پاناما پیپرزسے پیراڈائز لیکس۔۔۔ مقاصد کیا ہیں؟
شیئر کریں
اس وقت دنیا میں منی لانڈرنگ اور مالیاتی کرپشن کو سب سے بڑا جرم قرار دیا جارہا ہے، مغرب اور مشرق کے بہت سے تجزیہ کار اسے عسکری دہشت گردی سے بھی بڑا جرم قرار دے رہے ہیں۔ پانامہ لیکس میں دنیا بھر کے بڑی بڑی سیاسی اور عسکری شخصیات اور ان کی لوٹی ہوئی دولت سے قائم شدہ غیر قانونی آف شور کمپنیوں کے نام فاش کردیئے تھے ۔ ان میں پاکستان کے شریف خاندان کے علاوہ تین چار سو نام اور بھی شامل تھے یہی وجہ ہے کہ شریف خاندان تو اس وقت قدرت کی پکڑ میں آتا دکھائی دیتا ہے۔ ان تمام معاملات میں ایک پہلو اس لیے اچھا کہیں گے کہ اس قسم کے انکشافات سے اپنے اپنے ملکوں کے بڑے ٹیکس چور اور لٹیرے سیاسی مافیا بے نقاب ہورہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایسا اب ہی کیوں ہورہا ہے؟ اب پانامہ لیکس کے بعد پیراڈائز لیکس بھی جاری ہوچکی ہیںجس میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کا نام بھی شامل ہے جس کا مطلب کہ یہاں جو بھی حکمرانی کے لیے آتا ہے وہ ملک کو لوٹتا ہے۔خلیجی ممالک کے حکمرانوں کے ناموں کے ساتھ ساتھ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کے علاوہ امریکی صدر ٹرمپ کے چودہ سے زائد قریبی ساتھیوں کے ناموں کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ شریف خاندان کے حوالے سے قطری خط سے موسوم سابق قطری وزیر اعظم حماد بن جاسم کا بھی نام سامنے آچکا ہے۔
امریکا اور مغرب میں تو منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کا کام نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے جاری ہے وہاں اس سے پہلے کبھی ایسے ’’انکشافاتـ‘‘ سامنے نہیں آئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب سرد جنگ کا زمانہ آیا اور اس سرد جنگ کے دوران کہیں کوئی محاذ گرم ہوا تو دنیا بھر کے خوبصورت مقامات میں جائیدادوں کی قیمت بڑھ جایا کرتی تھی کیونکہ ان جنگوں میں ملوث ہونے والے مغربی ملکوں کے جرنیلوں خاص کر امریکی کانگریس ارکان، سینیٹرز اور جرنیلوں کے فرنٹ مین دنیا بھر میں قیمتی جائیدادیں تلاش کرنے نکل کھڑے ہوتے ۔۔۔ یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ نصف صدی سے زیادہ عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔اس کی تازہ مثال افغانستان کی جنگ ہے جو امریکا کی قیادت میں سوویت یونین کے خلاف لڑی گئی تو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈز کی زیر نگرانی پہلے سے موجود بینکوں کے علاوہ چند اور بینک بھی تشکیل دیئے گئے جن کے ذریعے دنیا بھر سے دولت اس جنگ کی خاطر جمع کی جاتی اور انہی بینکوں کے ذریعے اس دولت کی ٹرانزکشن ہوا کرتی تھی جو ممالک اس جنگ میں براہ راست ملوث رہے ان کے فوجی اور سیاسی حکام اپنے اپنے ملکوں کے امیر ترین افراد میں شمار ہونے لگے ،اس کام کے لیے بڑا سرمایہ منشیات سے بھی حاصل کیا گیالیکن کبھی کسی میڈیا پر اس قسم کی خبریں افشا نہیں ہونے دی گئی کیونکہ میڈیا کے مالکان بھی یہی افراد ہوا کرتے تھے یا ان کے مالکان پر سیاسی اور عسکری شخصیات کادبائو ہوتا تھالیکن اب ایسا کیا ہوگیا کہ یہ انکشافات اچانک ہورہے ہیں۔۔ کیوں؟
اس کیوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ انٹرنیشنل مانیٹری سسٹم یا دجالی صہیونی مالیاتی نظام کو سمجھیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں مانیٹری سسٹم تبدیل کیا جارہا ہے۔ ایک وقت تھا جب دنیا بھر میں لین دین سونے اور چاندی کے ذریعے ہوتا تھا سو برس پہلے تک اس عالمی تجارت میں سود کا استعمال ممنوعہ تھا پھر ایسا ہوا کہ عالمی صہیونی مانٹری نظام قائم کیا گیا جس کے ذریعے تمام دنیا کو پابند کیا گیا کہ سونے چاندی کو بطور کرنسی استعمال کرنا جرم ہوگا اس کی جگہ کاغذ کی بوگس کرنسی کو رائج کروا کر سونے چاندی پر صہیونی ساہوکار بینکروںنے اپنا قبضہ جما لیا اور پھر اس نظام کو ستر برس تک استعمال کرکے پوری دنیا کی معیشت اپنے ہاتھوں میں لے لی ۔اب اس نظام کو بھی نئے تقاضوں کے تحت بدلنا مقصود ہے تاکہ دنیا بھر کے ہر انسان پر اس کے مقامی بینک کے ذریعے نظر رکھی جاسکے کہ وہ اپنا مال کہاں خرچ کررہا ہے۔ اس سلسلے میں پیپر کرنسی کو متروک قرار دیا جائے گا اسی لیے منی لانڈرنگ کے اسکینڈل اب تشت ازبام کیے جارہے ہیں تاکہ عوام کے اندر اس کے خلاف نفرت پیدا کی جائے کہ اس طرح کی کرنسی تو غیر محفوظ ہے اور طاقتور سیاسی اور عسکری لوگ اسے لوٹ کر دنیا میں کہیں بھی آف شور کمپنی بناکرچھپا سکتے ہیں۔۔۔ اور اس وجہ سے بڑے بڑے ملک اور قومیں معاشی طور پر دیوالیہ ہوسکتی ہیں۔
پاکستان جیسے غریب ملکوں میں سیاسی حکمرانوں کو جان بوجھ کر مالیاتی کرپشن کی کھلی چھٹی دی جاتی ہے ان کی لوٹی ہوئی قومی دولت کو مغرب میں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے لیکن خود امریکا اور برطانیا کی سیاسی اور عسکری اشرافیہ تاریخ کے دور سے لے کر اب تک اس شعبے میں کیا گل کھلاتی رہی ہے اس حوالے سے ساٹھ کی دہائی سے لے کر اب تک کئی تحقیقی اور ناقابل انکار حقائق پر مبنی کتابیں شائع ہوتی رہی ہیں اس سلسلے میںمثال کے طور پر برطانوی مصنف نیکولس گلبی کی کتاب Deception in High places پیش کی جاسکتی ہے جس میں ساٹھ کی دہائی سے لے کر موجودہ زمانے تک برطانیا کی اسلحے کی تجارت میں جو دولت غیر قانونی طور پر کمائی گئی اور پھر اسے دنیا کے مختلف حصوں میں ٹھکانے لگایا گیا اس کی تفصیلات درج ہیں۔برطانیا میں ہی شائع ہونے والی کتاب History of corruptionمیں بتایا گیا ہے کہ کس طرح برطانوی ہند میں تعیناتی کے لیے سول اور عسکری بیوروکریسی کے افراد برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان کورشوتیں دیا کرتے تھے اس کے بعد ہندوستان میں تعیناتی کے دوران جو دولت لوٹ مار کے ذریعے حاصل کی جاتی تھی اسے کس طرح برطانیا اوراور اس کی دیگر کالونیوں میں جائدادیں خریدنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھااور بعد میں یہ برطانوی لٹیرے ’’لارڈز‘‘ بن جایا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں بے شمار کتابیں امریکا اور لاطینی امریکا کے ملکوں میں بھی لکھی گئی ہیں۔
ماضی میں چونکہ میڈیا اس قدر طاقتور اور موثر نہیں ہوتا تھا اور میڈیا کا زیادہ تر حصہ اخبارات پر مشتمل ہوتا تھا جس تک ایک خاص اورپڑھے لکھے طبقے کی ہی رسائی ممکن تھی اس لیے بڑے معاشی معاملات کبھی دنیا کے سامنے نہیں لائے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت انٹرنیشنل مانیٹری سسٹم کے ذریعے سونے اور چاندی کو لین دین کے لیے ممنوعہ قرار دیا گیا اس وقت عام انسان نے اس جانب توجہ ہی نہیں دی ہوگی۔ لیکن اب چونکہ میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا عام ہے اس کے ساتھ ساتھ انٹر نیٹ نے تمام دنیا کو دجالی خواہشات کے تحت ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے اس لیے اب بڑی مالیاتی تبدیلی کا تقاضا ہے کہ پانامہ اور پیراڈائز لیکس جیسے اسکینڈلز کو سامنے لاکردنیا بھر میں تشویش پیدا کی جائے چاہئے امریکا سے لے کر جاپان تک حکومتوں اور سیاسی لیڈروں کا بیڑا غرق ہی کیوں نہ ہوجائے کیونکہ دنیا کا موجودہ صہیونی مالیاتی نظام ان صہیونی افراد کے ہاتھوں میں ہے جو ’’بڑے مقاصد‘‘ کے لیے امریکا جیسے ملک کو بھی قربانی کا بکرا بنا سکتے ہیں۔ اس لیے چاہئے کتنے ہی امریکی اور نیٹو کے فوجی افغانستان میںمر جائیں جب تک عالمی صہیونی بینکر نہیں چاہیں گے اس وقت تک امریکی انتظامیہ فوجوں کی واپسی کے اعلان کی جرات نہیں کرسکتی۔
(جاری ہے)