میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکی انتخابات اورعالم اسلام کامستقبل

امریکی انتخابات اورعالم اسلام کامستقبل

منتظم
جمعرات, ۱۷ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

hafiz-muhammad-saeed-logo

پروفیسر حافظ محمد سعید
ریاست ہائے متحدہ امریکا کے انتخابات کے نتائج نے دنیابھرکے مبصروں او رتجزیہ نگاروں کوحیران وششدر کردیا ہے۔الیکشن کے متعلق بڑے بڑے تھنک ٹینکس کے تجزیئے، تبصرے، سروے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ڈیموکریٹک پارٹی کی خاتون امیدوار کی شکست اورری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو رواں صدی کا سب سے بڑا اپ سیٹ قراردیا جارہا ہے۔لیکن انتخابات کے بعد 32کروڑ 50لاکھ آبادی کے حامل،96لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے دنیا کے تیسرے بڑے ملک امریکا کو جس صورت حال کاسامنا ہے وہ ہرگز غیرمتوقع نہیں ہے۔اس لیے کہ امریکا کی بنیاد جس استحصالی،غیر منصفانہ ،سفاکانہ اور سودی نظام پر رکھی گئی ہے اس کے نتیجے میںآخر یہ سب کچھ ہونا ہی تھا۔امریکا ایک عرصہ تک دنیا کونفرت،نسلی تعصب ،سازشوں، خون ریزی کی آگ میں جھونک اور سودی قرضوں کے جال میں جکڑ رہا تھا،آج خود اس کاسامنا کررہاہے۔امریکا کے موجودہ بحران پربات کرنے سے پہلے مختصراََ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ استحصالی نظام پر قائم یہ ملک عالمی سطح پر کب، کیسے معروف ہوااوراب جس تیزی سے یہ اپنے انجام وزوال کی طرف بڑھ رہا ہے تو اس کے اسباب کیا ہیں۔۔۔۔؟
برطانیہ نے سولہویں صدی میں ” ریاست ہائے متحد ہ امریکا“ پر قبضہ کیا جو ڈیڑھ سوسال تک رہا۔ برطانوی حکمرانوں نے جس طرح برصغیر میں عیسائیت کو سرکاری سطح پر مسلط کیا اور مشنریوں کے ذریعے متعارف کروایا بعینہ امریکا میں بھی عیسائیت کی تبلیغ کی گئی یہاں تک کہ عیسائیت امریکا کا سب سے بڑامذہب بن گیا۔ بعدازاں امریکا میں برطانوی استعمار کے خلاف آزادی کی خونریز اور پر تشدد تحریکیں شروع ہوئیں جو آخر کار مارچ 1782ءمیں امریکا کی آزادی پر منتج ہوئیں۔اس طرح ”ریاست ہائے متحدہ امریکا “کے نام سے دنیا کے نقشے پر ایک ملک معرض وجود میںآیا۔پہلی جنگ عظیم شروع ہونے سے پہلے تک امریکا علاقائی سطح تک محدود تھا اورعالمی سطح پر اس کا کوئی کردار نہ تھا۔اس جنگ کی وجہ سے امریکا کوپہلی دفعہ عالمی سطح پرکرداراداکرنے ،معیشت کو مضبو ط اور اسلحے کی صنعت و تجارت کو وسیع تر کرنے کا موقع ملاجبکہ دوسری جنگ عظیم نے اسے معاشی وعسکری طور پر مستحکم اور مضبوط ترین کردیا ۔وجہ یہ تھی کہ ان دو جنگوں میں امریکا کا جانی ومالی نقصان متحارب اتحادی ا ورمحوری ممالک کی نسبت سب سے کم لیکن فوائد سمیٹنے میں امریکا سب سے آگے رہا۔پہلی جنگ عظیم کے المناک سانحہ کو آج ایک صدی ہوچلی ہے لیکن اس جنگ میں شریک ممالک کا جو جانی ومالی نقصان ہوااس کی تفصیل یقینا آج بھی قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔اس جنگ میںفرانس کے 10لاکھ،جرمنی کے ساڑھے بارہ لاکھ اور برطانیہ کے پانچ لاکھ فوجی ہلاک ہوئے۔ برطانیہ کے چار کھرب9 ارب ڈالر،فرانس کے 3 کھرب 36 ارب ڈالر، جرمنی کے 4کھرب اور70ارب ڈالر کے خطیر اخراجات ہوئے جبکہ امریکا کا اس جنگ میں کل خرچ ایک کھرب 98ارب ڈالرتھااور امریکا کے جوفوجی ہلاک ہوئے وہ صرف 50ہزار تھے۔یہی حال دوسری جنگ عظیم کا تھا ۔
جہاں تک فوائد سمیٹنے کاتعلق ہے اس کی تفصیل کچھ یوں تھی۔پہلی جنگ شروع ہونے سے پہلے امریکا کی کل سالانہ قومی آمدن 39ہزار ملین ڈالر تھی جو جنگ کے خاتمہ پر77ہزارایک سوملین ڈالر تک جاپہنچی تھی۔جنگ شروع ہونے سے پہلے امریکا کے پاس سونے کے ذخائرکی کل مالیت 1526 ملین ڈالر تھی اور جنگ کے خاتمے پر یہ ذخائر 2873ملین ڈالر ہوچکے تھے۔دوسری جنگ شروع ہونے سے دو سال بعدامریکی سونے کے ذخائر کی مالیت 12ہزار390ملین ڈالر تھی اور تین سال بعد یہ مالیت بڑھ کر 24ہزار399ملین ڈالر تک جاپہنچی تھی۔علاوہ ازیں دنیا کے تمام سرمایہ دار ممالک کے سونے کے ذخائر کا تقریباََ تین چوتھائی امریکی بینکوں میں پہنچ چکا تھا۔امریکا کے کم جانی و مالی نقصان کی وجہ یہ تھی کہ یہ جنگیں امریکا کے ساحلوں اور سرحدوں سے دورلڑی گئی تھیں۔ دیگر تمام اتحادی اور محوری ممالک براہ راست میدان جنگ بنے ہوئے تھے ان کی صنعتیں،مارکیٹیں اور اسلحہ تیار کرنے کے کارخانے تباہ ہوچکے تھے۔امریکی صہیونی ساہو کاروں، صنعت کاروں اوراسلحہ سازوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے دھڑا دھڑ اسلحہ تیار کرکے اتحادی ممالک کو بیچا، بینکوں نے بھاری سود پر قرضے دیے اور امیر سے امیر ملک کوبھی سودی قرضوںکے جال میں جکڑ لیا۔ ایک مبصر کے مطابق اس جنگ میں جتنے فوجی ہلاک ہوئے ان میں سے ہرفوجی کے بدلے امریکی ساہو کاروں ، سرمایہ داروں اور بینکاروں نے10ہزارڈالر منافع کمایا تھا۔اس پس منظر میں بخوبی اورباآسانی سمجھا جاسکتاہے کہ ان جنگوں میں امریکی بینکوں نے جو تجوریاں بھریں اور ساہوکاروں نے جواندھادھند ڈالرکمائے ان میں سے ہرڈالر بیگناہوں کے خون سے لتھڑاہوا ، بھاری سودی قرضوں میں جکڑا ہوا اورمردہ انسانی جسموں کی سڑاند میں اٹا ہوا تھا۔ گویا امریکا کے معاشی، صنعتی، عسکری، تجارتی استحکام کی عمارت،وائٹ ہاﺅس، پینٹاگان،ورلڈٹریڈ سینٹر، ٹرمپ ٹاور جیسی فلک بوس عمارتوں کی رعنائی وزیبائی وتعمیر وترقی کروڑوں انسانوں، معصوم بچوں، بچیوں ، بوڑھوں ،جوانوں، خواتین کی ہڈیوں ،کھوپڑیوں اور سودی قرضوں پر ایستادہ ہے۔
شاعر مشرق علامہ محمدقبال نے اس حقیقت کوان الفاظ میں بیان کیا تھا
ظاہر میں تجارت ہے،حقیقت میں جواہے
سودایک کالاکھوں کے لیے مرگ ِ مفاجات
پہلی جنگ عظیم جنگ کی ابتدا 28جولائی 1914ءکوآسٹریا ،ہنگری کے ولی عہد فرانسس فرڈینینڈ کے قتل سے ہوئی تھی قاتل اور مقتول دونوں مذہباََ عیسائی تھے لیکن انتہائی تکلیف دہ اور حیرت انگیزامریہ تھا کہ اس جنگ کی سزا مسلمانوں کو ملی ۔ اتحادی ممالک کے سربراہ برطانیہ نے 4 نومبر 1914ءکو خلا فت عثمانیہ کے خلاف اعلان جنگ کردیا اورتین براعظموں پر پھیلی خلافت کے حصے بخرے کرکے فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔دوسری جنگ عظیم کے بعدجب برطانیہ زوال پذیر ہوگیا اورتمام نوآبادیاتی ممالک اس کے پنجہ وشکنجہ سے نکل گئے توبرطانیہ کی جگہ امریکا نے لے لی۔ 24 اکتوبر 1945ءکو امریکی چھتری تلے اقوام متحدہ کاقیام عمل میں لایا گیا تب مسلمانوںکو غلام ومحکوم بنانے ،مظالم ومصائب کی چکی میں پیسنے اوریہودیوں کی سرپرستی کا منصب برطانیہ کی جگہ امریکا نے سنبھال لیا۔چنانچہ 29 نومبر1947کوجنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 181کے ذریعے انبیاءکی سرزمین فلسطین کو دوحصوں میں تقسیم کردیاگیا ۔ برطانوی حکومت کے تعاون سے باہر سے آنے والے یہودی جوکل آبادی کاصرف 32% تھے ان کو فلسطین کا 56% زرخیز اورسر سبز وشاداب علاقہ مرحمت کردیا گیا اور بقیہ ریگستانی علاقہ فلسطینی مسلمان جو یہاں کے اصل باشندے تھے ان کودے دیا گیا۔ 14 مئی 1948ءکو یہودیوں نے ازخوداسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا تو سب سے پہلے امریکا نے اسے تسلیم کیا پھر اقوام متحدہ نے اس پرمہر تصدیق ثبت کی ۔ لاکھوں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے اور یہودیوں کی سرپرستی کا یہ پہلا امریکی معرکہ تھا جو اقوام متحدہ کی چھتری تلے لڑاگیا۔سو اس وقت سے اب تک امریکا یہودیوںکی سرپرستی کررہا اوردنیا کوسودی قرضوں میں جکڑرہا ہے ،اسلام کومٹارہااوربیگناہ مسلمانوں کی نسل کشی کررہاہے ،مسلمان ملکوں کو تباہ وبرباد دوچارکررہا اوران پرآتش وآہن برسا رہا ہے۔فلسطینی مسلمانوںکاوحشیانہ قتل عام،مشرق وسطی میں بدترین تباہی ،افغانستان اورعراق کی بربادی ، لیبیا، سوڈان، پاکستان، صومالیہ، ویتنام، کمبوڈیا، انڈونیشیا، افغانستان، ترکی، بوسنیا، کیوبا اور مصر وغیرہ الغرض دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جو امریکی مہم جوئی، سازشوں اوردہشت گردی کے جال سے بچا ہو۔خاص طور پراسلامی دنیاکو بارودکاڈھیر اورآتش فشاں بنا دیا گیاہے۔حدیہ ہے کہ اب امریکا میں اسلام دشمنی کی بنیاد پر الیکشن لڑے جاتے ہیں، اسلام کو مٹا ڈالنے، مسلمانوں کو ملک بدرکرنے کے دعوے کئے جاتے اورنعوذ باللہ بیت اللہ پرحملے کے خواب دیکھے جاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز انتخابی مہم اور کامیابی سے امریکی معاشرے پر منڈھامنافقت کانقاب اتر ااوراسلام دشمنی میں ڈوبا حقیقی چہرہ واضح ہو چکا ہے۔ اسلام، قرآن ، مسلمان،اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دشمن ایک جگہ جمع ہورہے اورصف بندی کررہے ہیں۔ٹرمپ کا یہود وہنود کی طرف جھکاﺅ بڑھ رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امریکا کب بھارت اوراسرائیل کاطرفدارنہیں رہا۔ہم سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کی اسلام دشمن ترجیحات میں اہل پاکستان اورمسلمانوں کے لیے کوئی بھی پریشانی والی بات نہیں۔سب کچھ وہی ہے جوایک عرصہ سے ہوتاچلاآرہاہے۔بش اوراوباما نے بھی اسلامی دنیاکوتباہی وبربادی سے دوچارکیا، نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کواتحادی بناکربربادکیااوربھارت کومضبوط ومستحکم کیا ہے۔
لیکن اب ٹرمپ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے امریکا کو اندرونی مسائل میں الجھا اورپھنسا دیا ہے۔کل تک دنیا بھرکے مظلوم اور ستم رسیدہ لوگ ۔۔۔امریکی پرچم نذرآتش کیا کرتے تھے، آج امریکی اپناجھنڈااپنے ہاتھوں سے جلا رہے ہیں، پرتشدد مظاہرے کررہے ہیں،سودی شاخ پربنا آشیانہ ڈھا رہے ہیں،ملک سے بھاگ رہے ہیں،دنیا کی چھٹی بڑی معیشت کی حامل امریکی ریاست کیلیفورنیااوردیگر اسٹیٹ سے علیحدگی کے ارادے بنارہے ہیں۔دنیا کو سودی قرضوں میں جکڑنے والے خود سود میں جکڑے جاچکے اور جنگ وجدل کے بازارگرم کرکے دنیا پرحکومت کرنے والے خودخانہ جنگی کاشکارہورہے ہیں۔زیادہ پرانی بات نہیں دنیا کے نقشے پر”یونین آف سویت سوشلسٹ ریپبلک روس“نام کاایک ملک تھاجواسلام، نماز، کلمہ اورقرآن کومٹادیناچاہتا تھا آج یہ ملک خوددنیاکے نقشے سے مٹ چکا ہے۔سووہ وقت آپہنچا کہ ہے ابunited states of americaمیں سے united(متحدہ)کالفظ اڑجائے گااور کمیونزم کی طرح سرمایہ داری کا یہ سفینہ ڈوب جائے گا۔ اس لیے کہ ہرعمل کاردعمل اورہرظلم کوانجام وزوال ہے۔اللہ نظام کفرکوبرداشت کرتا ہے نظام ظلم کو نہیں۔ امریکا ا و رمغرب میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اسلام ا و رمسلمانوں کے روشن و تابناک مستقبل کی نوید ہے۔چین سے بڑھتے ہوئے دوستانہ تعلقات، گوادربندرگاہ کی تکمیل، ترک صدرکا دورے پر ہرپاکستانی خوش اور شادکام ہے۔امریکا نے فلسطین اورمسئلہ کشمیر سمیت اسلامی دنیا کے تمام معاملات کو ہمیشہ الجھایاہے سلجھایا نہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک متحد ہوجائیںخصوصاََ امریکا اور حوثی باغیوں کی بلاد حرمین کے خلاف سازشوںکو ناکام بنانے کے لیے ایک دل ویک جان ہوجائیں ۔اپنے مسائل ومعاملات کے حل کے لیے اللہ کی طرف رجوع کریں ،ا سی سے ہی مددمانگیں ۔وہی قوت وطاقت، عزت وذلت، زمین وآسمان کا مالک اوربہترین مددگار وکارساز ہے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں