میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
6 ماہ میں قانون سازی نہ ہوسکی تو آرمی چیف ریٹائرڈ تصور ہوں گے، سپریم کورٹ

6 ماہ میں قانون سازی نہ ہوسکی تو آرمی چیف ریٹائرڈ تصور ہوں گے، سپریم کورٹ

ویب ڈیسک
منگل, ۱۷ دسمبر ۲۰۱۹

شیئر کریں

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت سے متعلق کیس میں اپنے تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمان آرمی چیف کے عہدے کی مدت کا تعین کرے ۔ 6 ماہ میں متعلقہ قانون سازی نہ ہوسکی تو موجودہ آرمی چیف ریٹائر تصور ہوں گے ۔عدالت عظمی نے پیر کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا 43 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، جسے جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے اور اس میں چیف جسٹس پاکستان کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے ۔عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ہماری حکومت قانون کی ہے یا افراد کی، ہمارے سامنے مقدمہ تھا کہ کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاسکتی ہے ، کیس کا بنیادی سوال قانون کی بالادستی کا تھا عدالتِ عظمی نے فیصلے میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ متعد دفیصلوں میں کہہ چکی ہے کہ قانونی سازی کرنا پارلیمنٹ کااختیار ہے ، کیس کی سماعت کے دوران ہم نے آئین کے آرٹیکل 243 اور آرمی رولز کاجائزہ لیا لیکن پاکستان آرمی ایکٹ کے اندر آرمی جنرل کی مدت اور توسیع کا کوئی ذکر نہیں جب کہ آرٹیکل 243 کے تحت چیف آف آرمی سٹاف کی تنخواہ اور دیگر مراعات کا تعین صدر مملکت کرتے ہیں۔فیصلے کے مطابق قانون میں جنرل کی ریٹائرمنٹ اورعہدے کی معیاد کا ذکر نہیں جب کہ جنرل کے عہدے میں توسیع کی تسلسل سے روایات بھی نہیں ہیں، اداراتی روایات کے مطابق جنرل 3 سال کی میعاد پوری ہونے پر ریٹائرہو جاتا ہے ، اداراتی روایات قوانین کا متبادل نہیں ہو سکتیں ۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اب معاملہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کی طرف ہے ، پارلیمان آرمی چیف کے عہدے کی مدت کا تعین کرے ، منتخب نمائند ے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی کریں، کیس کا بنیادی سوال قانون کی بالادستی کا تھا، یہ معاملہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کی طرف ہے ، ارکان پارلیمنٹ نیا قانون بنائیں جس سے ہمیشہ کیلئے آرمی چیف کی پیش گوئی ممکن ہو سکے اور یہ یاد رکھیں کہ ادارے مضبوط ہوں گے تو قوم ترقی کرے گی، اداروں کی مضبوطی میں ہی قوم کا مفاد ہے ، پارلیمنٹ کی جانب سے قانون سازی نہ ہونے کے نتیجے میں جنرل کے عہدہ کی 3 سال کی روایت لاگو ہوگی۔فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے یقین دلایا کہ آرمی چیف کے تقرر کے عمل کو قانونی شکل دی جائے گی اور وفاقی حکومت نے آرمی چیف کی تقرری کی قانون سازی کے لئے 6 ماہ مانگے ہیں، وفاقی حکومت آرمی چیف کی سروس سے متعلق قواعد و ضوابط طے کرے ۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں یہ بھی حکم دیا ہے کہ وفاقی حکومت ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت آرٹیکل 243 کے دائرہ کار کا تعین کرے ، جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف نئی تقرری 6 ماہ کے لئے ہوگی اور ان کی موجودہ تقرری بھی مجوزہ قانون سازی سے مشروط ہوگی، جب کہ نئی قانون سازی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت کا تعین کرے گی۔، اگر اس مدت میں قانون سازی نہ ہوسکی تو آرمی چیف ریٹائرڈ تصور ہوں گے اور صدر مملک وزیراعظم کے مشورے پر نئے آرمی چیف کا تقرر کریں گے ۔ ۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ آج سے 6 ماہ تک اپنے عہدے پر برقرار رہیںگے تاہم رواں تقرری پارلیمنٹ کی قانون سازی کے تحت ہوگی۔ اس قانون ساز ی ذریعے ان کی سروس کی مدت اور شرائط و ضوابط طے ہوں گے ۔ اس حکم کے ساتھ درخواست نمٹائی جاتی ہے ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میںواضح طورپر لکھا ہے کہ قانون کے مطابق ریٹائر شخص چیف آف آرمی سٹاف نہیں ہوسکتا ۔ ایک حاضر سروس جنرل ہی آرمی چیف کا عہدہ سنبھال سکتا ہے ۔ ادارہ جاتی پریکٹس کے تحت ایک جنرل تین سال کی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرڈ ہوتا ہے ادارہ جاتی پریکٹس قانون کا موثر متبادل نہیں ہوسکتا ہے ۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلے کے آخر میں اضافی نوٹ میں 1616 میں چیف جسٹس آف انگلینڈ کے فیصلے کا ریفرنس دیتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کی ملازمت کے قواعد بنانے سے بہت سی تاریخی غلطیوں کو درست کیا جاسکتا ہے ، قواعد بنانے سے عوام کے منتخب نمائندوں کا اقتدار اعلی مضبوط ہوگا۔چیف جسٹس نے اضافے نوٹ میں کہا ہے کہ آپ جس قدر بھی طاقت ور کیوں نہ ہوں قانون آپ سے بالاتر ہے ، آرمی چیف کے آئینی عہدے کی مدت کوغیر ریگولیٹڈ نہیں چھوڑا جا سکتا۔اپنے اضافی نوٹ میں چیف جسٹس نے لکھا کہ وہ ساتھی جج سید منصور علی شاہ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں، مخصوص تاریخ کے تناظرمیں آرمی چیف کاعہدہ کسی بھی عہدے سے زیادہ طاقتور ہے ، آرمی چیف کا عہدہ لامحدود اختیار اورحیثیت کا حامل ہوتا ہے ۔اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ غیرمتعین صوابدید خطرناک ہوتی ہے ، آرمی چیف کے عہدے میں توسیع، دوبارہ تقرری کی شرائط و ضوابط کا کسی قانون میں ذکرنہ ہونا تعجب انگیز تھا۔چیف جسٹس نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ آئین کے تحت صدر کے مسلح افواج سے متعلق اختیارات قانون سے مشروط ہیں۔ آرمی چیف کے عہدے کا اہم پہلو کسی قانون کے دائرے میں نا آنا آئین کی بنیادی روح کے منافی ہے ، پارلیمنٹ کی آرمی چیف کے عہدے سے متعلق قانون سازی غلطیوں کی تصحیح میں مددگار ہو گی۔معاملہ قانون سازوں کے بنائے گئے قانون کے تحت ریگولیٹ کیا جانا چاہیے ،یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 28 نومبر کو آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے مختصر فیصلہ 28 نومبر کو سنایا تھا جس میں حکومت کو 6 ماہ تک آرمی چیف کی مدت سے متعلق قانونی سازی کرنے کا حکم دیا تھا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں