اندھاپن
شیئر کریں
مشہورکہاوت ہے کہ ’’آنکھیں خود کو دیکھنے میں اندھی ہوتی ہیں ‘‘۔ افسوس ہمارا معاشرہ بے سمت ہو چکا۔ دوسروں کی غلطیوں کے لیے ہم ’’جج‘‘ اور اپنے جرائم کے بھی ہم ’’وکیل‘‘ بن جاتے ہیں ۔دہشت گردی کے مسئلے پر یہ سارے زاویے پوری طرح ہمارے انفرادی ، قومی اور سرکاری رویوں کی وضاحت کرتے ہیں ۔بات اس سے بھی کچھ بڑھ کرہے۔
ہمارے حافظے اب ماند پڑتے جاتے ہیں ۔ وہ نہ’’ ڈرنے وڑنے ‘‘ والے جنرل(ر) مشرف کے عہد میں ہمیں کہا گیا تھا کہ پالیسیوں میں اُلٹی زقند بھرنے سے کچھ بھی نہ ہوگا۔پھر افغانستان سے لے کر بھارت تک قومی حکمت عملی کا ہر چہرہ بگاڑ دیاگیا۔ یہاں تک کہ حامد کرزئی کو افغانستان کی صدرارت سپرد کرتے ہوئے ہمیں یہ ’’چورن‘‘ بیچا گیا کہ اُن کی پوری زندگی پاکستان میں گزری ہے۔ پھرکابل کے اُس چغہ پوش نے افغانستان کو مکمل بھارت کے حوالے کردیا۔ اور اب وہی افغانستان پاکستان کے اندر جاری دہشت گردی میں بھارت اور ہمارے اپنے ہاتھوں کی جنبش سے اپنے دروبست سنوارنے والے سفاک ’’طالبان‘‘ کے درمیان ایک سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے۔ لاچاری کا عالم یہ ہے کہ افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی پر افغان حکومت پاکستان مخالف بیانات دیتی ہے۔پاکستان کو اس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ ذمہ دار ٹہراتی ہے۔ مگر پاکستان اپنے ہاں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کے تمام ثبوتوں کے باوجود افغانستان پر انگشت نمائی کرنے کے قابل تک نہیں رہا۔ ایک طرف امریکا ہے جو افغانستان کے خیمے میں اونٹ کی طرح گُھسا بیٹھا ہے جس کی بارگاہِ نیاز میں ہماری سیاسی اور عسکری اشرافیہ کی نہ جانے کیوں جبینیں ہمہ وقت جھکی رہتی ہیں ۔ اور دوسری طرف بھارت ہے جو امریکا کے ساتھ تعلقات کی گہرائی میں عالمی ، علاقائی اور مقامی سطح پر ایک قائدانہ کردار کی تلاش میں ہے۔پاکستان کے پاس اس میان و درمیان میں کھینچنے کے لیے بہت کم رسیّاں رہ گئی ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی رسیّاں بچانے میں کوئی دلچسپی بھی باقی نہیں رہ گئی۔کیونکہ پاکستان میں سیاسی اور عسکری تقسیم کا معاملہ اس قدر خوف ناک ہو چکا ہے کہ سیاسی اشرافیہ، عسکری غلبے سے بچنے کے لیے اپنے حقیقی دشمنوں تک کو نظرانداز کرنے کی ذہنیت پال رہی ہے۔ بھارت اسی نفسیات میں دھماچوکڑی مچاتا ہے۔ افسوس ہماری آنکھیں اپنے عیوب کو دیکھنے میں اندھی ہو چکیں ۔
دہشت گردوں نے پانچ دنوں میں ملک کے چاروں صوبوں کو اپنا ہدف بنایا مگر سیاسی اشرافیہ کے پاس الگ الگ صوبوں کے لیے الگ الگ حل ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ ہم الگ الگ صوبوں کے لیے الگ الگ لاٹھیاں رکھتے ہیں ۔ سندھ کو رینجرز کے ہاتھوں ہانکا جائے گا۔ مگر پنجاب میں الگ قواعد لاگو ہوں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے سوال ہوا کہ پنجاب میں جاری دہشت گردی کی لہر پر قابو پانے کے لیے رینجرز کی خدمات کیوں نہیں لی جاتی؟ اُن کا جواب تھا کہ سی ٹی ڈی زبردست کام کررہی ہے۔ اُنہوں نے دہشت گردی کے ذمہ دار چھ لوگوں کو ابھی مار گرایا ہے۔ جی ہاں اس سے مراد’’ پولیس مقابلہ‘‘ ہی ہے۔ جس کے متعلق پاکستان میں عامی کو بھی شک نہیں ہوتا کہ یہ مقابلے نہیں بلکہ تحویل میں رکھے افراد کو کسی مناسب موقع پر گولیاں مارنا ہوتا ہے۔ مگر اس سے قطع نظر اگر یہ بات درست ہے تو پھر جتنے آدمی پنجاب کی سی ٹی ڈی نے مارے ہیں ، اُس سے کہیں زیادہ بندے تو یہاں ایک ایس ایس پی راؤ انوار نے کھڑکا دیے ہیں ۔راجہ عمر خطاب کا ذکر ابھی موقوف رکھیے۔ کیا اس دلیل پر سندھ میں رینجرز کے کردار کو ختم نہ ہوجانا چاہئے۔ مگر ظاہر ہے کہ ہم اپنے گناہوں کے سب سے بڑے وکیل ہیں ۔
دہشت گردی کا عفریت اب بے قابو ہو تا جاتا ہے۔ افغانستان کی سرکاری سرپرستی کے ثبوت اداروں کے پاس موجود ہے۔ ایک غیر معمولی اقدام کے طور پر افغان سفارت کار وزارت خارجہ کے بجائے جی ایچ کیو طلب کیے جاچکے ہیں ۔ مگر اس کے متوازی پاکستانی سیاست کا ایک مکروہ میلان ہے۔ پاکستان کے اندر اس نوع کی سرگرمیوں کو سیاست دان اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے۔ اگر چہ وہ خود بھی یہ کام اپنے طور پر صاف ستھرے اور قابل اعتبار وانحصار طریقے سے کرنے کے لیے راضی بھی نہیں ہوتے۔ پھر خلاء میں چیزیں معلق بھی نہیں رہ سکتیں ۔ سیاست دانوں کا حال یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے مسئلے سے عملاً اپنے آپ کو دور کرچکے ہیں ۔ اور اس معاملے کی تمام تہہ داریاں وہ فوج کے حوالے کرچکے ہیں ۔ پھر ایسا کیوں نہیں ہوگا کہ وہ بھارت اور افغانستان کے معاملات بھی اپنے ہاتھ میں رکھنے پر مُصر نہ ہو۔ دہشت گردی کے تمام ڈانڈے وہیں سے تو جاملتے ہیں ۔ سیاسی حکومتیں چاہتی ہیں کہ وہ بھارت کے حوالے سے اب ایک نیا سیاسی بیانیہ تخلیق کریں اور دفاعی نقطۂ نظر کے پُرانے موقف کو پیچھے دھکیل دیں ۔اس کے لیے جس شفافیت،فعالیت اور حمایت کی ضرورت ہے وہ کہیں پر موجود ہی نہیں ۔ سیاسی حکومتوں کا ماجرا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا اپنا آبائی حلقہ سہون شریف ہے جہاں وہ آج تک پچاس بستروں کا ایک اسپتال تک نہیں دے سکے۔ مراد علی شاہ نے سندھ کی باگ دوڑ سنبھالتے ہوئے اپنی شفافیت پر کچھ عرصے اِصرار کیا تھا مگر اب وہ بھی سوالات کے نرغے میں آچکے ہیں ۔ یہ کیسی بے حمیتی ہے کہ وزراء اور مشیروں کی سہولتوں پر ابھی وزیراعلیٰ نے بارہ کروڑ روپے پھونکے ہیں ۔اُنہوں نے اونچا بولنے کی شوقین ڈپٹی اسپیکر شہلارضا کے گھر کی تزئین وآرائش کے لیے چھیانوے لاکھ تیرہ ہزار روپے دان کر دیے۔ اگر یہی رقم سہون ، بھٹ شاہ اور رانی پورمیں اسپتالوں کی تعمیر پر خرچ کردی جاتی تو پچاس بستروں کے درمیانے درجے کے تین اسپتال وجود میں آجاتے۔دراصل غلط ترجیحات اور بے سمتی نے ہمیں دہشت گردوں سے پہلے ہی مار ڈالا ہے۔
سیاسی حکومتوں کے پاس اپنی بالادستی کے لیے مہذب دنیا کی دلیلیں ہیں مگر اس بالادستی کے لیے مہذب دنیا جس نوع کے سیاست دانوں کی نسل تیار کرتی ہے۔ اُن کے لیے اخلاقیات اور جواب دہی کے جو معیارات رکھتی ہیں ، اُسے پورا کرنے کے لیے یہ نسل تیار ہی نہیں ۔ ذرا ان سیاست دانوں کی گفتگو تو ملاحظہ فرمائیں ، اُن کی لیاقت خود ہی ، خود پر ماتم زدہ دکھائی دیتی ہے۔ کوئی قرینہ ، سلیقہ اور طریقہ یہ اختیار کرنے کو تیار ہی نہیں ۔ سندھ کے قدرے قرینے کے آئی جی کو اپنی ’’مبینہ ایمانداری‘‘ اب وزیراعلیٰ سندھ کے پاس رہن رکھنی پڑی ہے۔پنجاب کا تھانیدار حمزہ شہبار کی صوابدید تلے دبا رہتا ہے۔ آخر یہاں شرم آتی کسے ہے؟دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے پہلے خود کو تولنا ،ٹٹولنا اور پرکھنا پڑے گا۔ مگر آنکھیں خود کو دیکھنے کے لیے اندھی ہوتی ہیں ۔کوئی کیسے کسی سے اُمید باندھے؟؟؟
٭٭