میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سنگین غداری کیس ،آئین شکنی کا جرم ثابت ،پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم

سنگین غداری کیس ،آئین شکنی کا جرم ثابت ،پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم

ویب ڈیسک
منگل, ۱۷ دسمبر ۲۰۱۹

شیئر کریں

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے آئین شکنی کا جرم ثابت ہونے پر انہیں سزائے موت کا حکم سنایا ہے ۔خصوصی عدالت نے اپنے مختصرفیصلے میں سابق صدر پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا۔ جنرل پرویز مشرف پر آرٹیکل 6 کا جرم ثابت ہوتا ہے ، تین رکنی خصوصی عدالت نے مختصر فیصلہ سنایا ہے جبکہ تفصیلی فیصلہ 48 گھنٹے میں سنایا جائے گا۔تین رکنی بینچ میں سے دو ججز نے سزائے موت کے فیصلے کی حمایت کی جبکہ ایک جج نے اس سے اختلاف کیا۔ منگل کوپشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں جسٹس شاہد فضل کریم اور جسٹس نذر اکبر پر مشتمل تین رکنی خصوصی عدالت نے کیس کا ٹرائل مکمل ہونے پر فیصلہ سنایا۔ تین میں سے دو ججز نے سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کو سزائے موت کا مستوجب قرار دیا ہے ۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ پرویز مشرف نے تین نومبر 2007کو آئین پا مال کیا ۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ جنرل مشرف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت سنگین غداری کے مرتکب ہوئے اور ہم انہیں سزائے موت کا حکم سناتے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ہم نے تین ماہ سے شکایات کا جائزہ لیا اور اس کے علاوہ جو ریکارڈ تھا اور جو دلائل تھا ان تمام کا جائزہ لیا اور ہم اس شکائت کو منظور کرتے ہیں ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ جنرل (ر)پرویز مشرف نے آئین توڑا اور وہ آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت سزا کے مستوجب ہیں اور ان کے اوپر استغاثہ ثابت ہوتا ہے اور ان کو سزائے موت سنائی جاتی ہے ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ تین میں دو ججز نے اکثریتی فیصلہ سنایا ہے ۔ عدالت نے پرویز مشرف کو تین نومبر 2007 کو ملک کا آئین معطل کرنے پر سنگین سے غداری کا آرٹیکل چھ کے تحت مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں سزائے موت دی ہے ۔ ایک جج کی جانب سے فیصلہ سے اختلاف کیا ہے ۔ فیصلہ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کی جانب سے سنایا گیا ہے ۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ پرویز مشرف نے تین نومبر 2007کو آئین پامال کیا۔ سماعت کے آغاز پر پراسیکیوٹر علی ضیا باجوہ عدالت میں پیش ہوئے اور حکومت کی طرف سے مشرف کیخلاف فرد جرم میں ترمیم کی درخواست دائر کی۔ استغاثہ نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز کو بھی شریک ملزم بنایا جائے ۔حکومتی وکیل نے موقف اپنایا کہ مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں، تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے ۔عدالت نے دورانِ سماعت استغاثہ کی شریک ملزمان کے نام کیس میں شامل کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔عدالت نے قرار دیا کہ مشرف کی شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی، ترمیم شدہ چارج شیٹ دینے کیلئے دو ہفتے کی مہلت دی گئی تھی۔جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دئیے کہ تین افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کور کمانڈوز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی۔ عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی نئی درخواست نہیں آ سکتی۔خصوصی عدالت نے ریمارکس دئیے کہ جو درخواست باضابطہ دائر ہی نہیں ہوئی اس پر دلائل نہیں سنیں گے ، استغاثہ کو یہ بھی علم نہیں کہ عدالت میں درخواست کیسے دائر کی جاتی ہے ۔جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دئیے کہ آج مقدمہ حتمی دلائل کیلئے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آ گئیں، کیا حکومت مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے ؟ ساڑھے تین سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں۔خصوصی عدالت کے جج نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ جنہیں ملزم بنانا چاہتے ہیں انکے خلاف کیا شواہد ہیں؟ تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ اب گزر چکا ہے ۔خصوصی بینچ کے رکن نے حکومتی وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے مزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کر دیں، ہم آپ کی درخواست مسترد کر رہے ہیں۔جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ آپ حتمی دلائل نہیں دے سکتے تو روسٹرم سے ہٹ جائیں۔ خصوصی عدالت کے ججز نے کہا کہ یہ عدالت صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابند ہے ، ہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پابند نہیں ہیں۔مشر ف کے وکیل رضا بشیر نے دلائل میں کہا کہ دفعہ 342کا بیان ریکارڈ کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی ہے ، پرویز مشرف کو فیئر ٹرائل کا حق ملنا ضروری ہے ۔جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ پرویز مشرف چھ مرتبہ 342کا بیان ریکارڈ کرانے کا موقع ضائع کر چکے ، اس لیے سپریم کورٹ 342کے بیان کا حق ختم کر چکی ہے ، کیس میں استغاثہ اور مشرف کے وکیل دونوں ہی ملزم کا دفاع کر رہے ہیں۔عدالت نے آئین سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ملزم پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی ۔عدالت کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف پر آرٹیکل 6 کا جرم ثابت ہوتا ہے ، تفصیلی فیصلہ 48 گھنٹے میں سنایا جائے گا۔واضح رہے کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ نومبر 2013 میں سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے درج کیا تھا۔بطور آرمی چیف 3نومبر 2007 کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر پرویز مشرف کے خلاف یہ مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں اب تک 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں جب کہ اس دوران 4 ججز تبدیل ہوئے ، عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو حاضر ہونے وا حکم دیا اور وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے ۔خصوصی عدالت نے مارچ 2014 میں پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد کی تھی جبکہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے اس کیس میں ثبوت فراہم کیے گئے ، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کر سکی۔جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل)سے نام نکالے جانے کے بعد بیرونِ ملک چلے گئے تھے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں