011ء 3 اپریل 2011 کو ڈیرہ غازی خان میں ایک مزار کو دو خود کش حملہ آوروں نے نشانہ بنایا، واقعے میں 50 افراد ہلاک ہوئے۔اسی سال 13 مئی کو دو خود کش بمباروں نے چارسدہ کے پولیس ٹریننگ سینٹر کے باہر موجود افراد پر حملہ کیا اور 98 افراد کو ہلاک کردیا۔ 2013ء 10 جنوری 2013 کو کوئٹہ میں ایک اسنوکر کلب میں دو خود کش دھماکے ہوئے جس میں ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا تھا، حملے میں 92 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔16 فروری کو کوئٹہ کے قریب ہزارہ ٹاؤن میں ایک مارکیٹ میں بم دھماکا ہوا جس میں 89 افراد ہلاک ہوئے۔اسی سال 3 مارچ کو کراچی میں بارود سے بھری ایک کار کو ہجوم میں دھماکے سے اڑا دیا گیا جس میں 45 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔22 ستمبر کو پشاور میں قائم ایک چرچ میں دو خود کش بمباروں نے عبادت میں مصروف عیسائی برادری کو نشانہ بنایا، واقعے میں 82 افراد ہلاک ہوئے۔ 2014ء 2 نومبر 2014 کو پاک-بھارت سرحد پر واہگہ کے مقام پر خود کش دھماکا ہوا جس میں 55 افراد ہلاک ہوگئے۔16 دسمبر کو پشاور میں قائم آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا، جس میں مسلح دہشت گردوں نے 154 افراد کو ہلاک کردیا، ہلاک ہونے والوں میں 132 بچے شامل تھے۔ 2015ء 30 جنوری 2015 کو شکارپور میں ایک امام بارگاہ میں ہونے والے خود کش دھماکے میں 61 افراد ہلاک ہوئے تھے۔13 مئی کو کراچی میں ایک حملے کے دوران 45 اہل تشیع افراد کو ہلاک کردیا گیا، یہ پہلا موقع تھا کہ داعش نے کسی حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ 2016ء 27 مارچ 2016 کو لاہور کے ایک پارک میں ہونے والے دھماکے میں کرسچن برادری کونشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں 75 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔8 اگست 2016 کو صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے سول ہسپتال میں داعش کی حامی شدت پسند تنظیم جماعت الاحرار نے خود کش حملہ کیا جس میں 71 افراد ہلاک جبکہ 112 سے زائد زخمی ہوئے۔2 ستمبر کو مردان کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک اور 41 زخمی ہوئے۔16 ستمبر کو مہمند ایجنسی کے علاقے انبار میں ہونے والے دھماکے میں 37 افراد ہلاک اور 37 زخمی ہوئے۔24 اکتوبر کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں سریاب روڈ پر دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 64 افراد ہلاک اور 164 زخمی ہوئے۔12 نومبر کو بلوچستان کے ضلع خضدار میں درگاہ شاہ نورانی میں دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 53 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ 2017ء 2017 کا پہلا بڑا دہشت گرد حملہ 21 جنوری کو ہوا جب کرم ایجنسی کے علاقے پارا چنار کی سبزی منڈی میں ہونے والے دھماکے میں 25 افراد ہلاک اور 87 زخمی ہوئے۔اس کے بعد 13 فروری کو لاہور کے مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے قریب ہونے والے خود کش دھماکے کے نتیجے میں 13 افراد ہلاک اور 85 زخمی ہوئے۔16 فروری کو صوبہ سندھ کے شہر سہون میں درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار میں دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 50 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ [/box]
نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہوئی تواس میں توسیع نہیں کی گئی۔ اس پران دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوگئے اورانہوں نے سہون میں دل دہلادینے والا خودکش حملہ کردیا جس کے نتیجے میں اب تک80 افرادلقمۂ اجل بن چکے ہیں ۔ سہون وزیراعلیٰ سندھ کا آبائی حلقہ ہے اورحیرت کی بات یہ ہے کہ سہون سے سالانہ دوسے تین کروڑروپے کا نذرانہ حکومت سندھ وصول کرتی ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ سہون میں 50بستروں کا اسپتال تک موجود نہیں ہے۔ سہون میں ہرسال میلہ بھی لگتاہے جس میں ایک لاکھ سے زائد افراد آتے ہیں اور ہرسال میلے میں دھکم پیل،گرمی، حیضہ یا نہانے پردس پندرہ افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں ۔ پہلے تووزرائے اعلیٰ دوسرے اضلاع کے ہوتے تھے لیکن اب تووزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا تعلق سہون سے ہے وہ اس حلقہ سے منتخب ہوکرآتے ہیں اوروہ بھی سہون سے لاتعلق بنے ہوئے ہیں ۔کتنے شرم کی بات ہے کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں حکومت سندھ نے وزراء کے گھروں کی تزئین وآرائش پر12کروڑروپے جاری کیے ہیں جس میں ان کونئی گاڑیاں بھی لے کردی گئی ہیں ۔حال ہی میں ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا کو96لاکھ 13ہزار روپے سرکاری گھرکے رنگ روغن کے لیے دیے گئے ہیں لیکن کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ سہون میں اسپتال کے لیے ہی فنڈز مختص کرتا ۔سہون واقعہ نے حکومت سندھ کااصل چہرہ بے نقاب کردیاہے، حکومت سندھ کی نااہلی کھل کرسامنے آگئی ہے۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ویسے توکراچی میں ہرجگہ پہنچ جاتے ہیں مگراس واقعے کے بعدوہ سہون جانے کے بجائے کراچی ائیرپورٹ پہنچ گئے جہاں انہوں نے آصف علی زرداری کا استقبال کرکے اپنی نوکری بچالی۔ کیا ایسے حکمرانوں کا اس صوبہ پرحکمرانی کا حق بنتاہے؟ جوبم دھماکے والی جگہ کوچھوڑ کرائیرپورٹ پرپارٹی سربراہ کے استقبال کے لیے پہنچ جائے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں