حامد شکیل ایک فرض شناس پولیس افسر
شیئر کریں
جمعرات 9نومبر کا دن بڑا بھاری ثابت ہوا ۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس حامد شکیل خودکش بمبار کے حملے میں خالق حقیقی سے جاملے۔ اس سانحے نے پورے شہر کو مغموم کر دیا۔ عوامی وسیاسی حلقوں سمیت زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد دُکھ اور ملال میں تھے ۔ پولیس کا محکمہ تو تھا ہی درد اور بے قراری میں ۔ یقینا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ گزرنے والے چند سالوں میں ایسے کئی دل سوز واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ آئندہ کیا کیا ہونے جارہا ہے ۔ حامد شکیل ہمت و جرأت دیانت اور فرض شناس شہرت کے حامل آفیسر تھے۔ صوبے کے اندر انہی صفات کے لیے معروف تھے۔ بڑے مشکل وقتوں میں بھی فرض کی ادائیگی سے پیچھے نہیں ہٹے۔2010-11میں جب پورا صوبہ اسی طرح دار الخلافہ دہشت گردوں اور شرپسندوں کے نشانے پر تھا۔ پولیس اہلکارہدف پر تھے ۔ ان عناصر نے پولیس کو بھاری جانی نقصان سے دو چار کیے رکھا تھا ۔ روز کہیں نہ کہیں کوئی آفیسر و سپاہی ان جتھوں کا نشانہ بن جاتے حتیٰ کہ ٹریفک پولیس اہلکاروں تک پر منظم وار کرتے۔ بلوچ مسلح گروہ ہوں یا وہ گروہ جنہوں نے اپنے ساتھ مذہب کی شناخت جوڑے رکھی ہے، پولیس ان سب کے نشانے پر رہی ہے اور سلسلہ علیٰ حالِہ جاری ہے۔
حامد شکیل پر خودکش حملہ گزشتہ واقعات کی کڑی اور تسلسل ہے۔ یقینی طور پر حملہ بھی انہی مذہب کا لبادہ اوڑھے دہشت گردوں کا کیا کرایا ہے۔ اور یہ امر بھی یقینی ہے کہ دہشت گرد گروہ نے حامد شکیل کی آمدورفت بلکہ جملہ معلومات کی جانچ پرک بڑی تفصیل اور گہرائی سے کر رکھی تھی ۔یوں اپنے ناروا عمل میں کامیاب ہوگئے ۔ ان کے ساتھ اسسٹنٹ سب انسپکٹر محمد رمضان محمد حسنی اور ڈرائیور جلیل احمد بھی اپنے خدا سے جا ملے ۔ کیا عجب اتفاق ہے، اے ایس آئی محمد رمضان محمد حسنی اور حامد شکیل کے درمیان اعتماد اور احترام سالوں سے قائم تھا ، گویا یارانہ تھا۔ حامد شکیل کا تبادلہ جہاں بھی ہوتا اس نوجوان آفیسر کا تبادلہ بھی ہمراہ کرتے۔ اس طرح خدا کے حضور بھی ایک ہی شان اور مرتبہ کے ساتھ چلے گئے۔ ہمارا جب براہ راست رابطہ حامد شکیل سے نہ ہوتا تو رمضان کو فون کرتے اور صاحب بارے معلومات لیتے۔ جب حامد شکیل ڈی آئی جی آپریشن اور ڈی آئی جی انویسٹی گیشن تھے تو کسی واقعہ و سانحہ کی تفصیلات لینی ہوتی تومحمد رمضان کو فون کرتے ،ہمیں معلوم تھا کہ وہ ڈیوٹی کے اوقات میں ہمراہ ہی ہوتے تھے۔ یہ نوجوان بھی اچھے خلق اور صفات کا مالک تھا۔ حامد شکیل نے صوبے کے مختلف اضلاع میں فرائض انجام دیئے۔ ایس پی سی آئی اے، اسپیشل برانچ، ایس پی ہیڈکوارٹرز، ایس ایس پی ایڈمن کوئٹہ، اے آئی جی انویسٹی گیشن اور 2010-11میں جب شورش تخریب اور دہشت گردی اپنے عروج پر تھی تب ڈی آئی جی آپریشن اور ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کی اہم اور حساس ذمہ داریوں پر رہے۔ ایس ایس پی ٹریفک کوئٹہ کے عہدے پر تین سال تک کام کیا۔ حال ہی میں اُنیس گریڈ میں ترقی دیدی گئی تھی، اور ڈی آئی جی ٹیلی کمیونیکیشن تعینات کردیئے گئے تھے۔
سانحے والے روز حامدشکیل جی او آر کالونی میں واقع اپنی رہائش گاہ سے دفترکے لیے نکلے تھے۔ کچھ ہی فاصلے پر چمن ہائوسنگ اسکیم میں ایک موڑ پر بمبار اپنی پوری تیاری کے ساتھ منتظر تھا ۔جو نہی گاڑی مڑی اور رفتار آہستہ ہوئی تو اس ظالم اور بدبخت نے انتہائی قریب جاکر دھماکا کردیا۔ حامدشکیل، محمد رمضان اور ڈرائیور جلیل احمد اُسی وقت ہی موت کی آغوش میں چلے گئے۔ حامد شکیل کو سر اور جسم کے مختلف حصوں میں شدید چوٹیں آئی تھیں۔ بلوچستان میں پولیس کے اہلکار بلا تفریق عہدہ نشانے پر ہیں ۔تاہم آفیسران پر حملوں کے لیے تیاری اور بندوبست بھی بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا آئندہ ایک نئی حکمت عملی اور تحفظ کے مؤثر نظام و انتظام کی ضرورت ہے ۔بلکہ اس تناظر میں اعلیٰ آفیسران کی سیکورٹی پر سادہ لباس میں اہلکاروں کی تعیناتی ہونی چاہیے ۔ نیز ان گرہوںکے خلاف آپریشن نچلی سطح تک لے جانا چاہیے ۔ بد قسمتی سے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے بہت سارے پہلوئوں کو نظر انداز کیے رکھا ہے۔ ہمارے اردگرد بہت سارے عوامل موجود ہیں ، جن کا وجود ایک لمبے عرصے سے انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے فروغ میں نرسری کی حیثیت کا ہے۔ اس پہلو پر ہمہ پہلو نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے اور بدی کے ہر خوشہ کو اکھیڑنے اور فنا کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس ان حملوں کی زد میں ہے پھر کیوں نہ پولیس اُن پر حملہ آور ہوں۔
مجھے یاد ہے کہ جب گزشتہ سالوں پولیس پر حملوں میں شدت آئی تب نواب ذوالفقار علی مگسی گورنر تھے۔ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ ہمارے قبائلی نظام میں جو ہمیں مارتا ہے ہم اُنہیں مار دیتے ہیں لہٰذا پولیس کو چاہیے کہ وہ بھی اپنا بدلہ لے لیا کرے،اسطرح مارنے والے ہاتھ رکیں گے۔ گویا نواب مگسی کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ کسی خوف اور مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ عوام ان جتھوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ایسے میں پولیس اور دیگر اداروں کو بڑے دل اور اعتماد سے ان کے خلاف کریک ڈائون کرنا چاہیے۔ عوام کا دل بہر حال جیتنے کی ضرورت ہے۔ پولیس کا رویہ عوام دوست اور شائستہ ہونا چاہیے۔ بلوچستان کے عوامی و سیاسی حلقوں نے اس سانحے پر انتہائی دکھ ، خفگی اور برہمی کا اظہار کیا ہے۔ یقینا یہ دکھ اورالم کا دن تھا ،شہر سوگوار ہے۔ حامد شکیل رواں سال نشانہ بننے والے چھٹے پولیس آفیسر ہیں۔ حامد شکیل 1988ء میں پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے ڈی ایس پی بھرتی ہوئے اور9نومبر2017ء کو بطور ڈی آئی جی شہادت کا مرتبہ پایا۔ اس طرح29سالہ سروس کا خاتمہ ان کی زندگی کے ساتھ ہی ہوا۔ رب کریم تینوں شہداء کے درجات بلند کرے ،آمین۔