جسٹس شیخ ریاض سے جسٹس ثاقب نثار تک
شیئر کریں
عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے سندھ کے علاقے گھوٹگی کے رہائشی علی حسن مزاری کی درخواست پر تین سالہ بچی کو ونی کرنے کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے جرگے کی تفصیلات طلب کر لی ہیں ۔ جرگے نے علی حسن مزاری پر تین لاکھ روپے جُرمانہ عائد کرتے ہوئے اُس کی تین سالہ بچی کو ونی کرنے کا حکم دیا تھا ۔ علی حسن نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ اس کی بیٹی کو تحفظ فراہم کیا جائے اور جرگے کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے ۔
”ونی “ کا لفظ کس زبان سے تعلق رکھتا ہے ۔ اور اس کے اصل معانی اور مفاہیم کیا ہیں ۔ اس بارے میں مَیں آج تک کسی حتمی رائے تک نہیں پہنچ سکا ہوں ۔ میری طرح خیبر پختونخوا ، پنجاب اور سندھ کے دیہی اور قباعلی علاقوں میں لوگ ”ونی“ کی ابتداءاور مفہوم سے آشناءنہیں ہیں لیکن ان علاقوں میں اب تک سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں بچیاں اور دوشیزائیں ناکردہ گناہوں کے جرم میں اس کی بھینٹ چڑھ چُکی ہیں ۔
یہ رسم پاکستان کے تقریباً تمام ہی علاقوں میں مختلف ناموں اور شناخت کے ساتھ رائج ہے ۔ شرم، ساکھ ، عوض ، خون بہا ، بازو، وئنے، سب کے سب اسی مکروہ رسم کے نام اور شکلیں ہیں ۔ ویسے تو یہ گھناو¿نی رسم برِ صغیر کے ان علاقوں کی سماجیات کا صدیوں سے حصہ چلی آ رہی ہے جو اس وقت پاکستان میں شامل ہیں ۔ لیکن میانوالی کی بیٹیاں ، صحافی خاص کر ہفت روزہ ” وجود “ کراچی اس ڈریکولائی رسم پر قانونی قدغن لگوانے کے لیے بارش کا پہلا قطرہ بنے ہیں ۔ اس جدو جہد میں پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کے دو چیف جسٹس صاحبان جناب جسٹس شیخ ریاض احمد اور جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کردار لائق ِ تحسین ہے۔
24 جولائی2002 ءکو اُس وقت کے چیف جسٹس جناب جسٹس شیخ ریاض احمد نے” ابا خیل ونی کیس “ کا نوٹس لیتے ہوئے تین دن کے اندر میانوالی کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سے رپورٹ طلب کی تھی اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ” کہ بادی النظر میں اس طرح کی صلح اور سمجھوتاقانون کے منافی اور مہذب معاشرے کی روایات کے بر عکس ہے “ ۔ اس از خود نوٹس نے صلح کے عوض 8 لڑکیوں کو ونی کی بھینٹ چڑھنے سے بچا لیا تھا ۔ 21 دسمبر2002 ءکو چیف جسٹس شیخ ریاض احمد کی سربراہی میں منعقد ہونے والے قومی جو ڈیشل کونسل کے اجلاس میں ”ونی “ کی رسم کا نوٹس لیتے ہوئے قرار دیا گیا تھا کہ ” یہ روایت اسلام کے بنیادی اُصولوں کے خلاف ہے ۔ کیونکہ کوئی بھی شادی فریقین کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتی ۔ جوڈیشل کمیشن کے اس اجلاس میں چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس اور شریعت کورٹ کے چیف جسٹس شامل تھے ۔ اجلاس میں قرار دیا گیا تھا کہ ” سیکشن 103 اور 833 ای (پاکستان پینل کوڈ)واضح طور پر عورت کو صلح کے بدلے میں دینے کی مخالفت کرتا ہے ۔ جوڈیشل کمیشن کی اس کارروائی کے بعد حکومتِ پاکستان کی جانب سے 1860 ءکے پولیس ایکٹ کے تحت بنائے گئے پاکستان پینل کوڈ ( تعزیراتِ پاکستان ) کی دفعہ310-A کا اضافہ کیا گیا تھا ۔
310-A Punishment for Giving a female in marriage or other wise in Badal-i- Sulah , Shell be Punished with rigorous imprisinment Which may extent to ten Years but shall not be les than three Years.
سابق چےف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بارے مےں اپنے دلوں مےں خلش رکھنے والے ان کے بارے مےں کےا فرما تے ہےں۔اس پر گفتگو لاحاصل ہوگی۔تارےخ کسے ، کےسے او ر کن حوالوں سے ےاد رکھتی ہے اس کا فےصلہ ہماری خواہشوں پر نہیں حقائق کے مطابق ہوگا ۔ مورخ کا قلم وقت اور حالات کے جبر کو خاطر میں نہیں لاتا۔ونسٹن چرچل نے اےک موقع پر کہا تھا کہ ”کسی شخص پر تارےخ کے فےصلے کا انحصاراس کی فتح و شکست پر نہےں اس کے نتائج پر ہوتا ہے ۔۔“ تاریخ انہی عالمگیر اُصولوں کی روشنی میں ہماری عدلیہ کا محاکمہ بھی کرے گی ۔
” ونی “ کی رسم کے خاتمے کے حوالے سے بلاشُبہ افتخار محمد چوہدری پاکستانی عدلےہ کے سب سے جرا¿ت مند جج کے طور پر ہمےشہ ےاد رکھے جائےں گے۔ ان سے اختلاف کے کئی جواز موجود ہےں لےکن9 مارچ 2007 کو چےف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے وقت کی بے لگام آمرےت کے سامنے ”صدائے انکار “ بلند کر کے اےک نےا جہاں تخلےق کےا تھا۔۔۔۔۔۔ قائدےن کی بہتات اور قےادت کے فقدان کے باعث ماےوس سول سوسائٹی اورعام آدمی کوجرا¿تِ اظہار ملی تھی ۔ دےکھتے ہی دےکھتے پھر اےک اےسی تحرےک برپا ہوئی کہ پندرہ اور سولہ مارچ 2009 ءکی درمےانی رات کو عوامی مطالبے کے سامنے جبر نے گھٹنے ٹےک دیے تھے۔
مجھے اچھی طرح ےاد ہے کہ سولہ مارچ2009 ءخواب کے تعبےر بننے کی پہلی صبح تھی۔ اس روز جہاں پوری قوم خوشی اور مسرت سے نہال تھی، وہاں ضلع مےانوالی کے اےک دور افتادہ قصبے ” سوانس “ مےں ”ونی “ کی غےر انسانی رسم کا شکار بچےاں اےک گھر مےں اکھٹی ہوئیں اور انہوں نے چےف جسٹس آف پاکستان کی بحالی کی خوشی مےں شکرانے کے نفل ادا کیے۔ ےہی دوشےزائےں اےک روز قبل ےعنی پندرہ مارچ کو بھی جمع ہوئی تھےں اور انہوں نے درود شرےف کا ”ختم “کرنے کے بعد چےف جسٹس کی بحالی کے لیے دعائےں مانگےں تھےں۔
سابق چےف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری اےک بے مثال تحرےک کے نتےجے مےں بحال ہوئے تھے ۔ اس تحرےک مےں جہاں سول سوسائٹی، وکلاءاور مختلف سےاسی جماعتوں کے کارکنوں نے ان تھک جد و جہد اوراستقامت سے کام لےاتھا ۔ وہاں معاشرے کے مجبور اور مظلوم طبقات کی دعائےں بھی شامل تھےں۔ چیف جسٹس کی بحالی کی اس لا زوال تحرےک مےں زندگی کے تمام طبقات نے اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لےا تھا۔وطنِ عزےز کے شہروں، قصبوں اور گلی محلوں مےں رہنے والے ان بے کسوں، بے بسوں ، لاچارو و بے مرادوں کی دعائےں بھی شامل تھےں۔جو معاشرتی، سماجی عدم مساوات کا شکار ہو کر مسائل ومشکلات کی گرداب مےں پھنسے ہوئے تھے۔بے بسی کی ان تصوےروں مےں جابجا ان پاکستانی خواتےن کے نقش بھی اُبھرے ہوئے تھے جو غےرت کے نام پر قتل، وٹہ سٹہ، کاروکاری، قرآن سے شادی، جہےز کی لعنت اور ونی جےسی ننگِ انسانےت رسموں کا اےندھن بنتی رہی ہےں۔
چےف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے دور مےں ” ونی “ کی گھناو¿نی رسم کے خلاف از خود نوٹس لےکردرجنوںا ےسی معصوم دوشےزاو¿ں کو اس مکروہ رسم سے نجات دلائی جو اپنے عزےز و اقربا اور رشتہ داروں کے جرائم کی بھےنٹ چڑھائی جا رہی تھےں۔ چےف جسٹس افتخار چوہدری نے دسمبر2007 سے لےکر 9 مارچ 2008 ءتک مےڈےا کی نشاندہی پر صرف مےانوالی کے علاقے مےں 30 سے زائد بچےوں کو ونی کی بھےنٹ چڑھنے سے بچاےا تھا۔ مےانوالی کی اسلام بی بی دختر خان زمان خان نے ونی کی گھناو¿نی رسم کی بھےنٹ چڑھنے سے انکار کےا تو عےن انہےں دنوں مےں اےوانِ ہائے عدل کا افتخار جنر ل مشرف کی آمرےت کی بھےنٹ چڑھ چکا تھا۔ پولےس نے فوری طور پر”ونی “ کےسز سے آنکھےں پھےر لےں۔ اور جب اسلام بی بی نے ”ونی “سے نجات کے لیے پولےس سے رابطہ کےا تو اس وقت پولےس کی طرف سے اسے کہا گےا کہ ”جاو¿ چےف جسٹس افتخار چوہدری سے رابطہ کرو“ ۔۔۔ اےک ڈی اےس پی نے اسلام بی بی کے کےس مےں با اثر افراد کو مقدمے سے فارغ کر کے اسلام بی بی کے والد کو جےل مےں ڈال دےا تھا۔
پھر خدا کا کرنا اےسا ہوا کہ چےف جسٹس افتخار چوہدری بحال ہوگئے۔ انہوں نے بحالی کے فوراً بعد ” اسلام بی بی “ ونی کےس کا نوٹس لےا اور تےن دن کے اندر اندر اسلام بی بی کو ونی کی رسم سے نجات مل گئی۔۔ اس کا والد بھی جےل سے باہر آگےا۔ اور پولےس کا ڈی اےس پی مکافاتِ عمل کا شکار ہوا۔ اپنے بےٹے کی جانب سے پسند کی شادی کے جرم مےں جےل ےاترا اس کا مقدر ٹہری اور وہ کم و بےش اُتنے ہی دن جےل مےں رہا جتنے دن ونی کی شکار اسلام بی بی کا والد پابندِ سلاسل رہا تھا۔
معاشرتی جبر اور فرسودہ سماجی رواےات کے حوالے سے جناب جسٹس شیخ ریاض احمد اور جناب افتخار چوہدری کا کردار پاکستان کی عدالتی تارےخ کا اےک ضو فشاں باب اور درخشندہ حوالہ ہے۔انہوں نے ونی اور سوارا سے متعلق مقدمات اور از خود نوٹسز کی نہ صرف خود سماعت کی بلکہ اس حوالے سے عدلےہ کے فےصلوں پر عمل درآمد کو بھی ممکن بناےا ۔ اور ان معاملات کو جوڈےشل کونسل کے اجلاسوں کے اےجنڈوں مےں بھی شامل رکھا ۔ عدلےہ ہی کی کاوشوں سے ونی کی رسم کو غےر قانونی قراردےنے کے لیے تعزےراتِ پاکستان کی دفعہ310.A کا اضافہ کےا گےا ۔ اب چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے گھوٹگی میں جرگہ کے فیصلہ کے نتیجے میں ونی کی جانے والے تین سالہ بچی کو ونی کیے جانے کا نوٹس لیا ہے۔ یہ سابقہ چیف جسٹس صاحبان جناب جسٹس شیخ ریاض احمد اور جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے معاشرتی رسموں کی بھےنٹ چڑھنے والی خواتےن کو بچانے کے اقدامات کا تسلسل ہے۔ ہماری عدلیہ کا یہ روشن کردار خواتےن کو ان کا وہ مقام دلانے مےں معاونِ ثابت ہوگا جو اسلام نے خواتےن کو عطا کےا ہے۔
٭٭