میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
لیاقت علی خان اور امریکا

لیاقت علی خان اور امریکا

ویب ڈیسک
پیر, ۱۷ اکتوبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں بدلا، حکمرانوں کی امریکی تحویل میں رہنے کی آرزو اورعسکری اشرافیہ کی واشنگٹن کی سرپرستی میں رہنے کی خواہش کا سراغ ہماری تاریخ کے ابتدائی صفحات سے ہی مل جاتا ہے۔
لیاقت علی خان ابتدا میں امریکا سے تعلقات رکھنے کے خواہاں تھے۔ مگر امریکا سے تعلقات کے ابتدائی ماہ وسال میں ہی انہیں اندازا ہو گیا کہ امریکا سے تعلقات پاکستان کے لیے نقصان دہ رہیں گے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی و عسکری اشرافیہ کی طرح وہ دنیا کا کوئی طفیلی تناظر نہ رکھتے تھے۔ آزادی کی جدوجہد میں شریک رہنماکو امریکا کا ”طرزِ دوستی” نئے انداز کی غلامی جیسا لگنا شروع ہو گیا تھا۔ امریکا کو بھی اندازا ہو گیا تھا کہ لیاقت علی خان وہ واحد رہنما ہیں جو پاکستان کو امریکا کی طفیلی ریاست بننے کی راہ میں چٹان کی طرح کھڑے ہو سکتے ہیں۔
لیاقت علی خان کے قتل کے فوری بعد یہ رائے پاکستان، بھارت اور افغانستان کی فضاؤں میں موجود تھی کہ امریکا اس میں ملوث ہے۔ پاکستان اور بھارت میں قائم امریکی سفارت خانے یہی رپورٹیں امریکا کو بھیج رہے تھے۔ اگر امریکی سازش کا سراغ لگانا ہو تو اور کچھ نہ کیجیے صرف 16 اکتوبر 1951ء سے 29 دسمبر 1953 تک کے وہ خفیہ ٹیلی گرام پڑھ لیں جو کراچی اور نئی دہلی کے سفارت خانوں سے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کیے جاتے رہے۔ امریکا لیاقت علی خان کے قتل سے متعلق ہر اس پہلو میں دلچسپی لیتا رہا جو کسی بھی زاویے سے کہیں پر بھی موضوع بحث بنا۔ اب یہ تمام خفیہ ٹیلی گرام امریکا کے نیشنل آرکائیوز میں دستیاب ہیں۔ جن میں سے اکثر کے تراجم مختلف کتابوں کا حصہ بن چکے ہیں۔
لیاقت علی خان کے قتل کے صرف سولہ روز بعد 30 اکتوبر 1951 کا ایک ”خفیہ ٹیلی گرام” ملاحظہ کیجیے جو نئی دہلی کے امریکی سفارت خانے سے واشنگٹن بھیجا گیا۔ ”بھوپال کے بائیں بازو کے اردو روزنامہ ”ندیم” نے 24 اکتوبر کے شمارے میں ایک مضمون اس سرخی کے ساتھ شائع کیا ہے، ”کیا لیاقت علی خان کا قتل امریکا کی گہری سازش کا نتیجہ ہے”۔ اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کے دفتر کے مطابق برطانیا نے پاکستان پر ایران کے سلسلے میں تعاون کے لیے دباؤ ڈالا۔ امریکا نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران پر اثرورسوخ استعمال کرکے اس پر دباؤ ڈالے کہ ایران تیل کے چشمے امریکا کے حوالے کردے۔ لیاقت علی نے امریکا کی درخواست مسترد کر دی۔ ا مریکا نے کشمیر پر خفیہ معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دی۔ لیاقت نے کہا پاکستان نے امریکا کے تعاون کے بغیر آدھا کشمیر لے لیا، باقی کشمیر بھی حاصل کر لے گا۔ لیاقت نے امریکا سے ہوائی اڈے خالی کرنے کا مطالبہ کردیا۔ لیاقت کا مطالبہ واشنگٹن پر بم بن کر گرا۔ امریکا کے حکمران پاکستان کے ہوائی اڈوں سے روس کو فتح کرنے کے جو خواب دیکھ رہے تھے، وہ چکنا چور ہو گئے۔ امریکا نے لیاقت کو قتل کرانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ امریکا چاہتا تھا کہ قاتل مسلمان ہو تاکہ عالمی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔ امریکا پاکستان میں کوئی باغی تلاش نہ کر سکا۔ جیسا کہ ایران ، عراق اور اردن میں امریکا کامیاب رہا۔ امریکی حکمرانوں نے یہ ذمہ داری امریکی سفارت خانے کابل کو سونپی۔ امریکی سفارت خانے نے پشتون رہنماؤں سے رابطے کیے (تاکہ لیاقت علی خان کی واحد رکاؤٹ کو ختم کیا جا سکے)۔ امریکی سفارت خانے نے پشتون رہنماؤں کو یقین دلایا کہ اگر لیاقت علی کو قتل کرا دیا جائے تو امریکا 1952ء تک پختونستان قائم کرا دے گا۔ پشتون رہنماؤں نے سید اکبر کو قتل کی ترغیب دی اور اسے بھی موقع پر ہی قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ سازش کا پتہ نہ چل سکے۔ امریکی حکومت کے لیاقت کے ساتھ اختلافات گراہم (GRAHAM )کی رپورٹ سے ظاہر ہوئے، جو اس نے سپریم کورٹ میں پیش کی۔ گراہم نے اچانک پاکستان کی مخالفت شروع کر دی۔ حالانکہ پہلے کبھی اس نے اشارہ نہیں دیا تھا۔ لیاقت کے جسم سے ملنے والے خالی کارتوس امریکی ساختہ تھے، جن کو اعلیٰ امریکی افسر استعمال کرتے ہیں اور وہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔ یہ تمام عوامل ثابت کرتے ہیں کہ ملزم امریکا ہے، جس نے پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں ایسے جرم کیے ہیں۔ واشنگٹن کے سانپ ڈالر سامراج نے ایسے گھٹیا ہتھکنڈے ماضی میں بھی استعمال کیے ہیں”۔ (ٹیلی گرام ختم)
لیاقت علی خان کے قاتل کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا تھا، جواس منصوبے کا حصہ تھا۔ مگر قاتل کے حوالے سے اس قدر دھول اڑائی گئی کہ اس پر کوئی واضح رائے قائم نہ ہوسکے۔ بالکل ابتدا میں بیان کیا گیا کہ قاتل کا تعلق خاکسار تحریک سے ہے۔ پھر کہا گیا کہ قاتل دراصل ایک افغان باشندہ ہے۔ بعد ازاں یہ بات سامنے آئی کہ وہ غیر افغان ہے، مگر اس کا تعلق دراصل پشتونوں سے ہے۔ پھر قاتل کے متعلق یہ کہا گیا کہ وہ قادیانی ہے۔ جبکہ 1951 میں قادیانیت کے حوالے سے کوئی بحث مرکزی منظرنامے پر موجود ہی نہیں تھی۔ لیاقت علی خان کے قتل کے صرف دو روز بعد ہی افغان پریس یہ واضح کررہا تھا کہ قاتل سید اکبر ولد ببرک خان ہے، سید اکبر نے اپنے بھائی زمارک کے ساتھ مل کر 1944ء میں افغان حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ وہ المارہ جادران کا رہائشی تھا۔ جو افغانستان کے جنوبی صوبہ میں واقع ہے۔ سرکاری فورسز کے ہاتھوں شکست کے بعد دونوں ہی بھائی فرار ہوگئے۔ دونوں نے خود کو برطانوی فرنٹیئر اتھارٹی کے سامنے پیش کیا۔ جس کے بعد یہ ایبٹ آباد میں نظر بند کیے گئے۔ (جی ہاں وہی ایبٹ آباد جہاں امریکا نے اسامہ بن لادن کی موجودگی کا ڈراما رچا کر حملہ کیا تھا)۔ سید اکبر اور ان کے بھائی کو یہاں باقاعدہ تنخواہیں دی جانے لگیں۔ تقسیم ہند کے بعد حکومت پاکستان نے ان کو سیاسی پناہ دی۔ ایک ٹیلی گرام یہ واضح کرتا ہے کہ افغان قونصلر لیاقت علی خان کے قاتل کو باقاعدہ پیسے دیا کرتا تھا۔ ایک ٹیلی گرام سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ افغان حکومت نے تقریباً 120 معروف قاتلوں کو جیلوں سے اس بنیاد پر رہا کر دیا تھا کہ وہ پاکستان جا کر عوامی نمائندوں کو قتل کریں۔
پاک امریکا تعلقات واضح طور پر دو تین مرکزی نکات سے جڑے ہیں۔ امریکا پاکستان کی جانب اس لیے متوجہ ہوا کہ اُسے روس اور مشرق وسطیٰ کے خلاف یہاں مستقل اڈے چاہئے تھے۔ ممالک تبدیل ہو گئے، امریکا کی یہ ضرورت اب بھی جوں کی توں موجود ہے۔ نوکرشاہی، عسکری اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دان پہلے دن سے امریکا کی چاکری کرنے کو تیار تھے۔ امریکا نے پہلے دن سے محفوظ طور پر عسکری اشرافیہ سے اپنے تعلقات مستحکم کیے جو امریکا کی مرضی کے نتائج دینے کی قدرت رکھتی ہے۔ امریکا کو یہ یقین جنرل ایوب خان کے زمانے سے ہے، آج بھی وہ تمام معاملات عسکری اشرافیہ کے ساتھ ہی طے کرتی ہے۔ پاکستانی سیاست اور ریاست کا کوئی گوشہ ، حصہ اور منطقہ ایسا نہیں، جہاں امریکا گھسا ہوا نہ ہو۔ اُن لوگوں کی بات چھوڑیں جو اپنے سیاسی تعصبات میں اتنے اندھے ہو گئے ہیں کہ اُنہیں امریکا کی پاکستان دشمنی بھی اپنے سیاسی رجحانات کے باعث پریشان نہیں کرتی اور وہ اسے ان دیکھا کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ لیاقت علی خان ہی ابتدائی رکاؤٹ بنے تھے، راستے سے ہٹا دیے گئے۔” The Sovereignty Lost” کے مصنف شاہد الرحمان لکھتے ہیں کہ لیاقت علی خان کی شہادت سے صرف چار روز قبل امریکی اہلکار وارن (Warren) سے اُن کی ملاقات ناخوشگوار طور پر ختم ہوئی تھی۔ وارن مشرق وسطیٰ کے دفاع کے لیے پاکستانی کردار پر زور دیتا رہا، لیاقت علی خان کشمیر پر زور دیتے رہے۔ اس صورتِ حال میں اشارے موجود ہیں کہ تب لیاقت علی خان پاکستان، ایران اور مصر کے مشترکہ دفاع کا ایک بلاک تشکیل دینے کے خواہش مند تھے۔ امریکا کسی طور تیار نہ تھا۔ باقی تاریخ ہے۔
٭٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں