میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اور پھر لائن لگ گئی!!! پاکستان کی لڑکھڑاتی بیٹنگ کا کیا جائے؟

اور پھر لائن لگ گئی!!! پاکستان کی لڑکھڑاتی بیٹنگ کا کیا جائے؟

جرات ڈیسک
منگل, ۱۷ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

٭ورلڈ کپ میں پاکستان کی بھارت کے ہاتھوں مسلسل آٹھویں شکست، اتنے بڑے میچ میں پاکستان کی ٹیم کا ایک اچھی پوزیشن پر آنے کے باجود ڈھیر ہو جانا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے
٭پاکستان کے بلے بازوں نے جارحانہ انداز اپنانے میں دیر کر دی، اور یہی پاکستانی بیٹنگ کے اچانک ڈھیر ہونے کی وجہ بنا۔ رضوان اور بابر کا اسٹرائیک ریٹ بہت خراب تھا ہی کہ اسپنرز کو اسٹرائیک کیا
٭لوگوں کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان ٹیم پہلے 30 اوورز میں کنٹرول میں تھی لیکن میرے خیال میں پاکستان نے میچ پہلے 30 اوورز میں ہی ہارا ہے، سابق ٹیسٹ کرکٹرمحمد وسیم
٭پاکستان کے پاس جو 15 رکنی سکواڈ موجود ہے اس میں فی الحال بیٹنگ کے مسئلے کو حل کرنے کا تو حل موجود نہیں ہے، تاہم اگلے میچوں میں ا سپن بولنگ میں تبدیلیاں ضرور نظر آ سکتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورلڈ کپ میں شکست کی روایت برقرار، پاکستانی ٹیم بھارت کے خلاف ہر شعبے میں ناکام یہ ایک روزہ ورلڈ کپ میچوں میں پاکستان کی انڈیا کے ہاتھوں مسلسل آٹھویں شکست ہے، پاکستان نے ایک روزہ ورلڈ کپ میں انڈیا کو کبھی شکست نہیں دی۔پاک بھارت میچ میں پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ لائن کی ناکامی پر جہاں شائقین مایوس ہیں وہیں پاکستان کے سابق سپراسٹار بھی دلبرداشتہ ہیں۔ پاکستانی فینز یہ امید لیے بیٹھے تھے کہ بابر کی نصف سنچری یقیناً ایک سنچری میں تبدیل ہوگی اور انڈیا کو لگ بھگ 300 یا اس سے زیادہ کا ہدف دیا جاسکے گا۔ایسے میں محمد سراج کی گیند پر بابر اعظم بولڈ ہوئے اور پھر وہی ہوا جو ورلڈ کپ کے اہم میچوں میں پاکستانی بیٹنگ کا خاصا رہاہے۔ یعنی لائن لگ گئی۔ورلڈکپ کے اتنے بڑے میچ میں پاکستان کی ٹیم کا ایک اچھی پوزیشن پر آنے کے باجود ڈھیر ہو جانا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔انڈیا کے ا سپنرز جہاں ایک سلو پچ پر بہترین بولنگ کرنے اور پاکستانی بیٹنگ کو دباؤ میں لانے میں کامیاب رہے وہیں پاکستانی اسپنرز نواز اور شاداب اس معاملے میں خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ایک بار پھر ناکام رہے۔ میچ میں بیٹنگ میں اعتماد کا فقدان بھی واضح دکھائی دیا اور لاپرواہی بھی اپنی جگہ عیاں تھی۔ دونوں پاکستان اوپنرز عبداللہ شفیق اور امام الحق اچھے آغاز کے بعد اپنی وکٹ معمولی گیندوں پر گنوا بیٹھے۔ امام الحق 36 رنز جبکہ عبداللہ شفیق 20 رنز بنا سکے۔ آغاز میں پچ جس طرح کھیل رہی تھی دونوں سے اس سے زیادہ جارحانہ بیٹنگ کی امید کی جا رہی تھی۔بابر بھی نصف سنچری بنانے کے بعد گیند کو تھرڈ مین کی جانب گائیڈ کرنے گئے اور ایک آسان گیند پر ایک بہت اہم موقع پر اپنی وکٹ گنوا دی اور یہیں سے پاکستان ٹیم کا مڈل آرڈر ایک ایک کر کے پویلین جانے لگا اور پاکستان صرف 200 رنز بھی عبور کرنے میں ناکام رہا۔
انڈین بولنگ کی خاص بات آغاز میں ہی اس بات کو بھانپنا تھا کہ یہ وکٹ بیٹنگ کے لیے اچھی ہے اس لیے یہاں فاسٹ بولرز کو وکٹ سے کوئی مدد حاصل نہیں ہو گی اس لیے انھوں نے کراس سیم بولنگ، کٹرز اور سلو ڈیلیوریز کا استعمال کرنا شروع کیا۔پاکستانی بلے باز ان کے ان حربوں کے سامنے بے بس دکھائی دیے، عبداللہ شفیق اور بابر اعظم جو پاکستان ٹیم میں تکنیکی اعتبار سے بہترین بلے باز سمجھے جاتے ہیں۔ دونوں ہی محمد سراج کی کراس سیم ڈیلیوریز کا نشانہ بنے۔اب اس تمام صورتحال میں سوشل میڈیا صارفین پاکستان ٹیم میں تبدیلیوں کے خواہاں ہیں۔ پاکستان ٹیم کو ایک مسئلہ بیچ کے اوورز میں وکٹیں حاصل کرنے کا ہے کیونکہ اس کے اسپنرز اچھی بولنگ کروانے میں ناکام ہیں، اس لیے آنے والے میچوں میں اسامہ میر کو ٹیم میں شامل کرنے کی بات ہو رہی ہے۔لیکن اچانک سے بیٹنگ کے لڑکھڑانے کا کیا جائے، کیونکہ پاکستان کی یہی بیٹنگ گزشتہ میچ میں بہترین فارم میں دکھائی دی تھی۔ اس حوالے سے اکثر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان کو جارحانہ حکمت ِ عملی اپنانی ہو گی اور انڈین بلے بازوں کی طرح تیز بیٹنگ کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔
پاکستان کے سابق ٹیسٹ اوپنر اور چیف سیلیکٹر محمد وسیم نے اس بارے سوش میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ لوگوں کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان ٹیم پہلے 30 اوورز میں کنٹرول میں تھی لیکن میرے خیال میں پاکستان نے میچ پہلے 30 اوورز میں ہی ہارا ہے۔پاکستان کے بلے بازوں نے جارحانہ انداز اپنانے میں دیر کر دی، اور یہی پاکستانی بیٹنگ کے اچانک ڈھیر ہونے کی وجہ بنا۔پاکستان کا سکور 22 اوورز کے اختتام پر 114/2 تھا اور بابر اور رضوان کریز پر موجود تھے تاہم دونوں کا سٹرائیک ریٹ اس دوران اچھا نہیں تھا اور نہ ہی انھوں نے سپنرز کو اٹیک کرنے کی کوشش کی جس کے بعد ہر گزرتے اوور کے ساتھ دباؤ بڑھتا گیا۔کرکٹ تجزیہ کار اور کمنٹیٹر ہرشا بھوگلے نے پاکستان کی بیٹنگ اننگز کے بعد لکھا کہ‘یہ بہت کم وقت میں انتہائی غیر معمولی انداز میں وکٹیں گری ہیں۔ سراج کی وکٹ کے باعث مزید وکٹوں کے لیے دروازہ کھلا اور انڈین بولنگ میں ہمیشہ سے ہی ایسا کرنے کی صلاحیت تھی۔ انھوں نے روہت شرما کی کپتانی کی بھی تعریف کی۔سابق انڈین فاسٹ بولر عرفان پٹھان نے لکھا کہ‘پاکستان کی جانب سے ایک بھی چھکا نہیں مارا گیا حالانکہ ایک بڑی شراکت بھی قائم ہوئی۔ جارحانہ کی بجائے محتاط انداز اپنانے سے انھیں اس میچ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ناصر حسین کا کمنٹری پر یہ بھی کہنا تھا کہ‘پاکستان نے اپنے لیے بہت بڑا ہدف سوچ رکھا تھا، یہ پچ انگلینڈ بمقابلہ نیوزی لینڈ میچ سے مختلف تھی۔ پاکستان کو 280 کا ہدف رکھنا چاہیے نہ کہ 340 رنز کا۔انڈیا کے سابق فاسٹ بولر ونکتیش پرساد نے لکھا کہ‘ایسا لگا کہ پاکستانی کھلاڑی بری طرح سے گھبرا گئے تھے۔’شاید یہ تجزیہ اس لیے بھی معقول ہے کیونکہ پاکستان ٹیم ایک لاکھ کے قریب تماشائیوں کے سامنے یہ میچ کھیل رہی تھی اور انڈیا میں ہونے والے اس میچ میں پاکستانی بلے باز ہدف سیٹ کرتے ہوئے ڈگمگا گئے۔عموماً جب بھی بیٹنگ میں اتنی بڑی ناکامی ہوتی ہے تو اسے حکمتِ عملی اور سوچ کی ناکامی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے پاس جو 15 رکنی اسکواڈ موجود ہے اس میں فی الحال بیٹنگ کے اس مسئلے کو حل کرنے کا تو حل موجود نہیں ہے، تاہم اگلے میچوں میں پاکستانی سپن بولنگ میں تبدیلیاں ضرور نظر آ سکتی ہیں۔پاکستان اپنا اگلا میچ آسٹریلیا کے خلاف اگلے جمعے کو بنگلورو میں کھیلنے جا رہا ہے اور اس سے قبل یقیناً ڈری سہمی بیٹنگ کو اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں