کاروباری انارکی اور آئی پی او کا کردار
(قاضی سمیع اللہ)
شیئر کریں
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ملکی معیشت مستحکم ہوچکی ہے۔تبدیلی سرکار کے اس دعوے میں کتنی صداقت ہے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملکی حالات کاروبار اور تجارتی طبقہ کے لیے ساز گار ہیں یا نہیں ۔ اس سوال کے جواب میں بہت کچھ کہا اور لکھا جاسکتا ہے لیکن اس ضمن میں صرف کاروباری و تجارتی طبقہ اوراس کے کاروبار کو حاصل تحفظ کے لیے مروجہ قوانین کے نفاذ اور اس پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائزہ لینا ہی کافی ہوگا ۔ملک میں کسی بھی قسم کے کاروبار بالخصوص کارپوریٹ سیکٹر کے کاروباری تحفظ کے لیے بین الاقوامی تقاضوں سے ہم آہنگ انٹیلیکچول پراپرٹی آرگنائزیشن (IPO)کا ایک خود مختار ادارہ موجود ہے جس کے چار مختلف ونگ ہیں جن میں سب سے اہم ٹریڈ مارک رجسٹری اور کاپی رائٹ رجسٹری ہیں جبکہ دیگر دو ونگ میں پیٹنٹ اور ڈیزائن کی رجسٹری شامل ہیں جو کسی بھی قسم کے کاروبار کے’’ برانڈز‘‘ کے تحفظ اور اس کو حاصل حقوق کے ضامن ہیں ۔ملک میں کاروبار اور کاروبار ی طبقہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کاپی رائٹ آرڈیننس 1962،کاپی رائٹ رولز1967،ٹریڈ مارک آرڈیننس 2001،ٹریڈ مارک رولز2004،پیٹنٹ آرڈیننس2000، پیٹنٹ رولز2003اور رجسٹرڈ ڈیزائن آرڈیننس 2000جیسے قوانین( قواعدو ضوابط) موجود ہیں ۔بلا شبہ آئی پی او کے تمام ونگ کے حوالے سے قوانین اور قواعدو ضوابط نہ صرف عالمی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں بلکہ یہ عالمی معیار پر بھی پورا بھی اترتے ہیں۔جہاں تک ٹریڈ مارک اور کاپی رائٹ قوانین کے نفاذ اور اس پر عملدرآمد کی صورتحال کی بات ہے تو یہ انتہائی مایوس کن ہی نہیں بلکہ ملکی و عالمی سطح پر بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔
اس ضمن میں گذشتہ برسوں کے دوران پاکستان میں کاپی رائٹ اور ٹریڈ مارک کے قوانین کے نفاذ اور اس پر عملدرآمد حوالے سے عالمی اداروں کے مشاہدے اور رپورٹس ملاحظہ کی جاسکتی ہیں جس میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ٹریڈ مارک (دانشورانہ املاک کے حقوق)اور کاپی رائٹ قوانین کی سنگین خلاف ورزی (پائریسی )کی شرح غیر معمولی حد تک بڑھ چکی ہے اس ضمن میں بی ایس اے نامی بین الاقوامی تجاتی تنظیم کی 2015میں جاری کی گئی رپورٹ کے اعدادوشمار بھی دیکھے جاسکتے ہیں جس کے مطابق پاکستان میں کاپی رائٹ قوانین کی سنگین خلاف ورزی (پائریسی)درجہ بندی کے تناسب کے اعتبار سے 85فیصد سے بھی زیادہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کو دانشورانہ حقوق کے نفاذ کے حوالے سے’’ ترجیحی واچ لسٹ‘‘پر رکھا ہوا ہے ۔ بہر کیف ملک میں ٹریڈ مارک اور کاپی رائٹ قوانین کی سنگین خلاف ورزی جہاں کاروباری و تجارتی طبقہ خود کرتا ہے وہاں ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی بھی آئی پی او میں موجود کرپٹ اعلیٰ حکام خود کرتے آرہے ہیں ۔
اس وقت آئی پی او کے ٹریڈ مارک اور کاپی رائٹ رجسٹریوں میں کرپشن عروج پر ہے جبکہ اس ضمن میں آئی پی او کے اعلیٰ حکام کو تسلسل کے ساتھ شکایات موصول ہورہی ہیں لیکن ان شکایات پر نوٹس لینے کی بجائے کرپٹ عناصر کی پشت پناہی کی جاتی ہے ۔ ٹریڈ مارک اور کاپی رائٹ بالخصوص ٹریڈ مارک رجسٹری میں کرپٹ پریکٹس اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ کوئی کالے دھن کا حامل کاروباری کسی بھی چھوٹے کاورباری کا نہ صرف کاروبار ٹھپ کرسکتا ہے بلکہ اس کے ٹریڈ مارک کو بھی ہتھیا سکتا ہے۔ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن کی باقاعدہ شکایات آئی پی او کے اعلیٰ حکام کے سامنے آتی ہیںلیکن ان کی جانب سے آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں ۔آئی پی او ملک میں ٹریڈ مارک اور کاپی رائٹ کے قوانین کو تحفظ فراہم کرنے میں کیوں ناکام ہورہا ہے اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ تو ایک تو یہ ہے کہ اس ادارے پر حکومتی سطح کا کسی قسم کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ اس ادارے کو ایڈہاک ازم پر چلایا جارہا ہے یعنی آئی پی او میں ڈیپوٹیشن اور ڈیلی ویجز افسران و ملازمین کی بھر مار ہے جو نائب قاصد سے لیکرایگزیکٹیو ڈائریکٹرز تک کی سطح کے ہیں جبکہ ٹریڈ مارک رجسٹری کا عالم تو یہ ہے کہ اسے دانستہ طور پر مستقل رجسٹرار کی بجائے قائم مقام رجسٹرار سے چلایا جارہا ہے تاکہ اعلیٰ حکام اور آئی پی او میں موجود بعض کرپٹ حکام اور ان کے ایجنٹس اپنے مذموم کاروباری مقاصد حاصل کرسکیں ۔ بہر کیف جہاں تک ٹریڈ مارک اور کاپی رائٹ قوانین کی سنگین خلاف ورزی (پائریسی)کا تعلق ہے تو اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص ایف آئی اے(ٖFIA) کی کاکردگی کو بھی کسی صورت مثالی قرار نہیں دیا جاسکتالیکن ایف آئی اے پائریسی کی نشاندہی ہونے کے بعد ضرور حرکت میں آتا ہے۔
اس ضمن میں ایف آئی اے جیسے ادارے کو مذید با اختیار بنانے کی ضرورت ہے تاہم اس ضمن میں پولیس کے کردار کو محدود کرنے کی ضرورت ہے ۔اب ایسے میں اس سوال کے جواب کی طرف بڑھتے ہیں کہ کیا ملکی حالات کاروبار اور کاروبار ی و تجارتی طبقہ کے لیے ساز گار ہیں یا نہیں۔۔؟یقینا ٹریڈ مارک اور کاپی رائٹ قوانین کے نفاذ اور عملدرآمد کی صورتحال جائزہ لینے اور آئی پی او میں موجود کالی بھیڑوں کا تذکرہ ہونے کے بعد نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ملک میں کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کو اپنے بام عروج پر پہنچانے کے لیے اس سے منسلک طبقوں کو ہر ممکن تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر ملکی معیشت کے استحکام کا دعویٰ بھی سوالیہ نشان کی زد میں آئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔آخر میں اتنا کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے احتسابی عمل کو آئی پی او تک بڑھائیں جہاں ٹریڈ مارک اور کاپی رائٹ کے حقوق پامال ہورہے ہیں اگر یہ صورتحال بدستور جاری رہی تو ملک میں’’ کاروباری و تجارتی انارکی‘‘ پیدا ہوسکتی ہے جو کسی صورت ملکی معیشت کے لیے نیک شگون نہیں ہوسکتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔