میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کتابیں اور جوتے

کتابیں اور جوتے

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۷ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

کتاب سے دوستی ایک زندہ شخص سے دوستی کی طرح ہے۔ دنیا کے بڑے مفکرین اور دانش وروں نے کتاب سے اپنا تعلق ایک زندہ شخص کی طرح محسوس کیا اور کرایا۔ قدیم رومی فلسفی سیسرو نے کہا تھا:
”ایک کمرہ بغیر کتاب کے ایسا ہی ہے جیسے ایک جسم بغیر روح کے”۔
عرب مورخ ابن الجوزی نے اپنی حیات کتابوں کے ساتھ بسر کی۔ فرمایا:تمہارے گھر میں ایک ایسی جگہ ہونی چاہئے جہاں تم تنہائی میں اپنی کتابوں کی سطور سے گفتگو کر سکو اور اپنے تخیلات کی پگڈنڈیوں پہ بھاگ سکو”۔
تعصبات ، رجحانات اور میلانات تب بوجھ ہوتے ہیں جب وہ علم سے خالی اور خواہشات سے بھرے ہوں۔ پاکستان ایسے ہی دور سے گزر رہا ہے۔ جہاں چھوٹے لوگوں نے غلط خیالات سے رجحانات پرقبضہ کرنے کی مستقل جنگ شروع کر دی ہے۔ اس جنگ میں فاتح وہ ہوگا جو کتابوں سے تعلق قائم رکھے گا۔ نئے خیالات کے روزن بند نہ ہونے دے گا۔ اپنے احساسات کو تعصبات کے میلی چادر سے لپٹائے نہ رکھے گا۔ افسوس اب خیالات کی جنگ بھی طاقت سے لڑی جا رہی ہے، مگر خیالات کی جنگ میں بہترین ہتھیار تو کتابیں ہیں۔ دنیا نے اس راز کو پا لیا۔ ترقی یافتہ قومیں مستقبل کو صدموں سے دوچار کرنے والے سوشل میڈیا کے جنگل میں کتابوں کے گلستان آباد کر کے بیٹھے ہیں۔ عربی کہاوت ہے: کتاب جیب میں رکھا گلستان ہے”۔ مگر یہ گلستان مسلم اقوام میں نہیں اب مغربی اقوام میں آباد ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی لائبریری امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں سال 1800ء میں قائم ہوئی۔ لائبریری آف کانگریس میں دنیا کی 450 زبانوں میں 16 کروڑ 40 لاکھ سے زائد کتابیں موجود ہیں۔ یہاں سالانہ 18 لاکھ سے زائد تشنگان علم اپنی پیاس بجھاتے ہیں، تحقیق کے جویا سر کھپاتے ہیں۔ یہی لوگ آئندہ زندگی میں دنیا کے چمکتے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ لندن میں دوسری بڑی دی برٹش لائبریری ہے جہاں 15 کروڑ سے زائد کتب ہیں۔ تیسری لائبریری کا اعزاز بھی امریکا کے پاس ہے، جو نیویارک میں قائم ہے اور جہاں ساڑھے پانچ کروڑ سے زائد کتب ہیں۔
کبھی مسلمان کتابوں کی فضیلت جانتے تھے۔ علم کے جویا تھے۔ اور اپنا ایک ”ورلڈ ویو” رکھتے تھے۔ تب مغرب اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ آج یہ ایک خواب لگتا ہے کہ واشنگٹن میں قائم لائبریری سے پانچ صدیاں پہلے ہم علم کا ایسا ہی ذخیرہ رکھتے تھے۔ یاد کیجیے! دنیا کو پہلی لائبریری ہم نے دی تھی۔ خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں بغداد میں بیت الحکمت کے نام سے ایک ادارہ قائم ہوا۔ اس ادارے کی عظیم الشان لائبریری کے متعلق تفصیلات جانتے ہیں تو رشک آتا ہے۔ پانچ صدیاں قبل یہ ایک ایسی لائبریری تھی کہ جو آج لندن کی برٹش لائبریری اور پیرس کی ببلیوتھک نیشنل لائبریری سے موازنہ کیے جانے کے قابل تھی۔ علم وفضل کے ایسے سوتے یہاں سے پھوٹے ہیں کہ لگتا ہے کہ جیسے ایک خیالی لائبریری ہو۔ خلیفہ ہارون الرشید عباسی کی ذاتی لائبریری کے طور پر یہ آٹھویں صدی میں قائم کی گئی مگر30 برس بعد اسے ایک عوامی مطالعہ گاہ میں بدل دیا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں رفتہ رفتہ یہ ایک ادارے میں ڈھلتے ہوئے علم وتحقیق کا مرکز بن گئی۔ یہیں سے ریاضی کے انقلابی تصورات نے جنم لیا جن میں زیرو یا صفر کا ہندسہ اور ہمارے جدید دور کے ”عربی” اعداد جیسی دریافتیں بھی شامل ہیں۔ مختلف سائنسی شعبوں اور سماجی علوم کے متنوع شاخوں کے بیج اسی ادارے کی زرخیز زمین میں بوئے گئے۔ فلکیات،ارضیات،ریاضی، طب، کیمیا، ، فلسفہ، ادب اور آرٹس کے علاوہ علم نجوم کے مضامین بھی یہاں موجود تھے۔ یہاں فلسفی، سائنس دان، ریاضی دان، علمائے دین اورمحقق مطالعہ و تحقیق میں مصروف رہتے تھے۔ دنیا میں تب کوئی ہمارا ہم سر نہ تھا۔ پھر منگولوں کا طوفان اُٹھا، حکومت کو نگرانی کے نظام میں نہ رکھنے اور دفاعی معاملات میں عوامی بے پروائی نے منگولوں کے سامنے مسلمانوں کی قوت دفاع کو مضمحل کر دیا تھا۔ منگول مسلمانوں کی قوت کا راز جانتے تھے۔ اُن وحشیوں کو بھی معلوم تھا کہ مسلمانوں کے اندر ہلچل پیدا کرنے والے خیالات کا مرکز کہاں ہے؟ چنانچہ ہلاکو خان کے دور میں منگولوں نے بیت الحکمت کو 1258ء میں تباہ کر دیا۔ تب اس عوامی مطالعہ گاہ اور مرکزِ  تحقیق میں عربی، فارسی، قبطی، سُریانی اور سنسکرت زبانوں میں دس لاکھ سے زائد کتابیں تھیں۔ منگول وحشیوں نے کتابوں اور قلمی نسخوں کو دریائے دجلہ میں اس طرح پھینکا کہ دریا کا پانی سیاہ ہو گیا۔ اب اُس ادارے کا کوئی نام و نشان بھی باقی نہیں، جہاں سے بابائے الجبرا الخوارزمی اُٹھا تھا اور جہاں سے سائنسی نظریات کی ابتدائی سویر نے یورپ کو اندھیروں سے نکالنے میں مدد دی تھی۔ آج کی جدید دنیا کی بنیاد بھی اُسی دور کے انقلابی سائنسی تصورات میں پیوست ہیں۔ بیت الحکمت کا اب کوئی نام ونشان باقی نہیں رہ گیا۔ افسوس اب کچھ ہمارے ہاتھ میں نہیں رہا۔ کتاب کا لمس بھی نہیں۔ علامہ اقبال نے اس کا مرثیہ لکھ دیا تھا۔ نوجوانانِ اسلام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
مطالعہ ہی زندگی کو ایک بامعنی سمت دیتا ہے، انسانی جستجو کو گرم دم رکھتا ہے۔ تحقیق کے نئے زاویوں پر ذہن کو کھوجی بناتا ہے۔ انسان کو شرف دینے والے کلام کے حرفوں سے متعلق رکھتا ہے۔ یہ پورا عمل کم وبیش انسان کو خود سے شناسا کرنے والے عمل کا پورا دائرہ ہے۔ جس کی بنیاد کتاب سے تعلق میں پڑتی ہے۔ کتاب کسی بھی انسان کے لیے ایک جیسی نہیں ہوتی۔ کتاب، سمندر کے منظر کی طرح ہے جو کبھی ایک سا نہیں ہوتا۔ ہر دیکھنے والی آنکھ اس منظر کو دوسرا دیکھتی ہے۔ روس کا انقلابی شاعر میکسم گورکی ہی سمجھ سکتا تھا۔ اُس نے کہا: اس دنیا میں کوئی دو اشخاص ایک کتاب کو ایک ہی طرح نہیں پڑھتے”۔  شاہراہِ علم پر ذہن کی ترقی اسی کتاب کی بدولت ہے۔ اسی لیے دنیا بھر کے مفکرین کتاب سے اپنے تعلق کو زندہ انسانوں سے تعلق کی مانند محسوس کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی ہر شے کو کتاب سے کم قیمت سمجھا ہے۔ مگر ہم ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں جوتے، کتابوں سے زیادہ قیمتی ہیں اسی لیے بہ حیثیت قوم ہم سب سے جوتے کھا رہے ہیں۔ دنیا میں کوئی گھر ایسا نہیں ہوتا جہاں کتاب رکھنے کی گنجائش نہ ہو۔ یہ گنجائش اگر پیدا کرلی جائے تو پھر ترقی کی دنیا میں ہماری گنجائش بھی پیدا ہو جائے گی۔ یہی نہیں ہم پر یہ شودے لوگ حکمران بھی نہ رہ پائیں گے۔ ہم فضول تصورات، تعصبات اور قوت کے ناقص نمونوں سمیت اُن اداروں سے بھی اپنا دامن چھڑا پائیں گے، جنہوں نے ہماری تمیزِ  حق و باطل کو اپنی قوت سے اس طرح یرغمال بنا لیا ہے کہ ہم بھی اُن کی طرح ہی سوچنے، بولنے لگے ہیں۔ کراچی میں کتاب میلہ جاری ہے۔ کتاب سے اپنے تعلق کو زندہ کرنے کے لیے اور زندگی کو زندگی بخش تصورات سے آشنا کرنے کے لیے اس گہوارہ علم و دانش کا رخ کریں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں