دیانت داری پر شک نہ کیا جائے، عدلیہ پر دبائو ڈالنے ابھی پیدا نہیںہوا
شیئر کریں
لاہور(بیورو رپورٹ)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثارنے کہا ہے کہ ہم پوری ذمہ داری،امانت، دیانت اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں،عدلیہ پر کوئی دبا ئوہے اور نہ کوئی ایسا پیدا ہوا جو ہمیں دبا ئومیں لائے،عدلیہ آپ کا بابا ہے اس کی دیانتداری پر شک مت کیجیے،آپ کے خلاف فیصلہ آ جائے تو اسے گالیاں مت دیں،یہ بابا کسی ڈیزائن، پلان یا بڑے عمل کا حصہ بن چکا ہے اور نہ بنے گا،پہلے کہا جاتا تھا کہ آزاد عدلیہ پر قدغن اور آزادی باہر سے ہوتی ہے، لیکن ہم نے اسے اندر سے آزادی دی ہے،عدلیہ آزاد ہے ہر جج آزاد ہے اگر عدلیہ میں کسی کا کردار ہوتا تو حدیبیہ کا فیصلہ اس طرح سے نہ آتا جس طرح اب آیا ہے یہ عدلیہ کا اپنا فیصلہ ہے،ہمارے نظام میں تاخیر سب سے بڑی خرابی ہے ٗوہ سائل جو حق پرہے جسے ہر پیشی پر جانا ہے وہ دن اس کے خاندان کیلئے موت کا دن ہوتا ہے، اٹھارویں آئینی ترامیم کے حوالے سے کیس میں میری ججمنٹ کو پڑھیں ہم نے پارلیمنٹ کی سپر میسی اور حدود قیو دکو تسلیم کیا ہے، رول آف لاء، جوڈیشل سسٹم،سٹیٹ،سٹرکچر یہ سب جمہوریت سے جڑے ہوئے ہیں، اگر ملک میں جمہوریت نہیں ہے تو پھر اللہ نہ کرے آئین نہیں ہے،میں نے اور میرے ساتھیوں نے آئین کے تحفظ کی قسم کھائی ہے کیونکہ میں اپنے بچے کو یہ شر مندگی اٹھانے کیلئے نہیں چھوڑ کر جا سکتا کہ ہم نے جمہوریت کا تحفظ نہیں کیا تھا۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے ہفتہ کو پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام ’’ حصول انصاف، درپیش مسائل اوران کا حل ‘‘ کے موضوع پر سیمینارز سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس شہزاد احمد خان ٗ جسٹس محمد امیر بھٹی، جسٹس اسجد جاوید گورال، جسٹس مستقیم، سیشن جج عابد حسین قریشی، صدر سپریم کورٹ بار پیر کلیم خورشید،وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل عنایت اللہ اعوان، ممبر پنجاب بار اعظم نذیر تارڑ سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ایک لیڈی سول جج کے ساتھ انتہا کی بد تمیزی کی گئی۔ چیمبر میں جا کر ججز کو گالیاں دینا کون سا شیوہ ہے،یہ کون سی پڑھی لکھی قوم کرتی ہے۔ا نہوںنے کہا کہ بارز اور عدلیہ دونوں کو ظرف اور تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا میں عدلیہ یا بارز کے نمائندے کی حیثیت سے بات نہیں کر رہا بلکہ دونوں کا بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے بات کر رہا ہوں۔ کوتاہیاں اس طرف سے ہیں یا کوتاہیاں اس طرف سے ہیں میں دونوں کا ذمہ دار ہوں میں ہر خرابی او ربرائی کو آپ کے سامنے قبول کرتا ہوں۔ میری ذمہ داری ہے کہ مجھے اسے ٹھیک کرنا ہے۔ میں میں اکیلا اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا مجھے اس کے لئے تمام لوگوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ انہوںنے کہا کہ تاخیر اس نظام کی سب سے بڑی خرابی ہے۔ ایک وہ سائل جو حق پر ہے جب وہ ہر پیشی پر جاتا ہے تو وہ دن اس کے گھر والوں کے لئے موت کا دن ہوتا ہے لیکن وہ کبھی جج کی مصروفیت کبھی وکیل کی ہڑتال کی وجہ سے مایوس واپس لوٹ آتاہے۔ پاکستان کرکٹ میچ جیت گیا توہڑتال ہو گئی۔ دونوں کو مل کر اس غریب کو سستا انصاف جو کورٹ فیس کی وجہ سے مہنگا ہو گیا ہے دینا ہے۔آج وکلاء یہاں اعلان کریں اور اپنے کلائنٹس کے لیے فیسیں آدھی کرکے لوٹ سیل لگادیں۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ میں تو نواز شریف، عمران خان اور جہانگیر ترین کیسز میں پھنس گیا اوراے ڈی آر سسٹم پر کام نہ کر سکنے کی وجہ سے ہر دن اپنے لئے شرمندگی محسوس کی،لاء اینڈ جسٹس کمیشن کوآزاد کیا جائے اور اس کیلئے میں اپنی پاورسرنڈرکرنے کو تیار ہوں،یہ ان لوگوں کو دیاجائے جو اسے فل ٹائم دے سکیں،عدلیہ کے کندھوں پر پہلے ہی بہت زیاد ہ بوجھ ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ ادا رہ اللہ نہ کرے کولیپس ہو جائے گا لیکن ہمارے ہوتے ایسا نہیں ہوگا میں مایوس ہوں اور نہ آپ کو مایوس ہونے دوں گا،اگر کسی وجہ سے مقننہ قوانین میں اصلاحات نہیں کر پا رہی تو اس کے اوربہت سارے راستے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں اے ڈی آر سسٹم کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ، ماتحت عدلیہ کے ججز صاحبان اوربار زکے عہدیداران بھی موجود تھے ۔