میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شہزاد اکبر نے چینی بحران کا ذمہ دار شوگر ملز اور سٹہ بازوں کو ٹھہرادیا

شہزاد اکبر نے چینی بحران کا ذمہ دار شوگر ملز اور سٹہ بازوں کو ٹھہرادیا

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۷ اکتوبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر نے چینی کمیشن کی تحقیقات کی روشنی میں بحران کی ذمہ دار شوگر ملوں اور سٹہ بازوں کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ شوگر کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں ایف بی آر نے شوگر ملز کے پانچ سالہ آڈٹ کے بعد 619 ارب روپے کے جرمانے عائد کیے ، مسابقتی کمیشن نے بھی 44 ارب روپے کا جرمانہ کیا،چینی کی قیمتوں کے حوالے سے ایف بی آر کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات میں ‘ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم ’شامل ہے، اس نظام کا نفاذ جدید آلات کی مدد سے شوگر ملوں پر ہوگا، اس میں شوگر کی مینوفیکیچرنگ کے آغاز سے اختتام تک مانیٹرنگ کی جائیگی،حکومت، گنے سے حاصل ہونے والی اشیا کے لیے لیب بنا رہی ہے،او ایم سیز کی جانب سے پیٹرول کی ذخیرہ اندوزی بحران کا باعث بنی،ہمیں سسٹم کو مل کر بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ہفتہ کو پریس کانفرنس کے دوران شہزاد اکبر نے چینی کمیشن کی تحقیقات کی روشنی میں بحران کی ذمہ دار شوگر ملوں اور سٹہ بازوں کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے شوگر تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا تھا جس کے بعد اسی کمیشن کی تجویز کی روشنی میں وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن ایکٹ 2017 کے تحت انکوائری کمیشن تشکیل دیا جس نے تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ وفاقی کابینہ کو پیش کی تھی، اس میں بے شمار ہوش ربا انکشافات ہوئے۔انہوں نے کہا کہ کمیشن نے بتایا کہ چینی بلیک میں فروخت کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ٹیکس میں بھی نقصان ہوتا ہے، ایف بی آر کی مدد سے پانچ سال کا ٹیکس آڈٹ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں شوگر ملز پر 619 ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ انہوںنے کہاکہ اراکین کی تحقیقات کے مطابق پیٹرول کی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) نے ذخیرہ اندوزی کی تھی اور قیمت کم ہونے کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچنے دیا۔انہوںنے کہاکہ کمیشن کی تحقیقات کے بعد ملک بھر میں 2 ہزار سے زائد غیر قانونی پیٹرول پمپس کو بند کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 45 سے زائد او ایم سیز ہیں، ماضی میں ان کمپنیوں کو بہت زیادہ لائسنسز دیے گیے اور نتائج سے معلوم ہوا کہ غیر قانونی پیٹرول پمپ ہیں جو ٹیکس ادا نہیں کر رہے ہیں، جنہیں بند کرنے کے بعد پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے منافع میں 36 فیصد اضافہ ہوا جبکہ دیگر ایم این سیز بھی منافع حاصل کر سکی۔مشیر احتساب نے کہا کہ دوسری چیز یہ تھی کہ جن بحری جہازوں میں پیٹرول آتا تھا ان کی برتھنگ نہیں کی گئی جس کی وجہ سے ساڑھے 3 ارب روپے کا نقصان ہوا، اب ان تمام کمپنیوں سے وصول کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ تحقیقات کرنے پر معلوم کیا کہ او ایم سیز پیٹرول ذخیرہ کر رہی ہیں، ان اعداد و شمار کے بعد ان پر ساڑھے 5 ارب کا جرمانہ عائد کیا جائے گا، اس معاملے میں ایف آئی اے اور اوگرا کو اقدامات کے حکم دیے گئے ہیں۔شہزاد اکبر نے کہا کہ براڈشیٹ کی انکوائری کیلئے جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا گیا تھا جس میں کچھ خاص شواہد سامنے نہیں آئے بلکہ ہمیں انہیں جرمانے کی مد میں 44 ارب روپے سے زائد رقم ادا کرنی پڑی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں