بی جے پی آزاد صحافت کا گلا گھونٹ چکی
شیئر کریں
ظفر آغا
۔۔۔۔۔۔۔
مہمان کالم
صاحب ایک مثال ہے ‘چھاج تو بولے سو بولے چھلنی بھی بولے جس میں چھید بہتر ‘یہ مثال اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی پر صادق آتی ہے جو ریپبلک ٹی وی کے مشہور اینکر ارنب گوسوامی کی گرفتاری پر غم منا رہی ہے۔ اور تو اور خود وزیر داخلہ امیت شاہ کو اس گرفتاری سے اس قدر صدمہ پہنچا ہے کہ انہوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ارنب کی گرفتاری ’’آزادی صحافت ‘‘پر ایک حملہ ہے۔صرف اتنا ہی نہیں‘ شاہ اور پوری مودی کابینہ کو اس واقعہ کے بعد ایمرجنسی کی یاد آنے لگی اور ارنب کی گرفتاری پر مودی وزیر نے مذمت کی۔
بی جے پی نے جلسے جلوس نکالے اور سڑکوں پر احتجاج کیا۔ چند روز قبل ممبئی پولیس ایک خودکشی معاملے میں ارنب گوسوامی کو ان کے گھر سے اٹھا لے گئی۔ ریپبلک ٹی وی کا یہ انتہائی متنازع نیوز اینکر فی الحال پولیس کے زیر حراست ہے اور فی الوقت ممبئی ہائی کورٹ نے بھی ارنب کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔ بی جے پی کو ارنب کی گرفتاری پر سخت صدمہ ہے۔ اور جیسا عرض کیا‘ وہ صحافت پر اس حملے کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس گرفتاری سے ملک میں آزاد صحافت خطرے میں آگئی۔اللہ کی پناہ! آزاد صحافت اور بی جے پی‘ ان دونوں کا اینٹ گڑھے کا بیر‘ لیکن اب اسی بی جے پی کو آزاد صحافت یاد آ رہی ہے۔ ذرا پوچھئے بی جے پی نے اس ملک میں پچھلے چھ برسوں میں آزاد صحافت کو جو دھکا پہنچایا ہے وہ کسی اور نے نہیں پہنچایا۔
آج اس ملک کا ہر بڑا ٹی وی چینل اور ہر بڑا اخبار صحافت بھول کر بی جے پی کی قصیدہ خوانی کرتا ہے۔ کیونکہ بی جے پی نے صحافت کا ایک نیا اصول بنا دیا ہے‘ وہ اصول یہ ہے کہ جو صحافی یا صحافت کا ادارہ ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا دشمن ہے اور جو ہمارا دشمن اس کو کسی قسم کا ایک پیسے کا بھی سرکاری اشتہار نہیں ملے گا۔اس ملک میں کوئی کتنا بھی بڑا سرکاری ادارہ کیوں نہ ہو‘ اگر اس کو سرکاری اشتہار نہیں ملے تو بس یوں سمجھئے کہ وہ بند ہونے کی کگار پر پہنچ جائے گا۔ بھلا اس ماحول میں کسی صحافی یا صحافت کے ادارے کی کیا مجال کہ وہ بی جے پی کے خلاف زبان کھولے۔ چنانچہ آپ رات نو بجے کسی بھی زبان کا بڑا ٹی وی چینل کھولیے‘ ہر جگہ آپ کو بی جے پی کی قصیدہ خوانی سننے کو مل جائے گی۔ یہ ہے بی جے پی کا آزاد صحافت کا پیمانہ۔ اور تو اور اگر پھر بھی کوئی صحافی حکومت کے خلاف لکھنے یا بولنے کی جرات کرے تو اس کو ایسا سبق سکھانے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ صحافت ہی بھول جائے۔
آپ کو ایک نہیں پچھلے چھ سالوں میں درجنوں ایسی مثالیں مل جائیں گی جن میں یہ نظر آجائے گا کہ حکومت کے نکتہ چیں صحافی یا صحافت کے ادارے کو صاف بتا دیا گیا کہ اگر ہوش میں نہیں آئے تو سبق سکھا دیا جائے گا۔ ارے بھائی کس کو ای ڈی اور سی بی آئی کا این ڈی ٹی وی پر دھاوا یاد نہیں۔ این ڈی ٹی وی کا جرم صرف اتنا ہی تو تھا کہ وہ حکومت کے سْر میں سْر ملا کر خبریں نہیں دیتا تھا۔ اور یاد دلائوں‘ گوری لنکیش جیسی نڈر صحافی کو اس کے گھر میں گھس کر ہندووادی تنظیم کے افراد نے مارا۔ اس کا گناہ یہی تو تھا کہ وہ مودی حکومت کی نکتہ چیں تھی۔ اس وقت بی جے پی کو آزاد صحافت نہیں یاد آئی تھی۔ اور ایسے کتنے واقعات یاد دلائوں۔ اس ملک میں ونود دوا جیسے نامی گرامی ٹی وی اینکر کو کون نہیں جانتا۔ان کے خلاف ہماچل کی بی جے پی سرکار نے ایف آئی آر درج کرائی۔ آئے دن پولیس ان کے بیان لیتی رہتی ہے۔ ایسے ہی ’دی وائر‘ کے ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن کے خلاف یو پی میں ایف آئی آر درج ہوئی۔ یہ تو بڑے صحافیوں کا معاملہ ہے۔ درجنوں دیگر صحافی جنہوں نے بی جے پی حکومتوں کی نکتہ چینی کی وہ جیل میں ہیں یا نوکریوں سے نکال دیے گئے۔
ایک صحافت کیا‘ ملک کے کسی بھی ادارے کی آزادی پچھلے چھ سالوں میں بچی کیا! الیکشن کمیشن سرکار کی گود میں بیٹھا ہے۔ لوگ سپریم کورٹ تک پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔ افسر شاہی پی ایم او کی انگلیوں پر ناچ رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں جس دھاندلی سے دو ماہ قبل کھیتی باڑی کا قانون پاس کروایا گیا وہ ساری دنیا کو پتہ ہے۔ یہ سب بی جے پی حکومت کی ایما پر ہی تو ہو رہا ہے۔ اسی بی جے پی کو اب ایک ارنب گوسوامی جیسے صحافی کی گرفتاری پر آزادی صحافت کا خیال آ رہا ہے۔ آخر یہ ارنب گوسوامی کے لیے بی جے پی کو اتنا درد کیوں ہے؟سچ تو یہ ہے کہ بی جے پی کو ارنب کی گرفتاری پر جتنا صدمہ ہے‘ اتنا صدمہ کسی اور کو نہیں ہو سکتا ہے۔ اگر آپ ریپبلک ٹی وی کے صحافیانہ انداز پر نگاہ ڈالیں تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ ارنب کی صحافت سے سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہی ہے۔ یوں بھی ریپبلک ٹی وی کی داغ بیل رکھنے والے راجیو چندر شیکھر خود بی جے پی ایم پی ہیں۔ سنتے ہیں ارنب گوسوامی کے والد کا آسام میں بی جے پی سے گہرا رشتہ رہا ہے۔ وہ تو جانے دیجئے‘ ارنب کے شو پر خبریں کم اور وطن کی ٹھیکہ داری کے نام پر تقریریں زیادہ ہوتی ہیں۔
ارنب گوسوامی کا انداز آداب و تہذیب کے دائرے سے باہر ہوتا ہے۔ وہ اپنے شو میں سونیا گاندھی‘ شرد پوار‘ ادھو ٹھاکرے جیسے لیڈروں کی ٹوپی اچھالتے ہیں۔ ’شرد پوار ‘ ادھو ٹھاکرے ‘ مجھے گرفتار کرو۔ ممبئی کیا ممبئی پولیس کے باپ کا ہے!‘ جیسے جملوں کو صحافت تو نہیں کہا جا سکتا ہے۔ بھلے ہی کبھی کبھی ارنب بی جے پی کے خلاف بول دیتے ہوں‘ لیکن آج تک انہوں نے نریندر مودی یا امیت شاہ کے لیے وہ الفاظ یا لہجہ نہیں استعمال کیا جیسا وہ سونیا گاندھی یا دیگر اپوزیشن لیڈران کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی کو ارنب سے ہمدردی نہیں ہوگی تو کیا رویش کمار سے ہوگی۔بی جے پی آزاد صحافت کا گلا کب کا گھونٹ چکی۔ اب ارنب کی گرفتاری پر آزادی صحافت پر آنسو بہانا محض ایک ڈھونگ اور ڈرامہ ہے۔ اس لیے ارنب کی گرفتاری کو صحافت پر حملہ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ وہ ایک خودکشی کے معاملے میں گرفتار ہوئے ہیں جس میں خودکشی کرنے والوں نے ان کو اپنی خودکشی کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ پولیس کے پاس وہ شکایت موجود ہے۔ یہ الزام کتنا صحیح یا غلط ہے‘ عدالت اب اس کو طے کرے گی۔ اس کو آزادی صحافت سے جوڑنا ایک سیاست ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔