میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
محصور پاکستانیوں کی کہانی

محصور پاکستانیوں کی کہانی

منتظم
اتوار, ۱۷ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

عبدالجبار خان
ساری دنیا پر یہ حقائق روزِ روشن کی طرح اُجاگر ہیں کہ اگر ہندوستان کے لاکھوں مسلمان خاص طور پر اقلیتی صوبے کے مسلمان خصوصی طور پر بہار کے مسلمانوں نے 1947 ء ، 1948 ء میں قائداعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے نعرے لگائے ’’لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کیے رہے گا ہندوستان، بن کے رہے گا پاکستان‘‘ اور اس جرم کا اکثریتی ہندوئوں نے اقلیتی مسلمانوں سے ایسا خونی بدلہ لیا کہ شہر در شہر، گائوں کے گائوں، قصبوں کے قصبے ویران کردیئے گئے، خون کی ہولیاں کھیلی گئیں، ہزاروں دخترانِ اسلام کی عزت و آبرو کی دھجیاں اڑائی گئیں، ان کی چھاتیاں کاٹی گئیں، لاکھوں مسلمانوں کوانتہائی سفاکی اور بیدردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، آگ اور خون کے دریا سے گزرنا پڑا تب کہیں جاکر پاکستان کا وجود عمل میں آیا، قائداعظم نے فرمایا : ’’بہار نے اپنا حق ادا کردیا اور پاکستان بن گیا‘‘۔ پھر اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں سے کہا گیا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہوگا ، سارے جہاں کے مسلمانوں کا گھر ہوگا اور ہدایت جاری کی گئی کہ جہاں جہاں جس کی ضرورت ہے وہاں وہاں ہجرت کریں اور اپنی ذمے داریاں پوری کریں تاکہ پاکستان ایک مضبوط مملکت بن سکے۔ ہندوستان کے مختلف صوبوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان ہجرت کی۔ وہ اپنے آباء و اجداد کی میراثت، قبروں کو، لال قلعے، تاج محل، قطب مینار اور علی گڑھ کو چھوڑ کر چلے آئے جو آج ہندوئوں کی میراث ہے۔ قائداعظم کی آواز پر سب کچھ چھوڑ کر وطن ِ عزیز کو سنوارنے اور نکھارنے کے لیے پاکستان چلے آئے۔
وائے قسمت 1971 ء میں جب مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائیوں نے پاکستان سے علیحدگی کی تحریک شروع کی تو ہجرت کرکے آنے والوں سے کہا گیا کہ پاکستان خطرے میں ہے، تمہاری قربانیوں کی ایک بار پھر ضرورت ہے۔ ؎ بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق۔ بقائے پاکستان کے لیے ہر محاذ پر پاک افواج کا شانہ بشانہ ساتھ دیااور وفاق کا ساتھ دینے کے جرم میں ایک بار پھر ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں پر نئے طور سے ظلم و تشدد اور بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ معاشرت، تجارت اور زندگی کے تمام حقوق چھین لیے گئے، گھروں سے نکال کر بنگلہ دیش کے 14 اضلاع کے 70 سے زائد کیمپوں میں مقید کردیئے گئے جس کواب47 سال مکمل ہوگئے۔1972 ء میں انٹرنیشنل ریڈ کراس سوسائٹی نے محصورین کے تبادلے کی ذمے داری حکومتِ پاکستان و بنگلہ دیش کی مرضی کے مطابق اپنے کاندھوں پر لے لی۔ دہلی معاہدے کے تحت شہید ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے تقریباً ایک لاکھ 27 ہزار افراد کا پاکستان تبادلہ کیا اور انہیں پنجاب سمیت پاکستان بھر میں آباد کیا مگر بدقسمتی سے 1974 ء میں تبادلے کا یہ عمل رک گیا۔ محصورین انتہائی پریشان اور بھوک سے سسک بلک رہے تھے۔ ان کی جان و مال کا کوئی پرُسانِ حال نہیں تھا، ہر طرف ایک قیامت کا عالم برپاتھا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے متوالے پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں ان کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ ایسے کربناک حالات میںمحصورین کے درمیان ایس پی جی آر سی کا وجود عمل میں آیا۔ ایس پی جی آر سی کی باگ ڈور الحاج محمد نسیم خان نے سنبھالی۔ پوری قوم نے ان کی قیادت کو لبیک کہا۔ کنچن ندی سے کرنافلی تک عدم تشدد کی تحریک شروع ہوئی۔
سچے اور پکے محب وطن پاکستانیوں کے سربراہ اقوام متحدہ ، آئی ایل ، او آئی سی اور دنیا کے تمام سربراہانِ مملکت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ انہیں اپنے دکھ درد اور صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ ہر طرح سے ان کے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا۔ مگر نقار خانے میں یہ طوطی کی آواز آخر کون سنے؟ آخرکار 14 اگست 1979 ء کو 50 ہزار محصورین کو ساتھ لے کر لانگ مارچ کے لیے بنگلہ دیش کے سرحد کے قریب جمع ہونے کا فیصلہ کیا مگر 12 اگست 1979ء ہی کو بنگلہ دیش کی مسلح افواج نے نسیم خان مرحوم سمیت سینکڑوں افراد کو گرفتار کرلیا، گولیاں چلائی گئیں، لاٹھیاں برسائی گئیں، درجنوں نہتے محصورین شہید کردیئے گئے، جلسہ جلوس، سیمینار، بھوک ہڑتال و دیگر احتجاجی پروگرامات بتدریج اب بھی جاری ہیں۔ 1985 ء میں صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے محصور پاکستانیوں کے رہنما ء الحاج محمد نسیم خان سے ملاقات کی۔ اصولی طور پر انہوں نے محصورین کو پاکستانی شہری تسلیم کرلیا جس کے نتیجے میں 9 جولائی 1988 ء کو اسلام آباد میں رابطہ ٹرسٹ کا قیام عمل میں آیا مگر جنرل محمد ضیاء الحق ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے اور مسئلہ ایک بار پھر سرد خانے میں چلا گیا۔
میاں محمد نواز شریف اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ انہوں نیے ڈھائی لاکھ محصورین کے لیے اپنے ذاتی فنڈ سے شلوار قمیض اور بہت سارے کپڑے بھجوائے اور محصورین کے قائد الحاج محمد نسیم خان کے نام ایک خط لکھا جس پر ان کے اپنے دستخط تھے۔ لکھا کہ پنجاب محصور پاکستانیوں کو قبول کرنے کو تیار ہے۔ جب وہ پاکستان کے وزیراعظم بنے تو محصورین کا مکمل سروے کروایا۔ اس سروے میں حکومت پاکستان کی جانب سے پاک سفارتخانے اور رابطہ (مکہ) کی جانب سے رابطہ (ڈھاکہ) اور محصورین کی جانب سے تنظیم ایس پی جی آر سی نے اپنا کردار ادا کیا۔ اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ٹیلیویژن کے ذریعے محصورین کے کیمپوں کی فلم بنوائی جسکا نام ’’منزل پاکستان‘‘ رکھا گیا اور اسے پی ٹی وی سے بار بار دکھایا گیا۔ 12 اگست 1999 ء کو محصورین کے رہنما الحاج ایم نسیم خان کو اسلام آباد بلواکر یقین دلایا گیا کہ محصورین کے تبادلے کا کام جلد شروع کردیا جائے گا۔ مغرب کا وقت ہوچکا تھا، وزیراعظم ہائوس میں محصورین کے قائد نے نماز مغرب ادا کی جس میں وزیراعظم بھی شریک تھے۔
وعدے کے مطابق پنجاب کے شہر میاں چنوں میں محصورین کے لیے ایک ہزار یونٹ مکان تعمیر کیے گئے۔ 12 اگست 1997 ء کو بنگلہ دیش کی وزیراعظم بیگم خالدہ ضیاء جب پاکستان کے دورے پر گئیں تو ان کے اور وزیراعظم نواز شریف کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت اسی سال دسمبر میں 3 ہزار خاندانوں کا تبادلہ پاکستان ہونا تھا مگر بدقسمتی سے 10 جنوری 1993 ء کو صرف 56 خاندانوں کے 325 افراد پاکستان پہنچ سکے۔ وائے قسمت نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ ختم ہوگئی اور محصورین کا مسئلہ ایک بار پھر التواء میں پڑ گیا۔
30 جنوری 2002 ء کو جب جنرل پرویز مشرف بنگلہ دیش تشریف لائے تو ہمارے قائدالحاج محمد نسیم خان سے ملاقات کی۔ جنرل مشرف نے ان سے کہا کہ یہ مسئلہ پر مجھ پر چھوڑ دیں۔ ہزاروں خطوط اور یاددہانی کے باوجود انہوں نے کچھ نہیں کیا اور بعدازاں وہ صدرِ پاکستان ہی نہ رہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں