گالیاں کھا کے بھی وہ بے مزہ نہ ہوا
شیئر کریں
اشتیاق احمد خان
ہندوستان نے پاکستان کو سفارتی، اقتصادی و سماجی ہر میدان میں تنہا کرنے کے لیے کیا کیا حربے استعمال نہیں کیے ہیں۔کھیلوں کے میدان ہوں یا بین الاقوامی سطح کی تنظیموں کے اجلاس جہاں جہاں بھارت کو موقعہ ملا ہے اس نے پاکستان کو تنہا کرنے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے، اب یہ علیحدہ معاملہ ہے کہ وہ کس حد تک کامیاب رہا ہے۔
کشمیر کسی ملک کا حصہ نہیں ہے ،متنازع علاقہ ہے اور اس کو متنازع قرار دلوانے اور کشمیریوں کی رائے کے مطابق الحاق کا فیصلہ کرانے کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع بھی پاکستان یا کشمیری قیادت نہیں بلکہ بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کیا تھا۔ 1948کی جنوری میں پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ کے فورم پر پوری دنیا سے وعدہ کیا تھا کہ کشمیریوں کو اپنی رائے کا آزادانہ استعمال کا موقع دیا جائے گا اور اس رائے کا احترام کیا جائے گا۔
بھارتی کانگریس کی باگ ڈوراور بعد ازاں بھارتی حکومت کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں رہی ہے وہ چانکیہ سیاست کے پیروکاروں پر مشتمل ہے۔ چانکیہ سیاست کیا ہے ؟ یہ جاننے کے لیے ہندودھرم کا مطالعہ اور ہندوانہ سوچ کا مشاہدہ کرنا ہو گا۔ہندو دھرم کی بنیاد دیوی دیوتاو¿ں کے کاندھوں پر رکھی گئی ہے۔ان دیوی دیوتاو¿ں کی تعداد سینکڑوں اور ہزاروں نہیں لاکھوں میں بھی نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے ۔انسانوں کوہی دیوی دیوتا کا درجہ نہیں دیتے بلکہ جانوروں کو یہ مقام عطاءکرنے میں بھی بہت فراخ ہیں۔ہر وہ شے یا انسان جس سے خوف و خطرہ ہو اس کو فوراً دیوی دیوتا کا درجہ دے کر پوجنا شروع کر دو، یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کے باوجود گنیش جی اپنی چیڑپھاڑ اور ہنومان جی اپنی ماردھاڑ سے باز نہیں آتے۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں سارک سربراہ کانفرنس طے تھی، بھارت نے برہان وانی کی شہادت سے کشمیر میں پیدا ہونے والی صورتحال اور بھارت میں نام نہاد دہشت گردی کو بنیاد بنا کر ناصرف اس کانفرنس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا بلکہ بنگلا دیش ،افغانستان ،نیپال اور بھوٹان کو بھی اس کانفرنس کے بائیکاٹ پر مجبور کیا ۔بنگلا دیش، نیپال اور بھوٹان بھارت کی ہمسایہ ریاستیں ہیں لیکن بھارت انہیں ہمسایہ نہیں طفیلی ریاستیں بنا کر رکھنے پر بضد ہے، یہ تو سیاسی میدان تھا اور سیاست میں یہ منافقت عام ہے ۔
آئی سی سی کے ضوابط کے مطابق کرکٹ کے میدانوں کو سیاست سے پاک رکھنا اور آئی سی سی کے طے شدہ شیڈول پر عمل کرنا رکن ممالک کے لیے لازم ہے لیکن بھارت اپنی مارکیٹ اکانومی کی بنیاد پر دنیا کے کسی بھی ادارے کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہے۔گزشتہ دس سال سے بھارت نے آئی سی سی شیڈول کے مطابق پاکستان سے پاکستان میں کوئی سیریز نہیں کھیلی ہے۔گزشتہ دنوں بھارت میں کبڈی کا عالمی کپ منعقد ہوا لیکن بھارتی حکومت نے اس مقابلے میں شرکت کے لیے بھی پاکستانی ٹیم کو ویزے فراہم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔بنگلا دیش کی جانب سے آئی سی سی شیڈول کے مطابق پاکستان کا دورہ کرنے پر آمادگی کے بعد دباو¿ ڈال کر بھارت نے اس کو اس دورے سے دور رکھا ہے ۔
یوں تو بھارت ہمسایہ ممالک پر دہشت گردی پروان چڑھانے اور ایکسپورٹ کرنے کا الزام عائد کرتا رہتا ہے۔ لیکن اس کا اپنا کیا کردار ہے، اس کی فورسز کے اعلیٰ سطحی افسران بھی باقاعدہ جاسوسی اور تخریب کاری میں ملوث ہیں لیکن معاملہ اس ہی پر ختم نہیں ہوتا، سفارت کاری کے بین الاقوامی آداب کے برخلاف بھارت کے سفارت کار اصل فرائض چھوڑ کر میزبان ملک میں جاسوسی اور تخریب کاری کی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔جس کا ثبوت اسلام آباد میں جاسوسی اور تخریب کی منصوبہ بندی کرتے رنگے ہاتھوں گرفتاری ہے۔پہلے تو بھارت نے کوشش کی کہ سفارت کاری کی آڑ میں جاسوسی اور تخریب کاری کرنے والے ان سفارت کاروں کے نام ظاہر نہ ہوں اور نہ ہی ان کی تصاویر اخبارات کی زینت بنیں اور دنیا ان چہروں سے آشنا ہو کر انہیں اپنے ممالک میںبطور سفارت کار قبول نہ کریںلیکن اس میں پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان آڑے آئے اور انہوں نے ان دھوکا بازوں کے چہرے پر پڑا نقاب نوچ کر ان کی تصاویر اخبارات کی زینت کر دی ۔یوں پوری دنیا کو معلوم ہو گیا کہ بھارت کے سفارت کار پیشہ ور نہیں بلکہ اس آڑ میں میزبان ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتے ہیں۔
لائن آف کنڑول اور بین الاقوامی سرحدوں پر مسلسل بھارتی جارحیت کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مقامی آبادی متاثر ہوئی ہے ۔بھارتی گولہ باری کے بعد آبادی سرحدی علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہے ۔ بیسیوں مردو خواتین اور بچے ہی نہیں کافی تعداد میں پاکستانی فوجی بھی شہید ہو چکے ہیں۔ہر شہید ہونے والا پاکستانی ہے ، یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ شہید ہونے والے کا رینک کیا تھا۔وہ پاک فوج کا سرمایہ تھا جو بھارتی درندگی کا شکار ہوا ہے۔ زخمی اور معذور ہونے والوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہیں۔ کیا اس صورتحال میں بھی ہر قیمت پر بھارت سے تعلقات کی خواہش قومی حمیت کا سودا نہیں ہے؟
پاکستان اور بھارت میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ سیکرٹری سطح کے معاملات بھی ممکن نہیں ہیں، اس خطے میں ہونے والی کسی بھی کانفرنس کی اہمیت اسی وقت ہوتی ہے جب اس میں پاکستان بھی شریک ہو۔سارک سربراہ کانفرنس کی منسوخی کا واحد سبب بھی بھارت کی ہٹ دھرمی ہے ۔اب وقت ہے کہ بھارت کو اسی کی زبان میں جواب دیا جائے۔ ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس افغانستان کے معاملات کی بابت اہم کانفرنس ہے، افغانستان کے معاملات میں بھارت کا تعلق پانچ فیصد بھی نہیں ہے اور پاکستان 95 فیصد معاملات کے ثمرات اور مضمرات میں حصہ دار ہوتا ہے ۔ یہ کانفرنس بھارت میں ہو رہی ہے، قومی غیرت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس کانفرنس کا ہی نہیں ہر اس پروگرام کا بائیکاٹ کیا جائے جو بھارت میں ہو۔لیکن اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ حکمران طبقہ ہر قیمت پر بھارت سے تعلقات چاہتا ہے، باقاعدہ جاسوس کی گرفتاری سفارت کاری کے نقاب میں جاسوسوں ،دہشت گردوں ،تخریب کاروں کی تعیناتی اور پکڑے جانے پر اظہار ندامت کے بجائے سنگین نتائج کی دھمکی بھارتی عزائم ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارت میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شریک ہونے پر اصرار ظاہر کرتا ہے کہ اس” طبقہ اشرافیہ” کو اپنے مفادات عزیز ہیں ،پاکستان کا وقار نہیں ۔
حکمرانوں کی بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے دلچسپی کا انداز ہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت اپنی مدت کا تقریباً70 فیصد وقت پورا کر چکی لیکن علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں کسی فعال اور معاملات سے کماحقہ باعلم شخص کووزیر خارجہ نہ بنا سکی ۔اگر نواز شریف صاحب کی ٹیم میں اس منصب کا کوئی اہل نہیں تو پھر انہیں اپنی اداو¿ں ،سیاسی سوجھ بوجھ اور طرز حکمرانی پر غور کرنا چاہیے۔خارجہ معاملات سے وابستہ دوسرا شخص طارق فاطمی تو دوہری شہریت کا حامل ہے ، اس کا پورا خاندان امریکا میں ہے اور وہاں کا شہری ہے۔ طارق فاطمی اپنے عہدے کے باعث کبھی کبھی پاکستان میں ہوتے ہےں ۔سرتاج عزیز اور طارق فاطمی اس وقت عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں ایسے متحرک شعبے میں کام کرنا ان کے بس میں نہیں ہے ۔عمر کے اس حصے میں سوچنے سمجھنے اور فوری فیصلہ کرنے کی وہ صلاحیت موجود نہیں رہتی جو ان مناصب کا تقاضہ ہے۔ وزارت داخلہ میں ایک متحرک فرد کی موجودگی کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں، ملک میں امن بحال ہو رہا ہے ، ایک دو واقعات تو بڑے بڑے ممالک میں بھی ہوجاتے ہیں ، پاکستان تو اس وقت امن وامان کے حوالے سے دنیا کے مشکل ترین خطے میں ہے ، پھر چاروں طرف موجود دشمن وار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتا ۔
اس وقت دشمنوں کو منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے جو بائیکاٹ کی شکل میں ہو سکتاہے۔ایک دو کانفرنسوں کی ناکامی بھارت کا دماغ ٹھکانے لا سکتی ہے اور اسے پڑوسیوں کو غلام نہیں ہمسایہ سمجھنے پر مجبور کر سکتی ہے ، باقی فیصلہ تو جس طبقے نے کرنا ہے اس کی عقل ودانش کا حال سب ہی جانتے ہیں ہم کیا عرض کریں۔
٭٭