میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
الوداع نیشنل ایکشن پلان الوداع ۔۔۔!!

الوداع نیشنل ایکشن پلان الوداع ۔۔۔!!

منتظم
هفته, ۱۷ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

bukhari-1

اسرار بخاری
نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے بیان نے اس کے مستقبل کا پول کھول دیا تھا اور ثابت ہوگیا مولانا کے بقول یہ واقعی مجبوری میں منظور کیا گیا تھا ، پہلے تو سیاسی قیادت کی جانب سے اس پر عمل درآمد کی رفتار میں رکاوٹیں ڈالی گئیں ساتھ ساتھ سیاسی ، بیانات اور بالخصوص ٹی وی ٹاک شوز میں یہ پروپیگنڈا جاری رہا کہ اس سے وہ مقاصد صحیح طور پر حاصل نہیں ہورہے جن کے لیے یہ منظور کیا گیا تھا بعض واقعات جو انتظامیہ اور پولیس کی ناکامی ہے اس کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان کی ”بے اثری “ کا تاثر دیا جارہا ہے آج سے پندرہ روز بعد یہ قصہ ماضی بن جائے گا جبکہ کسی ملزم کو نوے روز حراست میں رکھنے کا قانون تو پہلے ہی جولائی میں ختم ہوچکا ہے ، اس میں توسیع نہیں کی گئی ، دو جنوری کو فوجی عدالتیں بھی ختم کردی جائیں گی ۔ ان میں زیر سماعت مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوںمیں منتقل کردیے جائیں گے ، پیپلز پارٹی کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان کی مخالفت سمجھ میں آتی ہے کہ اس کے باعث ڈاکٹر عاصم حسین زیر حراست ، شرجیل میمن ملک سے فرار، عزیر بلوچ کے بیانات لٹکتی تلوار ، ایان علی کی دبئی روانگی اور آصف زرداری کی وطن واپسی سوالیہ نشان اور اسی طرح کے دیگر معاملات میں اس پلان کی کوکھ سے جنم لیا ہے مگر یہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو نیشنل ایکشن پلان سے کیا خطرہ ہے کہ موصوف اس کے تحت قائم فوجی عدالتوں کو موجودہ عدالتوں کی توہین قرار دے رہے ہیں ، جبکہ دو سالہ مدت کے دوران جون 2016ءتک ان میں 105مقدمات زیر سماعت آئے 70کو سزائے موت ،12کو پھانسی دی گئی ،4 کو عمر قید اور جون سے نومبر تک 28کو سزائے موت سنائی گئی ، کیا اس دوران انسداد دہشتگردی کی عدالتوں نے اس تعداد میں مقدمات کی سماعت کی اور فیصلے سنائے ہیں ، جواب مثبت نہیں ہے ۔ بلاشبہ از خود یا سیاسی مشاورت کے بعد نیشنل ایکشن پلان کو ختم کرنا حکومت کا اختیار ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہشتگردی میں بہت زیادہ کمی آئی ، ٹارگٹ کلنگ اور بھتا خوری کے واقعات بہت کم ہوئے ، خطر ناک مجرم پکڑے گئے ، بہت سے کیفر کردار کو پہنچے ، شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت فاٹا اور کراچی میں امن قائم ہوا ،بلوچستان میں علیحدگی پسندی کے شعلے بھڑکانے کی بھارتی سازش کو ناکام بنایا گیا اس کے باوجود اگرچہ ابھی منزل مراد کی جانب سفر اپنے انجام کو نہیں پہنچا پھر اس پلان سے جان چھڑانے کا مقصد کیا ہے؟ بالخصوص اس صورت میں کہ کوئی متبادل پلان بھی سامنے نہیں آیا ۔ رہ گئی معمول کی انتظامی کوششیں ، پولیس اور مروجہ عدالتی نظام یہ تو دہشتگردی ، ٹارگٹ کلنگ اور بھتا خوری کے سامنے بے بس ثابت ہوئے تھے ۔ تب ہی تو بقول مولانا فضل الرحمن سیاسی قیادتوں کو نیشنل ایکشن پلان مجوراً قبول کرنا پڑا تھا ۔ ان سطور کا مقصد حکومتی فیصلے کی مخالفت ہے اور نہ ہی نیشنل ایکشن پلان کی بے جاوکالت ،غرض صرف اتنی ہے کہ کوئی ایسا مکینزم بھی سامنے آنا چاہیے جو یہ اطمینان دلا سکے کہ نیشنل ایکشن پلان تو مان لیا ناکام ہوا اور اب ملک سے ٹارگٹ کلنگ فرقہ واریت اور دہشت گردی کا مکمل طور پر ٹھپا جائے گا اور ملک میں ہرجانب امن و چین کی بانسریاں بج رہی ہونگی ۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت شروع کردہ کراچی آپریشن نے بہت سے چہرے بے نقاب کردئیے ہیں ۔ اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی عبدالرحمن عرف بھولا کی گرفتار ی کے بعد بیانات سے ظاہر ہوئے کرتوت ہیں جو اس نے ”بھولپن“ میں کئے ۔ تفتیش کا دائرہ پھیلے گا تو کھُرا پارٹی کے سب سے بڑے ”بھولے“ تک جائے گا۔
جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے بہت سے سوکھے دھانوں پانی پڑا تھا ، خوش گمانیوں کی نئی فصلیں لہلہائی تھیں ، خواہشات پر مبنی امیدوں کی نئی کونپلیں پھوٹی تھیں ، گمان کرلیا گیا ضرب عضب اور بالخصوص کراچی آپریشن جنرل راحیل کا ذاتی معاملہ تھا ، ان کے ساتھ ہی ان کا بستر لپیٹ دیا جائے گا ۔ اس گمان کو مولانا فضل الرحمن کے اس بیان کی روشنی میں پرکھا جاسکتا ہے ’آپریشن ضرب عضب دباو¿ کے تحت تھا اسے ختم ہوجانا چاہیے“۔ اس گمان کا ایک مظاہرہ جنرلوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے آصف زرداری کی واپسی کے اعلان کی صورت میں نظر آیا اور سرمستی کا مظاہرہ ڈاکٹر عاصم کو پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کا صدر بنا کر کیا گیا ۔ مگر کیا مجبوری سی مجبوری ہے ،ڈاکٹر عاصم کو نہ پنجرے سے نجات مل رہی ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ نہ آصف زرداری پاکستان آسکتے ہیں نہ ایان علی دوبئی جاسکتی ہے ۔ اس گمان کے غبارے سے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے ایسے بیانوں نے ہوا نکال دی ہے کہ ”کراچی میں مکمل امن تک آپریشن جاری رہے گا ، دہشت گردوں کی باقیات ، سلیپر سیل ختم کردیں گے “۔اسی دوران سندھ ایپکس کمیٹی کا اجلاس بلا لیا گیا ہے ۔ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے کور کمانڈر اور ڈی جی رینجرز کو اجرک پیش کرکے دوستانہ رویہ کا مظاہرہ کیا ہے ، لیکن ان کا اصل امتحان ایپکس کمیٹی میں ہونے والے فیصلوں پر عملدرآمد پر ہے اور قائم علی شاہ دور کی تاریخ نہیں دہرائی جائے گی ۔ ویسے جہاں تک کراچی آپریشن کا تعلق ہے اس کا دارومدار سندھ حکومت کے تعاون یا عدم تعاون پر نہیں ہے بلکہ قائم علی شاہ کی وزارت عالیہ کے دوران بھی اور مراد علی شاہ کے دور حکومت میں بھی ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے حتی کہ فوجی کمان کی تبدیلی سے بھی اس پر ذرا اثر نہیں پڑا ،اس لیے فیصلہ فوج کے سربراہ کا نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں خوش گمانی یا غلط فہمی کا شکار لوگوںکو جان لینا چاہیے کہ فوج اگر کسی منصوبہ کو تکمیل تک نہ پہنچاسکے تو یہ فوج سے زیادہ ریاست کی ناکامی ہے اس لیے آرمی چیف کے اس بیان کہ ”کراچی میں مکمل امن تک آپریشن جاری رہے گا“ کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔ مہاجر عصبیت کے نام پر منظم ہونے والے گروہ نے مہاجروں کو کس حال تک پہنچادیا تھا ۔ آئے روز بھتا خوریوں ، ٹارگٹ کلنگ اور رہزنی نے اس شہر پر خوف اور بے یقینی کے سائے پھیلائے ہوئے تھے ، کام کاج سے جانے والے مردوں کے گھر واپسی تک اہل خانہ بولائے رہتے کہ یہ زندہ واپس آئے گایا ایمبولنس میں لاش آئے گی ۔
اس صورتحال کی مثال میراذاتی تجربہ ہے میرے خالہ زاد بھائی نارتھ ناظم آباد کے ایچ بلاک میں رہائش پذیر ہیں ۔ ان کے ساتھ ایچ بلاک کی مارکیٹ میں رات آٹھ ساڑھے آٹھ بجے جب بھرپور رونق تھی اس خیال سے گھر لاہور میں بات کرلوں ، جونہی موبائل فون جیب سے نکالا میرے کزن نے پریشان ہوکر ”یہ کیا کررہے ہیں “کہتے ہوئے وہ چھین لیا ،اورمیری جیب میں رکھ دیا اور تلقین کی کہ کبھی سرعام موبائل فون آئندہ مت نکالنا ، کچھ عرصہ بعد ان کے چھوٹے بھائی میرے گھر لاہور آئے ، رات ساڑھے دس بجے سرشام سنسان رہنے والی کشمیر روڈ پر واقع ایل ڈی اے بلڈنگ میں قائم ایم سی بی کی اے ٹی ایم سے پیسے نکال کر باہر سڑک پر آکر گننے لگاتو وہ پریشان ہوگئے اور کہنے لگے کہ کراچی میں تو ہم اس طرح پیسے نہیںنکال سکتے ۔ اب موجودہ صورتحال یہ ہے کہ وہ کراچی میں سرعام موبائل فون استعمال بھی کرتے ہیں اور اے ٹی ایم سے بے فکر ہوکر پیسے بھی نکلواتے ہیں ، حالانکہ ابھی آپریشن تکمیل کی منزل کو نہیں پہنچا، اب نیشنل ایکشن پلان ختم ہونے کی خبروںسے کراچی میں اگر تشویش میں لپٹے اندیشے دل و دماغ میں خوف کے جکھڑ چلانے لگیں تو کیا یہ غیر فطری ہوگا۔؟؟
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں