موت کی سوداگری
شیئر کریں
سید عامر نجیب
منافقت کے شکار معاشرے ایسے ہی ہوتے ہیں ،ہزاروں برائیوں پر بے حسی کی چادر تانے سوتے رہتے ہیں اور پھر کسی معمولی بات پر ان کی غیرت و حمیت جاگ اُٹھتی ہے، بہت تھوڑی سی اور عارضی ۔وہ برائیاں جو معاشرے کو تباہ کر رہی ہوں ،قوم کا مستقبل تاریک بنا رہی ہوں، کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہوں ،ان سب کو نہ صرف گوارہ کرلینا بلکہ بڑی بے جگری سے ان برائیوں کا حصہ بننا منافق معاشروں میں ہی ایسا ممکن ہے ۔اسی لیے سیدنا علی ؓ فرماتے ہیں ” منافقت سے بہتر ہے کافر ہوجاﺅ کیونکہ جہنم میں کافر کا درجہ منافق سے بہتر ہے ۔“ ہمیں خوف نہیں آتاکہ اسلامی نقطہ نظر سے ہم کس سطح پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس معاشرے کے ہزاروں لوگ ایسا کاروبار کر رہے ہیں جسے موت کی سوداگری قرار دیا جا سکتا ہے ۔
صرف کراچی میں 30 لاکھ سے زائد افراد پان ، گٹکے ، مین پوری ، ماوا اور پان پراگ جیسے گھناﺅنے اور موذی نشے کا شکار ہوچکے ہیں ۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہر پانچواں شخص اس قسم کے نشے میں مبتلا ہے، اس شہر میں جہاں پولیس ، رینجرز اور سیکیورٹی کے حوالے سے بنائی گئی لاتعداد ایجنسیاں موجود ہیں ، قومی و صوبائی اسمبلی میں جہاں کی نمائندگی انتہائی تعلیم یافتہ اور مہذب لوگ کرتے ہیں اور جہاں ایسی سیاسی ومذہبی جماعتوں کے مضبوط حلقے ہیں جو پاکستان اور عالم اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں پر گہری نظر رکھ کر اس حوالے سے اپنی حب الوطنی اور اسلام پسندی کا سکہ بٹھائے ہوئے ہیں اور وہ شہر جو پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا مرکز ہے اور جہاں ذمے دار صحافت کے سیکڑوں چیمپئن بستے ہیں ،اس شہر میں گٹکے جیسی مکروہ پراڈکٹ کے 400 کارخانے قائم ہیں اور گلی گلی اس زہر کو فروخت کرنے والے ہزاروں دکاندار موجود ہیں اور ماہانہ کروڑوں روپے کی خرید و فروخت جاری ہے ۔
اس زہر کے اجزائے ترکیبی میں کتنے زہر شامل ہوتے ہیں اس فہرست کے ہر نام پر اُبکائی آتی ہے ۔ کیڑے لگی ہوئی چھالیہ ، بیٹری کا استعمال شدہ پانی ، چونے کا پسا ہوا پتھر ، تمباکو ، پسا ہوا کانچ ، رنگ ملا کتھا ، افیم ، خون اور اس تمام غلاظت کو چھپانے کے لیے خوشبو دار اور ذائقے دار فلیورز یعنی کیمیکلز ۔ ان اجزاءسے تیا ر کردہ گٹکا جس نے کراچی اور اندرون سندھ ہزاروں منہ کے کینسر کے مریض پیدا کردیے ہیں ،اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف جناح ہسپتال میں ماہانہ 150 مریض لائے جارہے ہیں جن میں بیشتر کا مرض آخری اسٹیج میں داخل ہوچکا ہوتا ہے ۔ منہ کے کینسر میں مبتلا یہ مریض کسی کے بیٹے ، کسی کے بھائی ، کسی کے شوہر ، معصوم بچے اور معصوم بچیوں کے باپ اور گھر کے واحد کفیل بھی ہوتے ہیں ۔ ایک شخص کی موت کا مسئلہ نہیں ایک گھرانے کی موت کا مسئلہ ہے اور اس طرح کے ہزاروں گھرانے اس سندھ دھرتی میں بس رہے ہیں ۔
گٹکے کے اس گھناﺅنے نشے کے معاشرتی اثرات پر بھی پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔ اسپتالوں ، ہوٹلوں ، سرکاری دفاتر سے لے کر سڑکوں اور گلی محلے تک صفائی مشکل ہوچکی ہے ۔ اس نشے کی عادت غریب گھرانوں کی معیشت پر بوجھ ہے، گھریلو تعلقات اور رشتوں میں تلخیوں اور کشیدگی کا باعث ہے ۔ بچوں کی تربیت کے لیے ضرر رساں ہے ۔ ماہرین نفسیات اس نشے کے دل و دماغ پر مضر اثرات بھی بیان کرتے ہیں ۔
موت معاشرے میں سرایت کر چکی ہو اور ریاست منہ دیکھتی رہ جائے، کیا ریاست کے ستون اس قدر غیر موثر ہیں جو اپنے شہریوں کو موت کے منہ میں جانے سے روک نہ سکیں ؟ اخباری رپور ٹ میں اس امر کا انکشاف بھی کیا ہے کہ حکومت سندھ نے 2011 سے صوبے بھر میں گٹکے کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے ۔ ماشاءاللہ پابندی میں یہ حال ہے تو اجازت میں کیا ہوگا سوچا جا سکتا ہے ۔ ویسے بھی حکومت کی پابندی بیوروکریسی سے لے کر وزراء، سیاستدانوں اور مافیا طرز کی مذہبی وسیاسی جماعتوں تک کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے ، رشوت کے ریٹ بڑھتے ہیں اور کام اسی طرح جاری رہتا ہے ،جس طرح پابندی لگنے سے پہلے چل رہا تھا ۔
اندرون سندھ اور کراچی میں چھالیہ ، گٹکوں کی یہ وباءگزشتہ 25 سالوں میں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ لال پیلے دانتوں نے چہرے کا حسن اور رعنائی چھین لی ہے ، معاشرہ بے رونق چہروں کا معاشرہ بن رہا ہے ۔ بیرون ملک سے آئے ہوئے میرے ایک عزیز نے تاثرات دیتے ہوئے کہا کہ یورپ میں لوگوں کے چہروں پر تازگی نظر آتی ہے لیکن وطن عزیز میں معاملہ اُلٹ ہوجاتا ہے، کثرت کے ساتھ ایسے چہرے نظر آتے ہیں جن پر رونق نہیں ہوتی اور پان گٹکوں سے آلودہ ہوتے ہیں ۔
پان گٹکوں کا زہر کھا کر جب کوئی مرتا ہے ۔ عورت بیوہ ہوتی ہے ، بچے یتیم ہوتے ہیں ، گھرانہ برباد ہوتا ہے توکیا کبھی سوچا ہے کتنے لوگ اس کے ذمے دار بنتے ہیں ۔ اصل میں تو سب سے بڑی ذمے داری حکومت اور حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جو اختیا ر و اقتدار پر فائز ہیں اور عوامی مفادات کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں، سوچیں اس تباہی کا اللہ کو کیا جواب دیں گے ۔ اسی طرح وہ سیاسی و مذہبی جماعتیں جن کی اجازت کے بغیر عوام اپنی قربانی کی کھالیں بھی نہیں دے سکتے ، جن کے دامن پر جبری چندوں اور بھتا خوری کا داغ بھی ہے ، یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایسی سیاسی مذہبی جماعتوں کی موجودگی میں کراچی اور سندھ میں نشے کی تیاری اور خرید و فروخت کا یہ مکروہ دھندا اس طرح فروغ پایا کہ لاکھوں افراد کو موت کے خطرات سے دوچا ر کیا اور معاشرے کی بربادی کا سبب بنا ۔ منافقت اسی چیز کا تو نام ہے کہ لوگوں کے حقوق کے علمبردار بنو اور پھر انکے حقوق پر سودے بازی کرو ۔