شہید ملت اور عام شہری
شیئر کریں
میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت خان لیاقت علی خان کوشہید ہوئے آج 72 برس بیت گئے۔ 16اکتوبر1951کو راولپنڈی کے اس وقت کے کمپنی باغ اور اب لیاقت باغ میں شہید کردیا گیا تھا۔لیاقت علی خان بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے دیرینہ رفیق،تحریک پاکستان کے ہراول دستے کے رہنما تھے جو یکم اکتوبر 1895ء کوکرنال میں پیدا ہوئے۔ آپ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ بھی رہے۔ آپ ایک قابل وکیل اور پاکستان کی سرکردہ شخصیات میں سے ایک تھے۔ آپ نے نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ سب سے پہلے انڈین نیشنل کانگریس میں مدعو کیے جانے کے بعد انہوںنے آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہونے کا انتخاب کیا۔لیاقت علی خان نے ہی 1949 میں قرارداد مقاصد کو جاری رکھتے ہوئے پاکستان کو ایک اسلامی جمہوریت قرار دیا تھا۔ انہوں نے 1947 سے لے کر 1951 میں اپنے قتل تک پہلے وزیر خارجہ، وزیر دفاع، اور سرحدی علاقوں کے وزیر کے طور پر کابینہ کا قلمدان بھی سنبھالا۔ ہندوستان جس کی قیادت اس وقت کے وائسرائے لوئس ماؤنٹ بیٹن نے کی۔ لیاقت علی خان نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) میں تعلیم حاصل کی 1918 میں پولیٹیکل سائنس میں بی ایس سی اور ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1918 میں اپنی کزن جہانگیرہ بیگم سے بھی شادی کر لی۔1919 میں اپنے والد کی وفات کے بعد لیاقت علی خان نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایکسیٹر کالج میں داخلہ لیا 1921 میں لیاقت علی خان کو کالج کی فیکلٹی نے قانون اور انصاف میں ماسٹر آف لاء سے نوازتے ہوئے کانسی کا تمغہ بھی عطا کیا۔
لیاقت علی خان 1923 میں اپنے آبائی وطن ہندوستان واپس آئے قومی سیاست میں قدم رکھتے ہوئے برٹش انڈین گورنمنٹ اور برطانوی حکومت کے تحت ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور ناروا سلوک کو ختم کرنے کا عزم کیا اسی دوران کانگریس کی قیادت نے لیاقت علی خان سے پارٹی کا حصہ بننے کے لیے رابطہ کیا لیکن جواہر لعل نہرو کے ساتھ ملاقات کے بعد لیاقت علی خان کے سیاسی خیالات اور عزائم تبدیل گئے اور انہوں نے محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی لیاقت علی خان 1926 کے انتخابات میں مظفر نگر کے دیہی مسلم حلقے سے عارضی قانون ساز کونسل کے لیے منتخب ہوئے اور اپنے پارلیمانی کیریئر کا آغاز 1926 میں قانون ساز کونسل میں متحدہ صوبوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کیا 1932 میں وہ متفقہ طور پر یوپی قانون ساز کونسل کے نائب صدر منتخب ہوئے لیاقت علی خان مسلم لیگ کے بااثر ارکان اور مسلم لیگ کے وفد کی مرکزی شخصیات میں سے ایک تھے جنہوں نے کلکتہ میں منعقدہ قومی کنونشن میں شرکت کی اس سے قبل برطانوی حکومت نے آئینی اور علاقائی اصلاحات کی سفارش کرنے کے لیے سائمن کمیشن تشکیل دیا تھا کمیشن نے سات برطانوی اراکین پارلیمنٹ سے سمجھوتہ کیا جس کی سربراہی اس کے چیئرمین سر جان سائمن نے کی جس نے کانگریس
پارٹی اور مسلم لیگ کے رہنماؤں سے مختصر ملاقات کی کمیشن نے برٹش انڈیا کے صوبوں پر حکومت کرنے کے لیے ڈایارکی کا نظام متعارف کرایا تھا لیکن ان ترمیمات کو ہندوستانی عوام کی طرف سے سخت تنقید اورمزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ موتی لال نہرو نے برطانوی الزامات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی نہرو رپورٹ پیش کی دسمبر 1928 میں لیاقت علی خان اور جناح نے نہرو رپورٹ پر بحث کرنے کا فیصلہ کیا ۔ 1930 میں لیاقت علی خان اورمحمد علی جناح نے پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کی اور پھر محمد علی جناح ہندوستان سے برطانیہ چلے گئے۔ 1932 میں لیاقت علی خان نے بیگم رعنا سے دوسری شادی کی جو ایک ممتاز ماہر معاشیات اور ماہر تعلیم تھیں جوبعد میں تحریک پاکستان کی ایک بااثر شخصیت بن گئیں۔ 1932 میں علی گڑھ یونیورسٹی میں پروویژنل مسلم ایجوکیشن کانفرنس میں اپنے پارٹی صدارتی خطاب میں لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ مسلمانوں کی "اپنی الگ ثقافت ہے اور انہیں اس پر قائم رہنے کا حق حاصل ہے” ۔1940 میں مسلم لیگ کے لاہور اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی اور پھر اسی سال مرکزی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے جن کا مقابلہ لیاقت علی خان نے بریلی کے حلقے سے کیااور وہ بلا مقابلہ منتخب ہوگئے ۔اس کے بعد جب لیگ کا اٹھائیسواں اجلاس 12 اپریل 1941 کو مدراس (چنئی) میں ہوا تو محمد علی جناح نے پارٹی کے اراکین سے کہا کہ حتمی مقصد پاکستان حاصل کرنا ہے اس سیشن میں لیاقت علی خان نے ایک قرارداد پیش کی جس میں قرارداد پاکستان کے مقاصد کو مسلم لیگ کے اغراض و مقاصد میں شامل کیا گیا۔ قرارداد کی تائید اور اتفاق رائے سے منظوری دی گئی قیام پاکستان کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی مدد کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کی کامیاب ترقی کے وژن کو آگے لے جانے کے ارادے سے ملک میں تعلیمی انفراسٹرکچر، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے اقدامات کیے۔ 1947 میں محمد علی جناح نے ماہر طبیعات رفیع محمد چوہدری کو پاکستان مدعو کیاتھا۔ لیاقت علی خان نے کیمسٹ سلیم الزمان صدیقی سے ملاقات کی اور انہیں شہریت دی اور 1950 میں انہیں اپنا پہلا سرکاری سائنس مشیر مقرر کیا ۔ اسی دوران لیاقت علی خان نے ماہر طبیعیات اور ریاضی دان رضی الدین کو بھی بلایا اور لیاقت علی خان نے ضیاء الدین احمد سے قومی تعلیمی پالیسی کا مسودہ تیار کرنے کو کہا جوانہوں نے نومبر 1947 میں ان کے دفتر میں جمع کروایا۔ لیاقت علی خان پر مارچ 1951 میں بھی حملہ ہوا مگرخو ش قسمتی سے بچ گئے لیکن بعد میں 16اکتوبر1951کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں تقریر کرتے ہوئے لیاقت علی خان کو ایک افغان عسکریت پسند سید اکبر نے گولی مار کرشہید کر دیا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کو 72سال بیت چکے ہیںاور ہمارے طاقتور اداروں سمیت کسی بھی ایجنسی نے اس قتل کی کوئی رپورٹ آج تک جاری نہیں کی۔ یہ ہمارے وزیر اعظم کی کہانی ہے جس کے قاتلوں کی نشاندہی تک نہ ہوسکی تو ایک عام آدمی کا کیا حشر ہوتا ہوگا جسے اٹھانے کے بعد غائب کر دیا جاتا ہے اور پھر اسکی لاش تک نہیں ملتی اللہ تعالی پاکستان کی حفاظت فرمائے اور عوام کو عزت و آبرو والی زندگی عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔