مالیاتی عالمی نظام میں یوآن اور ڈالر کا مستقبل
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
میں اپنے گزشتہ کئی کالمزمیں نومنتخب ٹرمپ کی نئی کابینہ کی نامزدگیوں کے بعدان خدشات کااظہارکرچکاہوں کہ دنیامیں سردجنگ کے امکانات میں اس قدراضافہ ہوجائے گاکہ امریکا کا”واحدسپرپاور”کادعویٰ ختم ہوتانظرآئے گا۔یہ بھی مکافاتِ عمل ہے کہ جس افغانستان میں روس کو بدترین شکست کے بعدٹوٹنے کاصدمہ برداشت کرناپڑااورامریکادنیاکی واحدسپرپاوربن گیا،اسی افغانستان سے رسوائی کے ساتھ نکلنے کے بعداب یوکرین میں اپنے عالمی ٹائٹل کے دفاع کی آخری جنگ لڑرہاہے۔
ٹرمپ نے20جنوری کوحلف اٹھانے سے قبل اس حوالے سے سوشل میڈیاپربرکس کے9ممالک کودھمکی دی ہے، اگرانہوں نے امریکی ڈالرکے مقابلے میں لین دین کیلئے کسی نئی کرنسی کاانتخاب کیاتوان پر100فیصدتک ٹیرف عائدکردیاجائے گا۔یہ خیال کہ برکس ممالک ڈالرسے دورہونے کی کوشش کریں گیاورہم دیکھتے رہیں گے،اب نہیں چلے گا۔ واضح رہے کہ عالمی طاقتیں چین اورروس برکس کا حصہ ہیں جس میں برازیل،انڈیا،جنوبی افریقا،ایران،مصر،ایتھیوپیااورمتحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں۔صدارتی انتخابات سے قبل مہم کے دوران ٹرمپ نے وسیع پیمانے پرٹیرف لگانے کاعندیہ دیاتھالیکن حالیہ دنوں میں اس بارے میں دھمکی آمیزبیانات میں اضافہ ہوگیا ہے۔یادرہے کہ برازیل اور روس کے سرکردہ سیاستدان تنظیم کی اپنی کرنسی بنانے کامشورہ دے چکے ہیں جس کامقصد عالمی تجارت میں امریکی ڈالرپرانحصارکم کرناہے لیکن تنظیم کے اندراختلافات کی وجہ سے یہ معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔
تاہم ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیاپلیٹ فارم پرلکھاہے کہ ہم ان ممالک سے یہ ضمانت چاہیں گے کہ وہ نہ تونئی برکس کرنسی بنائیں گے اور نہ ہی امریکی ڈالرکی جگہ لینے کیلئے کسی دوسری کرنسی کی حمایت کریں گے ورنہ ان کوسوفیصدٹیرف کاسامناکرناہو گااوروہ امریکی معیشت میں تجارت کوخیربادکہنے کی توقع رکھیں اورکسی اورکوڈھونڈسکتے ہیں۔ٹرمپ کے چند حامیوں کامانناہے کہ یہ اعلانات مذاکرات کی حکمت عملی ہیں جن کامقصداعلان سے زیادہ بات چیت کیلئے ماحول پیداکرناہے۔ٹرمپ کے حالیہ اعلان کے بعد رپبلکن سینیٹرٹیڈکروز نے کہاکہ میکسیکواورکینیڈاکے خلاف ٹیرف کی دھمکی نے فوری نتائج دیے تھے۔
آخریہ ٹیرف کیاہوتاہے اوراس دہمکی کے کیااثرات ہوسکتے ہیں؟ٹیرف کسی بھی ملک کاوہ اندرونی ٹیکس ہوتاہے جوملک میں آنے والی مصنوعات پرعائدکیاجاتاہے یعنی امریکامیں اگر50ہزارڈالر قیمت کی گاڑی درآمدکی جاتی ہے جس پر25فیصدٹیرف عائدہے تو 12500ڈالراضافی خرچ ہوگا۔ٹیرف ٹرمپ کی معاشی سوچ کامرکزی حصہ ہیں اوروہ انہیں امریکی معیشت کوترقی دینے،مقامی طور پر نوکریوں کوتحفظ دینے اورٹیکس آمدن بڑھانے کیلئیکارآمدسمجھتے ہیں۔وہ ماضی میں یہ دعوی کرچکے ہیں کہ یہ ٹیکس ایک دوسرے ملک کی جیب پر بھاری پڑیں گے،مقامی سطح پرنہیں۔
تاہم ماہرین معیشت اس دعوے کوگمراہ کن سمجھتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اضافی قیمت اس مقامی کمپنی کواداکرناہوتی ہے جو مصنوعات درآمد کرتی ہے نہ کہ غیرملکی کمپنی کو۔اس اعتبار سے دیکھاجائے تویہ ایک ٹیکس ہے جومقامی کمپنیوں امریکی حکومت کواداکرتی ہیں۔ٹرمپ نے اپنے پہلے دورصدارت میں متعددٹیرف لگائے تھے جنہیں بعدمیں جوبائیڈن انتظامیہ نے بھی برقراررکھاتھا۔تو کیاامریکی ڈالرکامتبادل ممکن ہے؟لیکن اس سے قبل یہ جانتے ہیں کہ ڈالر دنیاکی طاقتورکرنسی کیسے بنا۔دوسری جنگ عظیم اختتام پذیرہورہی تھی کہ اتحادیوں کویہ نظرآناشروع ہواکہ ان کی اپنی معیشت تباہ ہوچکی تھی۔انہوں نے سوچناشروع کیاکہ جب بحالی کاعمل شروع ہوگاتوبین الاقوامی تجارت کس کرنسی میں ہوگی۔اس وقت44ممالک کے نمائندے22دن کیلئیامریکا میں بریٹن وڈزقصبے کے ماوئنٹ واشنگٹن ہوٹل میں اکھٹے ہوئے۔یہاں جنگ کے بعدعالمی میعشت اورتجارت کے مستقبل پرمذاکرات ہوئے۔یورپی ممالک جنگ کے نیتجے میں تباہ حال تھے جبکہ امریکاکے پاس دنیامیں سونے کے سب سے بڑے ذخائرتھے۔
ایڈ کونوے اپنی کتاب”دی سمٹ” میں لکھتے ہیں کہ22دن تک شدیدسیاسی لڑائی اوربحث ہوئی۔اس دوران دوشخصیات میں دوبدولڑائی بھی ہوئی جس میں برطانوی جان کینزایک عالمی کرنسی کاتصورلیے ہوئے تھے جبکہ دوسری جانب امریکی محکمہ خزانہ کے ہیری ڈیکسٹرتھے۔اس کانفرنس کے بعدطے ہواکہ امریکی ڈالربین الاقوامی تجارت کیلئے استعمال کیاجائے گااوراسی ملاقات میں بنائے جانے والے ادارے،آئی ایم ایف اورورلڈبینک،جنگ کے بعدمعاشی مشکل کاسامناکرتے ممالک کوامریکی ڈالرمیں ہی قرض دیں گے۔اب سوال یہ ہے کہ”کیاڈالرکاکوئی متبادل ہے؟”
ذخائررکھنے کیلئے مغربی کرنسیوں کاواحدمتبادل یوآن ہوسکتاہے لیکن اس کیلئے چین کوبہت کچھ بدلناہوگا۔اصلاحات اورشفافیت،بچت کی ترغیبات،سرمائے کی نقل وحرکت کے کنٹرول کے خاتمے کی ضرورت ہے۔لیکویڈیٹی ایک بڑامسئلہ ہے کیونکہ چین اپنی مالیاتی منڈیوں اور سرمائے کی برآمدات دونوں میں غیرملکی سرمایہ کاری پرپابندی لگاتاہے۔ ماہرین کے مطابق اگریہ پابندیاں ہٹادی جاتی ہیں، تونجی سرمایہ ان کے دائرہ اختیار میں جائے گاتاہم ماہرین اقتصادیات تسلیم کرتے ہیں کہ یوآن آہستہ آہستہ ایک ریزروکرنسی بن سکتا ہے۔امریکی اوریورپی ماہرین اقتصادیات نے ایک حالیہ تحقیق کے مطابق چین اپنی کرنسی میں تجارتی تصفیوں کوفعال طورپرفروغ دے رہاہے،اس طرح اس کے تجارتی شراکت داروں کے مرکزی بینکوں میں یوآن جمع ہورہے ہیں۔انہی ماہرین کے مطابق چین کی اپنی کرنسی کوبین الاقوامی بنانے کی کوشش یوآن کے غلبہ کویقینی نہیں بنائے گی،بلکہ ایک کثیر قطبی کرنسی کی دنیاجہاں ڈالر،یورو اوریوآن ایک ساتھ موجود ہوں گے۔یہ ٹھیک ہے مگرایساہوناابھی بہت دورہے۔یوآن میں پیسے رکھنے کے قابل ہوناایک چیزہے،اس کی خواہش کرنادوسری چیز۔دوسری طرف دنیابھرمیں ڈالرکی خرید وفروخت کی صلاحیت لامحدودہے جبکہ یوآن کی تجارت چین سے باہر صرف ہانگ کانگ اورچند درجن چھوٹے مراکز میں ہوتی ہے۔
20ویں صدی کے وسط سے دنیاپرامریکی کرنسی یعنی ڈالرکاغلبہ ہے اورگذشتہ کئی دہائیوں کے دوران متعدد مواقع پراس غلبے کے ٹوٹنے،ختم ہونے یاکمزورپڑنے کی پیش گوئیاں کی جاتی رہی ہیں۔یکم جنوری1999میں یورپی کرنسی یوروکے متعارف ہونے کے بعداور2008میں امریکاسے شروع ہونے والے عالمی مالیاتی بحران کے بعدبھی امریکی ڈالرکے حوالے سے خدشات کااظہارکیاگیا۔ گذشتہ سال روس کے یوکرین پرحملے کے بعدبھی ڈالرکے خاتمے کی بات کی گئی مگریہ کرنسی بدستوربڑی کرنسی کی صورت میں دنیامیں موجودہے۔
مگرآئیے دیکھتے ہیں کہ پچھلی دہائی میں کیاتبدیلیاں آئی ہیں اورڈالرکی تنزلی کے حوالے موجودہ پیشین گوئیاں کیاتوجہ دینے کے قابل ہیں؟ڈالرکے مقابلے میں تین حقائق کاحوالہ دیاگیاہے۔سب سے پہلے،امریکاکے بڑے حریف چین نے اقتصادی اورکاروباری حجم کے لحاظ سے یورپی یونین کوپیچھے چھوڑدیاہے اوراب چین امریکی مارکیٹ پرنظریں رکھے ہوئے ہے۔دوسرا،امریکامیں موجودسیاسی تنازعات امریکاکی انتہائی قابل بھروسہ قرض لینے والے اورقرض دینے والے کے طورپرساکھ کونقصان پہنچاتے ہیں جس کی ایک مثال گذشتہ ماہ ڈیفالٹ کے خطرے کی صورت میں سامنے آئی۔
تیسرا،امریکابہت تیزی سے ان ممالک کوسبق سکھانے کیلئے ڈالرزکااستعمال کررہاہے جواس کے مطابق امریکایااس کے اتحادی ممالک کی سالمیت کیلئے خطرہ ہیں،یعنی سادہ الفاظ میں امریکابراہ راست جنگ میں ملوث ہونے یاکسی ملک پرحملہ کرنے کی بجائے اپنے مقاصدحاصل کرنے کیلئے بے دریغ پیسے کااستعمال کررہاہے مگرڈالرکی ساکھ میں مبینہ کمی کے پیچھے کارفرمایہ تینوں حقائق کچھ اتنے متاثرکن نہیں ہیں۔گزشتہ ماہ امریکاممکنہ ڈیفالٹ سے بچ گیااورایساکرنے سے اس نے ایک بارپھریہ ثابت کردیاکہ وہ دنیاکا بنیادی اورقابل بھروسہ قرض دہندہ ہے۔پھران شکوک کی کیاوجہ ہے کہ ڈالراپنی مقبولیت کھورہاہے؟
ڈالرکے دواہم افعال ہیں جواسے دنیاکی بنیادی کرنسی بناتے ہیں۔سب سے پہلے،ڈالرایک ریزروکرنسی ہے یعنی جس کے پاس اضافی پیسہ ہے وہ اسے ڈالرکی شکل میں محفوظ رکھنے کوترجیح دیتاہے۔دوسرا،ڈالراکانٹ کی کرنسی ہے اورنہ صرف امریکابلکہ بیشتر دنیاکے ممالک اشیا اور خدمات کی ادائیگی ڈالرکے ذریعے کرتے ہیں۔چین،روس،برازیل،انڈیا اور دیگرترقی پذیرمعیشتوں کی روپے اور یوآن کے ذریعے تجارت کرنے کی کوششوں کے باوجودڈالرکی بطورسیٹلمنٹ کرنسی پوزیشن اب بھی مضبوط ہورہی ہے۔اس سے پیشترکہ ان وجوہات پربحث کی جائے،پہلے ڈالرکے اہم کام،یعنی بطورریزروکرنسی استعمال کے بارے میں مزیدجاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
گزشتہ سال کے آخرتک دنیامیں تقریبا12کھرب ڈالرمالیت کے کرنسی ذخائرجمع ہوچکے تھے۔اس ریزروکاتقریبا60فیصدامریکی ڈالر کی شکل میں ہے،لگ بھگ20فیصدیورو ،3 فیصدیوآن جبکہ باقی دوسری کرنسیاں ہیں تاہم،آئی ایم ایف کے تازہ ترین اعدادوشمارکے مطابق ریزروزمیں ڈالرکاحصہ کم ہورہاہے اور1995کے بعداس وقت یہ اپنی کم ترین سطح پرہے۔ڈالرکے ذخائرمیں کمی کی حداور رفتارپرگرماگرم بحث جاری ہے اورماہرین کاکہناہے کہ روس کے خلاف غیرمعمولی مالی پابندیوں کی وجہ سے اس ضمن میں اب حالات بہت زیادہ کشیدہ ہیں۔
مورگن سٹینلے اورآئی ایم ایف میں کام کرنے والے کرنسی ماہرین کے مطابق ڈالرریزروکرنسی کے طورپراپنامقام پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے کھورہاہے۔ان کے اندازے کے مطابق2016سے ڈالرنے ریزرومارکیٹ میں اپناحصہ11فیصدکھودیاہے اوریہ سلسلہ 2008کے بعدسے دگناہواہے۔تاہم بہت سے دوسرے کرنسی ماہرین اس سے اتفاق نہیں کرتے اوردعوی کرتے ہیں کہ روس کے یوکرین پرحملہ کرنے کے بعدسے ریزروکرنسی کی دنیامیں کچھ بھی زیادہ نہیں بدلاہے۔ کونسل آن فارن ریلیشنزمیں کرنسی کے ماہرین اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ان کے مطابق درحقیقت2022سے ڈالرکے ذخائرمیں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔آئی ایم ایف کے اعدادوشمارمیں ڈالرکے بطورریزروکمی کی وضاحت روس کے خلاف پابندیوں کے جواب میں امریکی کرنسی کوترک کرنے سے نہیں بلکہ اس اہم اثاثے کی دوبارہ تشخیص سے ہوئی ہے جس میں جمع شدہ ڈالرکے ذخائرمحفوظ ہیں،یعنی امریکی حکومت کے بانڈز۔ان بانڈزکی قیمت گررہی ہے کیونکہ امریکی قرضے پرشرح سودمیں اضافہ ہواہے۔2022میں،یہ دیگرریزروکرنسیوں کوجاری کرنے والے ممالک کے مقابلے میں تیزی سے ہوا،جس کی وجہ سے ذخائرمیں ڈالرکاحصہ کم ہواہے۔ اگرآپ امریکی حکومت کے بانڈزکی اس صورت حال کوآئی ایم ایف کے اعدادوشمارکوسامنے رکھتے ہوئے دیکھیں توآپ کوڈالرکہیں بھاگتاہوانظرنہیں آئے گا۔علاوہ ازیں2022میں کسی اوربڑی کرنسی کی عالمی سطح پراتنی مانگ نہیں تھی جتنی ڈالرکی تھی۔
مالیاتی نظام کے مرخ نیل فرگوسن کاکہناہے کہ ڈالرکی بالادستی کے خاتمے کے بارے میں نصف صدی سے بھی زیادہ بات کی جا رہی ہے۔اپنے حالیہ دورہ چین کے دوران برازیل کے صدرسے متعددمواقع پریہ سوال پوچھاگیاکہ”ہرکوئی ڈالرمیں تجارت کیوں کرتا ہے،یہ فیصلہ کس نے کیا؟”حقیقت یہ ہے کہ یوروکی گردش کے20سالوں کے دوران،ڈالر نے عالمی ذخائرمیں اپناحصہ صرف10فیصد کھویاہے،یعنی21ویں صدی کے آغازمیں ذخائرمیں اس کاتقریبا70فیصدتھا،اوراب یہ تقریبا60فیصدہے۔اس کاتعلق سٹاک سے ہے، حساب کتاب کی حد تک کچھ نہیں بدلااوراورڈالراب بھی غالب کرنسی ہے۔
بینک فارانٹرنیشنل سیٹلمنٹس کے مطابق پچھلی تین دہائیوں میں ڈالرکاحصہ80فیصدسے90فیصدہوگیاہے۔گزشتہ ایک دہائی میں بھی یہ مقبول رہااور2010میں ڈالرکاتمام بین الاقوامی ادائیگیوں میں85فیصدحصہ تھاجو2022میں بڑھ کر88فیصدہوگیا۔حقیقت یہ ہے کہ ڈالر اکانٹ کی مرکزی کرنسی ہے جس کے باعث اس کی مرکزی ریزروکرنسی کے طورپربھی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے،کیونکہ دنیا سمجھتی ہے کہ اس کرنسی کوبرے دنوں کیلئے بچانااچھاہے۔اس کے علاوہ،ڈالرمیں تمام ادائیگیاں دنیاکے سب سے بڑے امریکی بینکوں کے ذریعے کی جاتی ہیں،اورامریکی حکام اس کرنسی کی نقل وحرکت پرنظررکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگرڈالرکے ختم ہونے کااندیشہ ہے تودنیااب تک ڈالرہی میں کیوں تجارت کررہی ہے؟اسٹیفن لی جین دلیل دیتے ہیں کہ ڈالروقت کے ساتھ تصفیہ کی کرنسی(سیٹلمنٹ کرنسی)کے طورپراپنی جگہ کھو دے گا،تاہم ایسامستقبل قریب کامعاملہ نہیں ہے۔وہ زوردیتے ہیں کہ کیونکہ دنیامیں امریکی مالیاتی منڈیوں کاسائز،استحکام یاکھلے پن کے لحاظ سے کوئی متبادل نہیں ہے اس لیے ڈالرکامقابلہ کرنامشکل ہے۔اس کی واضح مثال تیل ہے۔
انڈیاروسی خام تیل کی ادائیگی روپے میں کرسکتاہے اورچین سعودی عرب کوتیل کے عوض یوآن میں ادائیگی کرسکتاہے،مگراس سب کے باوجود تیل کی عالمی منڈی کی اہم کرنسی اب بھی ڈالرہے کیونکہ چندگنے چنے ممالک کی آپسی براہ راست تجارت کی نسبت تیل کے مالی معاہدوں کاحجم کہیں زیادہ ہے۔ترقی پذیرممالک میں صرف چین ہی دنیاکے مالیاتی مرکز کے طورپرامریکاکوچیلنج کرسکتا ہے لیکن اس کیلئیاسے سامان تجارت کی فراہمی کے مالی معاہدوں کیلئیاپنی کھلی اورلیکویڈمارکیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔یہاں تک کہ اگرسعودی
عرب، دنیاکاسب سے بڑاتیل برآمدکرنے والاملک،اپناساراتیل دنیاکے سب سے بڑے تیل کے خریداریعنی چین کو یوآن میں فروخت کرنے پرراضی ہوجاتاہے،تب بھی عالمی تیل کی منڈی میں شنگھائی انرجی ایکسچینج کاحصہ موجودہ5فیصدسے بڑھ کرصرف سات فیصدہوجائے گا۔اگرایساہے توکیاامریکاڈالرکی وجہ سے خودہی خوفزدہ ہے؟
سابق امریکی وزیرخزانہ لیری سمرزکہتے ہیں کہ یہ یادرکھناضروری ہے کہ ڈالرنے بطورریزروکرنسی پانڈکی جگہ کیسے لی۔ ”تاریخ واضح ہے:ڈالرریزروکرنسی کے طورپراپنی حیثیت کھو سکتاہے لیکن جب ایساہوگاتودنیاکوبہت سے دوسرے سنگین مسائل کا سامناکرناپڑے گا۔ڈالرکااپنی عالمی حیثیت کھودنیاصرف اس صورت میں ممکن ہوگاجب امریکادنیامیں اپنااثرورسوخ کھوبیٹھے گا۔یہ کافی نہیں ہے کہ امریکادنیامیں ڈالرکی بالادستی کی حمایت کرناچاہتاہے یانہیں۔ڈالرایک بین الاقوامی کرنسی کے طورپرزبردست فوائدحاصل کررہاہے، جس کی بڑی وجہ بڑی،لیکویڈاوراچھی طرح سے کام کرنے والی مالیاتی منڈیاں ہیں”۔”اگرامریکانئی غلطیاں کرتارہتاہے اورماضی کاتجزیہ کرناچھوڑدیتاہے تووہ وقت آئے گاجب دنیاڈالرسے دورہوجائے گی۔بہت سے ممالک پہلے ہی اس سے دورہونے کی کوشش کررہے ہیں،اگرچہ وہ ایساکرنے میں کامیاب نہیں ہوپا رہے۔چین یاسعودی عرب جیسے بڑے تجارتی سرپلس والے ممالک کے پاس اپنی بچت محفوظ رکھنے کیلئیاورکچھ نہیں ہے۔کھربوں ڈالرکے اثاثوں کوذخیرہ کرنے کا دنیامیں کوئی آسان اورلیکویڈمتبادل موجودہی نہیں ہے۔بعض معروف ماہرین تویہاں تک دلیل دیتے ہیں کہ ڈالرکی بالادستی خودامریکا کیلئے نقصان دہ ہے کیونکہ دنیاکی اہم ترین ریزروکرنسی کااجراکنندہ ہوناکوئی استحقاق نہیں بلکہ ایک بوجھ ہے۔
ڈالرکے اثاثوں کی مانگ امریکاکوبڑے تجارتی اوربجٹ خسارے کوپوراکرنے کی اجازت دیتی ہے۔بیجنگ میں کارنیگی سینٹرکے امریکی ماہرمعاشیات مائیکل پیٹس کے مطابق”یہ اچھانہیں ہے۔امریکامیں داخل ہونے والے غیرملکی سرمائے سے سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہوتا۔یہ صرف بچت کی شکل میں محفوظ ہوجاتاہے اورملکی قرض میں اضافہ کرتاہے۔مالی منڈیاں صرف ایک حدتک معیشت کی مددکرتی ہیں،جس کے بعدوہ ملک کے بجائے بینکوں کوفائدہ پہنچانے کاباعث بنتی ہیں”۔ان کے مطابق”کمزورہوتاہواڈالر عالمی معیشت کوفائدہ دے گالیکن یہ ان ممالک کیلئے انتہائی تکلیف دہ ہوگاجن کے پاس تجارتی سرپلس ہے”۔اب دیکھنایہ ہے کہ ان حالات میں کیاڈالرکاکوئی متبادل ہے؟
مورخ فرگوسن کااس پربہت اچھاقول جو درحقیقت سابق امریکی وزیرخزانہ لیری سمرزکاتھاجن کے دستخط ڈالرکے نوٹ پرنظرآتے ہیں۔ان کے مطابق”جوکچھ آپ کے پاس ہے اسے آپ اس سے بدل نہیں سکتے جوآپ کے پاس موجودنہیں ہے۔ڈالرکاکوئی متبادل نہیں ہے کیونکہ”یورپ ایک میوزیم ہے،جاپان ایک نرسنگ ہوم ہے،چین ایک جیل ہے اور بٹ کوائن ایک تجربہ ہے”۔ذخائررکھنے کیلئے مغربی کرنسیوں کاواحدمتبادل یوآن ہوسکتاہے لیکن اس کیلئے چین کوبہت کچھ بدلناہوگا۔اصلاحات اورشفافیت،بچت کی ترغیبات،سرمائے کی نقل وحرکت کے کنٹرول کے خاتمے کی ضرورت ہے۔لیکویڈیٹی ایک بڑامسئلہ ہے کیونکہ چین اپنی مالیاتی منڈیوں اورسرمائے کی برآمدات دونوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری پرپابندی لگاتاہے۔اگریہ پابندیاں ہٹادی جاتی ہیں،تونجی سرمایہ ان کے دائرہ اختیارمیں جائے گا۔تاہم ماہرین اقتصادیات تسلیم کرتے ہیں کہ یوآن آہستہ آہستہ ایک ریزروکرنسی بن سکتاہے۔امریکی اور یورپی ماہرین اقتصادیات نے ایک حالیہ تحقیق کے مطابق چین اپنی کرنسی میں تجارتی تصفیوں کوفعال طورپرفروغ دے رہاہے،اس طرح اس کے تجارتی شراکت داروں کے مرکزی بینکوں میں یوآن جمع ہورہے ہیں۔
ماہرین کایہ بھی کہناہے کہ چین اپنی کرنسی کوبین الاقوامی بنانے کی کوشش میں یوآن کے غلبہ کویقینی نہیں بنائے گابلکہ ایک کثیر قطبی کرنسی کی دنیاجہاں ڈالر،یورواوریوآن ایک ساتھ موجود ہوں گے۔یہ ٹھیک ہے مگرایساہوناابھی بہت دورہے۔یوآن میں پیسے رکھنے کے قابل ہوناایک چیزہے،اس کی خواہش کرنادوسری چیز۔دنیابھرمیں ڈالرکی خریدوفروخت کی صلاحیت لامحدودہے،جبکہ یوآن کی تجارت چین سے باہرصرف ہانگ کانگ اورچنددرجن چھوٹے مراکز میں ہوتی ہے۔تاہم ان وجوہات کی بنا پرمرخ فرگوسن کی بات قرین حقیقت ہے کہ ڈالر،یورواوریوآن کے درمیان غلبے کی دوڑکو”کچھوے کی دوڑ”کہہ سکتے ہیں اورامریکاکے حریف ڈالرکامتبادل تلاش کررہے ہیں۔ترقی یافتہ جمہوریتوں اورامریکا کے اتحادیوں کوڈالرسے بالکل کوئی الرجی نہیں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈالرکے زوال کیلئے دنیامیں امن قائم ہونااشدضروری ہے اورامریکی جنگی مافیایہ ہونے نہیں دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔