اخلاقی زوال اور حقوق نسواں
شیئر کریں
سید عامر نجیب
وطن عزیز کے بنیادی مسائل میں ایک نہایت اہم مسئلہ اخلاقی زبو ںحالی ہے۔ دراصل اخلاقی اعتبار سے قوموں کا بگڑنا انکے مسائل میں ام المسائل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اخلاقی بگاڑ زندگی کے تمام شعبوں پر اپنے منفی اثرات چھوڑتا ہے ۔ ریاست کے تمام ادارے اور معاشرے کی تمام اکائیاں اسکی زد میں آتی ہیں اور اپنا کردار تباہ کر بیٹھتی ہیں ۔ قوموں کا اخلاقی زوال سیاسی ، معاشی اور سماجی زوال کا سبب بن جاتا ہے ۔ اخلاقی بگاڑ کا ایک نتیجہ حقوق کی فراہمی اور فرائض کی ادائیگی کے بحران کی صورت میں برآمد ہوتا ہے اسی لیے حقوق کی سب سے زیادہ تحریکیں اخلاقی بگاڑ میں مبتلا معاشروں میں ہی چلائی جاتی ہیں ۔ہمارا اپنا ملک بھی اسکی ایک مثال ہے ، یہاں ہر فرد اور ہر گروہ اپنے حقوق کا سوال کرتا نظر آتا ہے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ واقعی یہاں ہر ایک کے حقوق پامال ہو رہے ہیں ۔ عورتوں کے حقوق، بچوں کے حقوق ، والدین کے حقوق ، مزدوروں کے حقوق ، ملازموں کے حقوق ، شہریوں کے حقوق ، اساتذہ کے حقوق ، طلباءکے حقوق ، پیدل چلنے والوں کے حقوق ، بجلی ، پانی اور گیس صارفین کے حقوق ، سندھیوں کے حقوق ، مہاجروں کے حقوق، دیو بندیوں کے حقوق ، بریلویوں کے حقوق۔۔۔ یعنی ہر طرف حقوق ہی کا سوال ہے ہر سیاسی پارٹی اور ہر مذہبی جماعت حقوق کے لیے میدان میں نکلی ہے ۔جہاں تک رہا فرائض کی ادائیگی کا معاملہ تو اس بارے میں کوئی بھی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
حقوق و فرائض کا معاملہ ایک دوسرے سے تعلق رکھتا ہے کسی کے فرض ادا کرنے سے کسی کو اس کا حق مل جاتا ہے، جب ہر ایک اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کرے تو خود بخود وسروں کو حقوق ملتے ہیں ۔ پھر کسی کو حقوق کے لیے تحریک چلانے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ حقوق و فرائض کی زیادہ تر نوعیت اخلاقی ہوتی ہے، اسکا تعلق نفاذ قانون سے بہت کم ہوتا ہے اسی لیے حقو ق و فرائض کے معاملے میں تعلیم و تربیت اور شعور کی فراہمی پر انحصار کرنا ہی بہتر ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں ہر مسئلے کا حل قانون سازی کر کے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ کامن سینس کی بات ہے کہ جس معاشرے میں قانون کا احترام ہی نہ ہو اور جہاں حکمرانوں سے لے کر عام آدمی تک قانون شکنی کا مرتکب ہو رہا ہو وہاں محض قانون سازی کے ذریعے مسائل سے کس طرح نبٹا جا سکتا ہے ۔ خواتین کے حقوق کے بارے میں عالمی برادری اور عالمی میڈیا انتہائی حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں جسکی وجہ سے ہمارے جیسے ملکوں کی حکومتیں دباﺅ کا شکار ہو کر قانون سازی کے ذریعے حقوق نسواں کی چیمپیئن بننے کی کوشش کرتی ہیں ۔ پاکستان کا میڈیا بھی مغربی میڈیا کے زیر اثر حقوق نسواں کے مسئلے کو اجاگر کرنے میں لگا رہتا ہے ۔ حالانکہ پاکستان میں صرف خواتین کے حقوق کا اکلوتا مسئلہ نہیں یہاں ہر طبقے اور ہر گروہ کے حقوق کا مسئلہ ہے اور اس کا بنیادی سبب تربیت کا فقدان ہے۔ تعلیم و تربیت درست ہو جائے تو ہر چیز اپنی ترتیب میں آجائیگی ۔
دنیا اگرچہ گلوبل ولیج بن چکی ہے لیکن جس طرح سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سیاست علاقائی ہوتی ہے اسی طرح مسائل بھی علاقائی ہوتے ہیں ۔ ایک جیسے مسائل بعض اوقات الگ الگ اسباب کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اس لیے مسائل کا تجزیہ بھی علاقائی ہی کار آمد ہو سکتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستانی خواتین کی بہت بڑی تعداد ظلم سہنے پر مجبور ہے لیکن اسی پاکستان میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے کہ جنھیں مغربی خواتین کے مقابلے میں زیادہ تحفظ ، زیادہ احترام اور زیادہ حقوق مل رہے ہیں ۔ اس تضاد کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا مسئلہ قانون ساز ی کا نہیں تربیت سازی کا ہے جن گھرانوں اور خاندان میں تعلیم و تربیت کا اہتمام ہے وہاں عورتوں کو پورے حقوق حاصل ہیں اور جہاں ایسا نہیں ہے وہاں قوانین کی موجودگی میں بھی عورتوں کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔
پاکستان میں خواتین کے ساتھ کیے جانے والے ناروا سلوک کی کئی اقسام ہیں اور زیادہ تر مظالم کے پس پردہ مردوں کے بجائے خود عورتیں ہی دیکھی جا سکتی ہیں ۔ اسکی بڑی وجہ ایک تو یہ ہے کہ خواتین میں تعلیم کا تناسب کم ہے اور دوسری بڑی وجہ کہ اسلامی تعلیم سے عورتیں مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ دور ہیں ۔مردوں کو پھر بھی جمعے کے خطبات اور نمازوں کے بعد دروس میں اللہ اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی باتیں سننے کے مواقع ملتے رہتے ہیں لیکن عورتوں کی تربیت ٹی وی کے ڈراموں، فلموں اور مارننگ شوز کے ذریعے ہو رہی ہے ۔ اردو ڈراموں کا خاص ٹرینڈ عورتوں کی آپس کی لڑائیاں ، حسد ، بغض اور نفرت کا اظہار اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کی جانے والی سازشیں ہیں ۔ مردوں کے ظلم سے انکار نہیں گھریلو تشدد ، ذہنی ٹارچر ، نفسیاتی دباﺅ ، دھونس اور دھمکی کا استعمال اور عورتوں کو جائز حق ِ وراثت ، محبت ، جذباتی تسکین اور نان نفقے سے محرومی جیسی لاتعداد مثالیں ہمارے معاشرے میں پائی جا رہی ہیں لیکن کیا اس مسئلے کا حل محض قانون سازی ہے ؟
گزشتہ روز اسلامی نظریاتی کونسل جیسے آئینی ، علمی اور تحقیقی ادارے میںمردوں کے حقوق سے متعلق بل لانے کی درخواست منظور کی گئی ہے جسے اخبارات نے نمایاں کر کے پیش کیا ہے ۔ کونسل کے ممبر زاہد محمود قاسمی نے اپنی درخواست میں موقف اختیا ر کیا تھا کہ بعض خواتین بھی مردوں پر تشدد کر کے انکے ہاتھ توڑ دیتی ہیں ، مردوں کو گھروں سے دھکے دے کر نکال دیا جاتا ہے، اس لیے مردوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے ۔زاہد محمود قاسمی صاحب نے جس مسئلے کی نشاندہی کی ہے وہ بھی اپنی جگہ بالکل درست ہے، ہمارے معاشرے میں ایسی مثالیں بھی کثرت سے پائی جا رہی ہیں جہاں مرد عورتوں کی زیادتی کا شکار ہیں لیکن مسئلے کا حل قانون سازی نہیں بلکہ تعلیم و تربیت ہی ہے۔ آخر کب ہم مسائل کی درست تفہیم اور صحیح حل کرنے کے قابل ہونگے ؟
٭٭