بھارت میں کورونا کی نئی لہر کا خوف
شیئر کریں
جیفری جینٹل مین
۔۔۔۔۔۔۔۔
مہمان کالم
دو ماہ قبل‘ پورا بھارت کورونا وائرس سے تباہ شدہ ایک علاقے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ایک دن میں ایک لاکھ کے قریب نئے کیسز رپورٹ ہو رہے تھے‘ اموات کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی اور بھارت ریکارڈ شدہ کیسوں میں امریکا کو پیچھے چھوڑنے کے لیے تیار دکھائی دیتا تھا لیکن آج صورتِ حال قدرے مختلف نظر آ رہی ہے۔ ریکارڈ شدہ کیس، اموات اور جانچے جانے والے افراد کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے برعکس‘ یورپ اور امریکا میں وبا اب دوبارہ تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن بھارت میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں کمی کی وجوہات کے بارے میں شکوک و شبہات برقرار ہیں۔ کچھ محققین کہتے ہیں کہ یہ اعدادوشمار کچھ حد تک جانچ میں ممکنہ تبدیلی کا نتیجہ ہیں۔ ریسرچرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ حقیقت میں بڑی تصویر کو جاننے کے لیے انہیں مکمل اعدادوشمار تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ ماہرین عام طور پر اس بات پر بھی متفق ہیں کہ انفیکشنز کی بڑی تعداد نے باقی ملکوں کی طرح‘ بھارت میں بھی ان کا سراغ لگانے کی کوششوں کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ملک میں وبا کے حوالے سے حالات اب بھی کافی زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔
اجتماعی سوچ میں بھی تبدیلی آئی ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ بھارت نے حفاظتی اقدامات ترک یا کم کر دیے ہیں‘ موسم بہار میں شدید لاک ڈا ئون اور گرمیوں کے دوران معاشرتی اجتماعات پر پابندی کے بعد حکومت تیزی کے ساتھ اَن لاکنگ کی طرف آئی اور دوبارہ لاک ڈائون کی ابھی تک کوئی بات نہیں ہوئی۔ اس وقت بھارت میں معاشرے کا مجموعی رویہ ہے ’’آئیں آگے بڑھیں‘‘۔ نقل و حرکت کے حوالے سے سامنے آنے والے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ بھارتی عوام خریداری کے علاقوں اور عوامی مقامات پر واپس آ چکے ہیں اور ایسے مقامات پر آنے والے بہت سے لوگ ماسک تک نہیں پہنے ہوئے ہوتے۔ ایسا لگتا ہے کہ آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ انفیکشن کے خطرے سے بے خوف ہو چکا ہے۔
نئی دہلی کے قریب مقیم ایک ماہر امراض قلب اور مینڈانتا ہسپتال چین کے سربراہ ڈاکٹر نریش تریھن نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا: لوگ کہہ رہے ہیں کیا مسئلہ ہے، ہمیں اس کے ساتھ رہنا سیکھنا ہے، خدا جانتا ہے کہ یہ کب تک چلتا رہے گا، بہت سی جگہوں پر لوگ ایسے جشن منا رہے ہیں جیسے اگلی صبح طلوع نہیں ہو گی لہٰذا اگر آپ اس طرح کے کام کرتے ہیں تو آپ کو تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہاں بہت سے ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ کورونا کے کیسز کے دوبارہ بڑھ جانے سے پہلے یہ بس تھوڑے ہی دنوں کا کھیل ہے۔ امریکا، فرانس اور جرمنی سمیت دیگر ممالک کا خیال ہے کہ وائرس کے حوالے سے بدترین دن ان کے پیچھے ہیں، نئی بلندیوں کو چھونے کے لیے۔ کسی بھی جگہ وبا کب پھوٹ پڑے‘ اس بارے میں کوئی تجزیہ پیش نہیں کیا جا سکتا اور اگلے چند ہفتوں میں منظر پیچیدہ تر ہو سکتا ہے۔ ٹھنڈا موسم انفیکشن میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ ہندوئوں کی تعطیلات کا موسم شروع ہونے والا ہے‘ جب دیوالی کے موقع پر لاکھوں افراد رشتے داروں کو ملنے جاتے ہیں اور ان کے لیے تحفے خریدنے کے لیے اسٹوروں کا رخ کرتے ہیں۔
بھارتی شہروں میں ہوا کی آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، جیسے ہر موسم خزاں اور سردیوں میں ہوتا ہے، اور ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ زہریلی ہوا کووڈ19 سے زیادہ افراد کے متاثر ہونے اور ان کی ہلاکتوں کا باعث بن سکتی ہے۔ اگرچہ بھارت میں مجموعی سطح پر کورونا کیسز کی تعداد کم ہو رہی ہے لیکن بھارت کے کچھ علاقوں میں یہ اب بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ مثال کے طور پر نئی دہلی اس وقت کیسز کی تعداد ریکارڈ بلندیوں کو عبور کررہی ہے۔ تامل ناڈو ریاست میں ٹیسٹنگ کٹس کی فراہمی میں معاون ڈاکٹر اور سرکاری ملازم پی اْماناتھ کا کہنا ہے کہ جو لوگ پہلے کورونا کا شکار نہیں ہوئے‘ بزرگ اور بچے‘ جو پہلی دو لہروں سے بچ گئے‘ اب بھی بیمار ہو سکتے ہیں۔واشنگٹن یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ برائے ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلیو ایشن نے تخمینہ لگایا ہے کہ بھارت میں کورونا کیسز کی تعداد ایک بار پھر بڑھ جائے گی اور سال کے آخر تک یہ تعداد روزانہ 10 لاکھ تک جا سکتی ہے، پھر بھی بہت سے ایسے کیسز رہ جائیں گے جن کو ڈیٹیکٹ نہیں کیا جا سکے گا۔ ان میں سے بہت سے افراد کا کبھی پتا نہیں چل سکا۔ یہ اندازہ اس بنیاد پر لگایا گیا ہے کہ بھارت میں بڑے پیمانے پر ماسک پہنے پر توجہ نہیں دی جاتی۔
پھر بھی‘ اس وقت کے لیے سرکاری تعداد تجویز کرتی ہے کہ کورونا وائرس پیچھے ہٹ رہا ہے۔ 16 ستمبر تک صورتحال یہ تھی کہ روزانہ تقریباً اٹھانوے ہزار کورونا کے نئے کیس سامنے آتے تھے، یہ اوسط گزشتہ ہفتے کم ہو کر چھیالیس ہزار کیسز تک آ گئی۔ وسط ستمبر تک روزانہ وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد 1200 تھی‘ جو اب کم ہو کر 500 کے قریب آ گئی ہے اور بھارت میں مجموعی طور پر مرنے والوں کی تعداد فی کس کی شرح سے بہت کم ہے، دوسرے ممالک میں اس کی نسبت یہ شرح کافی زیادہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 8.5 ملین یعنی پچاسی لاکھ ہے اور یہ برازیل میں کورونا کے مریضوں سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے‘ جہاں بھارت سے کہیں زیادہ مریض جاں بحق ہو چکے ہیں۔ حکومت بہار نے اپنے عوام کو چوکنا رہنے کی اپیل کی ہے۔ بھارتی وزیر صحت ہریش وردھن کا کہنا ہے کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں؛ تاہم ابھی معاملات کو بہت خوش کن قرار نہیں دیا جا سکتا۔
خون کے نمونوں کے سروے سے واضح ہوا ہے کہ کچھ شہری علاقوں کے کم از کم 15 فیصد رہائشی پہلے ہی وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارت میں کل کتنے لوگ اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں؟ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کا تقریباً ایک تہائی حصہ پہلے ہی وائرس کا شکار ہو چکا ہے۔ سائنسدانوں نے یہ اندازہ بھارت میں ٹرانسمیشن کی شرح، متاثرہ افراد کی تعداد اور بازیافت کی تعداد کو ظاہر کرنے والے اعداد و شمار کے ذریعے لگایا ہے۔ اگرچہ دوسرے سائنس دانوں نے اس تحقیق پر شک ظاہر کیا ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ وبا 200 ملین یا کم از کم 15 فیصد آبادی تک پہنچ چکی ہے۔ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ بھارت میں وبا پر قابو پانا کسی بھی حالت میں مشکل ہو گا کیونکہ اس کی زیادہ تر آبادی قریبی حلقوں میں رہتی ہے اور صحت کی دیکھ بھال کا نظام کافی خراب ہے۔ وسیع لاک ڈائون کے نفاذ سے معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔بھارت میں کورونا کے پھیلائو کی گنجائش موجود ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ گھر سے کام کرتے ہیں اور ایسا کرنا عیش و آرام کی بات ہے لیکن زیادہ تر اس کا صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں کیونکہ لاتعداد افراد کو اپنے اہل خانہ کے لیے کچھ کمانے کی خاطر گھروں سے نکلنا اور ہر دن سڑکوں پر چکر لگانا پڑتے ہیں۔ بھارت میں کورونا کے حوالے سے صورتحال بہتر ہو رہی ہے لیکن اس کے ساتھ نئی لہر کا خوف بھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔