میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
علم کو بدنام نہ کریں

علم کو بدنام نہ کریں

منتظم
بدھ, ۱۸ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

علم مومن کی میراث ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا علم حاصل کروماں کی گود سے قبر کی آغوش تک۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مبارک کے نزول کا آغاز کیا تو فرمایا ” پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تجھ کو پیدا کیا. انسان کو پیدا کیا خون کے لوتھڑے سے” معروف حدیث ہے۔ ” میں علم کا شہر ہوں، ابوبکرؓ اس کی بنیاد،عمرؓ اس کی فصیل ،عثمانؓ اس کی چھت اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں۔
اسلام میں کسی بھی قسم کے علم کے حصول پر پابندی نہیں۔ وہ لسانیات ہو، سماجیات، نفسیات ہو کیمیا ہویا اور کوئی بھی تعلیم ، دنیاوی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ علوم یا سائنسی تعلیم اور فنون یا سماجی تعلیم ۔ پھر سماجی تعلیم کی بھی تقسیم ہوئی ہے جس کا ایک حصہ عملی علوم (Applied Science) کہلاتا ہے۔ جیسے کہ سماجیات (Socialogy) نفسیات(Psychology) اور سیاست۔سیاست کی تعلیم کو علوم کا درجہ حاصل ہے اور اس کو (Political Science) کہا جاتا ہے ۔سیاست نظام مملکت چلانے کا علم ہے۔ یہ علم اس وقت بھی موجود تھا جب طبیعیات ،کیمیا، حیاتیات اور دیگر علوم کا نام ونشان نہ تھا کہ سیاست وریاست لازم وملزوم ہیں اور ریاست کا وجود قبل ازتاریخ سے ثابت ہے۔
دنیا بھر میں ریاست اور سیاست ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔سیاست کو خدمت خلق کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں سماجی خدمات کو اپنا شعار بناتی ہیں اور اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کر لیتی ہیں پھر خدمت کا دائرہ بڑھا کر اپنے اقتدار کو طول دیتی ہیں یا پھر عوام کے عدم اعتماد کا شکار ہو کر قصر اقتدار سے بے دخل ہو جاتی ہیں۔
یوں تو دنیا کے تقریباً80 فی صد ممالک میں جمہوری طرز حکمرانی ہے لیکن جمہوری اقدار میں مادر جمہوریت برطانیہ کو اعلیٰ مقام حاصل ہے وہاں ایوان حکمرانوں کی ٹانگیں کھینچنے کے لیے استعمال نہیں ہوتا وہیں حکمران جماعت بھی بے لگام نہیں ہوتی۔اگر سرونڈسرچرچل ایک ووٹ کی اکثریت کی بنیاد پر عرصہ حکومت مکمل کرتے ہیں تو اس میں سرونڈسر چرچل سے زیادہ اس وقت کے قائد حزب اختلاف کا اعلیٰ کردار مددگار ہوتا ہے کہ وہ حصول اقتدار کے لیے ایوان کو ارکان کی ” منڈی” نہیں بناتے اور آئندہ انتخابات کا انتظار کرتے ہیں، حکومت کو ایسے کاموں پر مجبور کرتے ہیں جس سے عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولت دی جاسکے ۔ ان سہولیات کے لیے قانون سازی کرتے ہیں۔ بل پاس کراتے ہیں اور پھر اپنی اس کارکردگی کی بنیاد پر عوام کی عدالت میں جاتے ہیں۔
کرپشن دنیا کے ہر ملک کا مسئلہ ہے ، کوئی بھی ملک زیروکرپشن کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔بس شرح مختلف ہے ، کہیں آٹے میں نمک اور کہیں نمک میں آٹا۔ کہیں کرپشن کے الزام پر استعفا اور کہیں کرپشن کے ثبوت کا مطالبہ۔ تقریباً2دہائی قبل میڈیا ابھی سرکاری تحویل میں تھا ،صرف سرکاری ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا۔ٹاک شوز کی بھرمار نہیں تھی، نہ ہی ریٹنگ کی جنگ تھی کہ ہر قیمت پر سنسنی پھیلا کر ریٹنگ بہتر کی جا سکے، نہ ہی بریکنگ نیوز کی اصطلاح ابھی عام ہوئی تھی ۔اب تو بلی نے چوہا پکڑ لیا تو بریکنگ نیوز اور اگر چوہا جان بچانے میں کامیاب رہا تو بھی بریکنگ نیوز۔ پھر سب سے پہلے کے چکر میں خبر کی تصدیق سے قبل تشہیر ضروری قرار پائی ہے۔90 کی دہائی کا تقریبا وسط کا عرصہ تھا کرپشن اور بیڈگورننس کے الزام کے تحت انکل کے ہاتھوں ایک حکومت برطرف ہوئی تھی۔ سرکاری ٹی وی جو چند دن قبل تک حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کا بھونپو بنا ہوا تھا ۔ اب تبدیلی¿ وقت کے ساتھ ہی سابق حکمران کی کرپشن کا اشتہار بن چکا تھا۔ ایک معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار جو انگریزی میں لکھنے کا ہنر رکھتے تھے لیکن اردو بولنے میں کمزور تھے، اردو بولتے ہوئے گجراتی اور مراٹھی کا تڑکا بھی لگاتے تھے۔ اینکر نے پروگرام کے شرکاءسے سوال کیا کہ کرپشن کا الزام تو ہے ثبوت نہیں مل رہے، دیگر شرکاءپروگرام کی بات تو اب یاد نہیں لیکن اردشیر کاو¿س جی کا مراٹھی گجراتی ملی اردو میں جواب ایسا تھا کہ اس کو چاہتے ہوئے بھی بھلانا ممکن نہیں ۔کاو¿س جی نے کہا کہ کرپشن کا ثبوت مانگناتو ایسا ہی ہے کہ جیسے تھاندار جس کے گھر چوری ہوئی ہو، اس کی فریاد اس لیے درج نہ کرے کہ اس کے پاس چوری ہونے والی اشیاءکی، چور کی جاری کردہ رسید نہیں ہے۔کاو¿س جی نے مزید کہا کہ یہ دیکھو کہ اقتدار اور اختیار ملنے سے قبل اس کا طرز اور معیار زندگی کیسا تھا اور اب کیا ہے ،اگر اس میں ایسی غیر معمولی تبدیلی نظر آئے جو عام حالات میں ممکن نہ ہو تو یہی اس کے کرپٹ ہونے کا ثبوت ہے ۔
بات کسی اور طرف نکل گئی اصل بات کی طرف آتے ہیں گزشتہ سال پاناما لیکس کے افشاہونے کے بعد دنیا میں ایک بھونچال آگیا تھا۔ ایک بڑی تعداد میں حکمرانوں کو اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہونا پڑا ۔جو حکمران رخصت ہوئے ان میں سے اکثریت کی نظر میں اس دنیا کی زندگی اوراقتدار ہی سب کچھ تھا ان میں سے کسی کا بھی رول ماڈل ابو بکر صدیقؓ ، عمر فاروقؓ ،عثمان غنیؓ اور علی المرتضیؓ نہیں تھے۔ ان کے رول ماڈل تو دنیا دار لوگ تھے لیکن جب کرپشن میں نام آیا تو ان میں سے کسی نے بھی وصولی رشوت کی رسید کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ استعفیٰ دے کر خود کو انصاف کے حوالے کر دیا ۔پاناما لیکس میں پاکستانیوں کے نام بھی آئے اور بدقسمتی سے موجودہ حکمران خاندان کا شاید ہی کوئی فردہوگا جس کا نام اس فہرست کا حصہ نہ ہو ۔
جب پاناما لیکس کا بھونچال آیا تو اس کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے کہ اس میں نہ صرف حکمران خاندا ن کے افراد کے نام تھے بلکہ اکثر معروف سیاستدانوں اور کاروباری افراد کے نام بھی تھے۔ ان میں سے چند ایک نے بے نامی اثاثوں کا اعتراف کر لیا ۔آف شور کمپنیوں کی ملکیت تسلیم کر لی، یوں ان کا احتساب تو آسان ہو گیا لیکن حکمران خاندان نے تاویلات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا۔ ہر بودی دلیل کے بعد ایک نئی بودی دلیل اور پھر اس بے سروپا دلیل کو ہی درست تسلیم کرنے پراصرار نے معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا دیا ۔سپریم کورٹ میں وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے افراد کئی وکیل تبدیل کر چکے اس ہی دوران وزیر اعظم نے قومی اسمبلی جس کے تقدس کی دہائی وزیر اعظم ،وزراء،اسپیکر اور قائد حزب اختلاف دیتے نہیں تھکتے،میں انہوں نے بیان دیا کہ لندن فلیٹ جدہ کی اسٹیل میل کی فروخت سے حاصل ہونے والے سرمائے سے خریدے گئے ہیں، اس وقت تک نا تو قطر میں کی گئی سرمایہ کاری، نہ ہی قطری شہزادے کا خط سامنے آیاتھا لیکن جب یہ امر پائے ثبوت تک پہنچ گیا کہ لندن فلیٹس کی خریداری جدہ کی اسٹیل میل کی فروخت سے تقریباً 15 سال قبل کا معاملہ ہے تو اب بات بنانے اور گھمانے کا کوئی نیا راستہ ڈھونڈنا تھا،یوں قطری شہزادے کا خط سامنے آ گیا یہ©” مبینہ سرمایہ کاری” اس وقت کی ہی ہے جب قطری شہزادے کی عمر ایسی تھی کہ جس میں معاملات کا علم ہونا تو بڑی بات اپنا نام اور مرتبہ بھی معلوم نہیں ہو سکتا تھا۔
گزشتہ دنوں میاں محمد نواز شریف کے وکیل نے سپریم کورٹ میں بیان دیا کہ وزیر اعظم کی قومی اسمبلی میں تقریر سیاسی بیان تھا گویا قومی اسمبلی نہ ہوئی ” گوالمنڈی” ہو گئی۔2003 یا 2004 کی بات ہے کہ خود ساختہ سابق صدر پرویز مشرف نے حیدرآباد کے بلدیاتی نمائندوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حیدرآباد کے لیے 10 ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا، کچھ وقت گزرا تو حیدرآباد سے منتخب رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے قومی اسمبلی سے اس پیکج کی پیش رفت کے بابت آگاہی چاہی، تو جواب آیا کہ عوامی اجتماعات میں کیے جانے والے اعلانات سیاسی ہوتے ہیں، قانونی اور اخلاقی جواز وہی زبان رکھتا ہے جو اسمبلی میں دیا جائے۔ اب اسمبلی میں دیا جانے والا بیان بھی سیاسی قرار پایا ہے۔ اب میاں صاحب کے معزز وکیل ہی بتا دیں کہ سچ کہا ںبولا جاتا ہے۔عوامی اجتماع میں دیا جانے والا بیان سیاسی، اخباری بیان بھی سیاسی، ایوان میں دیا جانے والا بیان بھی سیاسی تو گویا سچ ناپید ہوا ۔اب ذرا اللہ تعالیٰ کے فرمان کو بھی یاد کریں۔ رب کائنات اپنے کلام میں فرماتے ہیں ” جھوٹوں پر اللہ کی لعنت”۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنا پڑھتے ہیں گویا ہر جھوٹ کی پردہ پوشی کے لیے مزید سو جھوٹ اور یوں جھوٹ کا نا ختم ہونے والا سلسلہ ۔تو بہتر ہے کہ ایک بار دل پر پتھر رکھ کر سچ ہی کیوں نا بول لیا جائے۔ یہ قوم بہت نرم دل ہے نہ صرف معاف کر دے گی بلکہ آئندہ اقتدار بھی بخش دے گی ۔ اپنے جھوٹ کو سیاست کہنا علوم سیاست کی توہین ہے اور علم کی توہین کرنے والا دنیا اور آخرت دونوں میں ناکام رہتا ہے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں