زخمی دسمبر
شیئر کریں
حافظ ابتسام الحسن
پچھلے کچھ عرصہ سے امت مسلمہ پر آئے دن کوئی نہ کوئی نیا عتاب لازمی ٹوٹا ہوتا ہے اورکوئی نہ کوئی مصیبت لازمی وارد ہوئی ہوتی ہے ۔اور ہر نئی آنے والی مصیبت پچھلی سے کئی بڑی ہوتی ہے ۔جس سے امت کے دل چھلنی اور زخم ہرے ہو جاتے ہیں اور ان زخموں کا بہتا ہوا رس درد میں مزید اضافہ کرتا رہتا ہے ۔بسا اوقات زخم کے ٹھیک ہونے کے بعد اس زخم کی جگہ پر دوبارہ کوئی ضرب لگے تو وہ زخم کریدا جاتا ہے یا ا س کا درد تازہ ہوجاتا ہے ۔مگر امت مسلمہ یعنی ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہے ۔ہم اتنے زخم کھا چکے ہیں کہ اب مزید کریدنے یا تازہ ہونے کی جگہ ہی باقی نہیں بچی ہے ۔کیونکہ ایک کے بعد دوسرا اور اس سے بڑا زخم ہمیں لگنے کے لیے تیار رہتا ہے ۔گویا امت مسلمہ اب مجسمہ زخم بن چکی ہے ۔جدھر چھیڑیںگے ٹیسیں اٹھیں گیں ،جہاں ہاتھ لگائیں گے بلبلانا ہی بلبلانا ملے گا ،اب تو زخم کی شدت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ آنکھیں درد کے باعث آنسو بہانے سے انکاری ہیں ،اگر آنسو بہے تو زخمی رخسار آنسوئوں کی چبھن برداشت نہیں کر سکیں گے ،کانوں کے متعلق تو یہ کہہ دیا جا چکا ہے کہ اب یہ مزید کوئی غمگین بات سننے کے متحمل نہیں رہے ،دل کی دھڑکن نے صرف خوشی کی خبر کے ساتھ کے چلنے کا مژدہ سنایا ہے ،چونکہ عرصہ سے امت کے لیے خوشی کی خبر ناپید ہے اس لیے دل کی دھڑکنوں کی طرف سے کوڑا جواب ہے ۔ہاتھوں اور پائوں کی تو پوچھیے مت ،یوں لگتا ہے ان کا وجود حرکت کرنے کے لیے بنایا ہی نہیں گیا ۔اب اس زخم خوردہ جسم کی حالت یہ ہو چکی ہے ۔بقول شاعر !
نمک ہاتھ میں لے کر ستم گر ،سوچتے کیا ہو
ہزاروں زخم ہیں جسم پر جہاں مرضی چھڑک ڈالو
امت مسلمہ کا فقط بدن زخمی نہیں ہے بلکہ ماہ وسال ، ہفتے اور دن بھی زخموں سے چور ہیں ۔سال الگ کراہتے ہیں،مہینے الگ روتے ہیں ،ہفتے الگ بلبلاتے ہیں اور دنوں کو شاید زخم کھا کھا کر ہنسنے کی عادت ہوچکی ہے ۔
آپ صرف پاکستان کو دسمبر میں لگنے والے زخموں کو شمار کریں تو پورے سال کو غمگین کرنے کے لیے اکیلا دسمبر ہی کافی ہے ۔مشرقی پاکستان کا سانحہ جو ہر سال سولہ دسمبر کو ہمیں ڈسنے آتا تھا اور اس زور سے ڈستا تھا کہ ہر غم اس کے سامنے پھیکا لگتا تھا۔اس سانحہ کو دو بھائیوں کی المناک جدائی کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے ۔مگر میرے نزدیک یہ اس سے کئی بڑھ کر ہے کیونکہ یہ دو بھائیوں کی جدائی ہی نہیں بلکہ اس میں کئی بہنیں بھی بچھڑی ہیں ،کئی خاندان ادھڑے ہیں ، کئی نسلوں کی آپسی جدائی ہوئی ہے ، کئی محبتوں کا خون ہوا ہے ، کئی قربانیاں بے ثمر ہوئی ہیں ،سب سے بڑھ کر اتحاد ، اپنائیت اور برسوں کی تاریخی ملنسازی ٹوٹی ہے ۔ مگر برا ہو اس موئے غم کا ۔اتنا ستا کر بھی اس کا پیٹ نہیں بھرا تھا وہ ہمیں اپنے آپ سے مزید متعارف کروانا چاہتا تھااس لیے تو اس نے دسمبر کے مہینے میں اسی تاریخ کو چنا اور ایسا گہرا وار کیا کہ دسمبر ،سولہ دسمبر ،بچے ،ان کی مائیں ،ان کے باپ ،حکومت ،فوج ،عدلیہ ،عوام سب مجروح ہو کر رہ گئے ۔اب پشاور کا وہ دلدوز واقعہ تاریخ کبھی نہیں بھلا سکے گی،ہم بھی نہیں بھلا سکیں گے ، ہم کیا ہماری آنے والی نسلیں بھی اس کو نہیں بھلا سکیں گی ۔میں ان مائوں کے درد میں شریک ہونا چاہتا تھا جن کے جگر کے ٹکڑے ،لال پیارے ،دسمبر کی ٹھنڈ میں ہمیشہ کے لیے ٹھنڈے ہوگئے اور ان کی مائیں اس غم کی وجہ سے ٹھنڈی ہونے کی منتظر ہیں ۔پر لاکھ کوششوں کے باوجود میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جسم بھلے ہی زخموں کو بھر چکا ہو مگر روح کے زخموں کی گہرائی کی کوئی حد نہیں ہے اور کوئی اس میں کتنا ہی گہرا کیوں نہ اترے وہ انتہائوں کو نہ چھو سکے گا ۔ چنا نچہ اب سولہ دسمبر کو ہم متزلزل ہوتے ہیںکہ سانحہ مشرقی پاکستان کا درد لکھیں ،سنیں ،بیان کریں یا اپنے بچوں کے چہروں کو بھلانے کی کوشش کریں ،مسلی ہوئی کلیوں اور ادھ کھلے پھولوں پردیے ہوئے سفید کفن کو یادوں سے اوجھل کریں ،ان ستاروں کا غم کیسے بھلائیں جو ابتدائی رات میں ہی غروب ہو گئے ۔دونوں غموں میں کیسے موازنہ کریں ۔
دسمبر کے مہینے میں ایک غم ایسا بھی ہے جو باقی غموں کی طرح جتنا دلدوز ہے اتنا خاموش بھی ہے اوروہ ہے ہماری جان سے پیاری بابری مسجد کا غم ۔6دسمبر1992 کوہندوئوں نے بابری مسجد کو بے رحمی سے شہید کیا تھا اور اب وہ وہاں رام مندر بنانے کا نہ صرف منصوبہ رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے اس کی تیاریاں بھی مکمل کر لی ہیں ۔اسی مقصد کے لیے انہوں نے کٹر ہندو یوگی ناتھ ادتیا کو اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ بنایا ہے تاکہ وہ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے ۔راقم الحروف چھ دسمبر کو بابری مسجد کے متعلق پڑھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اللہ تو کب مسلمانوں کو بابری مسجد دوبارہ تعمیر کرنے کی توفیق دے گا اور کیا مسلمان اب بھی بابری مسجد کو یادکرتے ہیں۔ تو ایک دل دہلا دینے والی خبر پڑھنے کو ملی کہ ہو سکتا ہے امریکی صدر بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلے اور اپنا سفارت خانہ بھی وہا ں منتقل کردے ۔مگر میں نے اس خبر کو سنجیدہ نہ لیا کیونکہ میں یہ سوچتا تھا کہ ستاون مسلم ممالک کے ہوتے ہوئے امریکاایسی حرکت بالکل نہیں کرے گا ۔بالخصوص جب اسے اس چیز کا اچھی طرح ادراک ہو کہ مسلمان قبلہ اول کو اپنی جان و مال سے زیادہ عزیز سمجھتے ہیں اور اس کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ۔مگر سات دسمبر کو اخبارات کی بڑی سرخی یہی تھی کہ امریکی صدر نے وہ اعلان کردیا ہے جسے میں کل تک نا ممکن سمجھ رہا تھا ۔ساتھ ہی میرے غم کے بوجھ نے مجھے نیچے گرادیا ،میں سچ میں کھڑا نہیں ہو پایا ۔کیا واقعی ایسا ہوگیا تھا ،کیا واقعی ہمارے بیت المقدس کویہودیوں کو سونپنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں ،کیا واقعی ۔۔۔دل بیٹھ گیا ،آنکھیں نم ہو گئیں اور سوال گلے میں ہی اٹک گئے ۔پھر ساری امت کو اس غم میں گھلتے دیکھا ،بعضوں کو دھاڑیں مارتے ہوئے بھی دیکھا ۔مگر غم تو آچکا تھا اور زخم لگ چکا تھا ۔دسمبر کے باقی غموں کی طرح ایک بڑا غم ۔جس نے ایک مرتبہ پھر ہماری ساری خوشیوں کو اٹھا کر کوڑا دان میں ایسے پھینک دیا گویا کبھی ان سے ہمارا واسطہ تھاہی نہیں ۔
جب میں یہ سطور لکھ رہا تھا تب یہ خبر ملی کہ آرمی کے دوجوان دین اور وطن کی آن پر مر مٹے ہیں،ان میں سے ایک سپاہی تھا ،اور دوسرے نے ابھی تک زندگی کی صرف اکیس بہاریں دیکھی تھیں ۔تصویر دیکھی تو یقین نہیں آیا ۔مگر یقین کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا ۔یہ تو وہ زخم ہیں جوواضح ہیں اور سب کو محسوس ہوتے ہیں ۔اس دسمبر کو جھاڑ کر دیکھیں تو نجانے کتنے زخم اس کے دامن سے نکلیں گے جن سے صرف چند لوگ واقف ہیں ۔کاش !دسمبر میں ملنے والے ان غموں کو راحت میںبدلنے کا سامان ہوجائے اور ان زخموں پر پھاہا رکھنے کی کوئی ترکیب ۔ورنہ یہ دسمبر ایسے ہی رستا رہے گا ۔خیا ل رکھنا!ْمبادا یہ دسمبر کسی نئے غم کو دعوت نہ دے بیٹھے۔