قوم کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ترامیم کالعدم قرار دیے جانے کے فیصلے کو مختلف سیاسی جماعتوں اور عوام نے خوش آئند قراردیتے ہوئے کہا کہ 16 ماہ پی ڈی ایم جماعتوں نے خود کو قانون کے دائرے سے باہر نکالا،ان کے خلاف کیسز کھلنا بہت ضروری اور اچھی بات ہے۔کرپٹ لیڈروں کی جگہ جیل میں ہے اور تب ہی پاکستان ترقی کر سکتا ہے۔ امید ہے کہ نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ تمام جماعتیں مل کر بھی پاکستان کو ٹھیک نہیں کر سکتیں۔ 16 ماہ میں پی ڈی ایم نے صرف قرضے لیے اور عیاشیاں کیں۔16 ماہ میں نیب ترامیم کر کے بڑی بڑی شخصیات کے کیسز ختم کرائے گئے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بنچ نے نیب ترامیم کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست کو قابل سماعت قرار دیا اورکچھ شقیں کالعدم قرار دیدیںجس کے بعد مختلف سیاستدانوں کے خلاف نیب کے مقدمات بحال ہوگئے ہیں۔سپریم کورٹ نے پلی بارگین سے متعلق ترامیم کالعدم قرار دیتے ہوئے ہوئے نیب کو7 دن میں ریکارڈ متعلقہ عدالتوں کو بھیجنے کاحکم دیا ہے کہ کرپشن کیسز جہاں تھے7 دن میں وہیں سے شروع کیے جائیں۔اس موقع پر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وکلاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں جس نے مجھ سے ملک اور انصاف کی خدمت لی، اللہ کے لئے اپنا فریضہ ادا کیا۔ ہمارا فریضہ ہے کہ سب کو تحمل سے سنیں۔
عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ نیب ترامیم آرٹیکل 9 ، 14 ، 24 اور 25 متصادم ہیں۔ پارلیمنٹ نے ترامیم کے ذریعے 50 کروڑ سے کم کرپشن معاف کرکے عدلیہ کا اختیار استعمال کیا۔ این آر او کیس میں بھی عدالت کا موقف تھا کہ کیسز عدلیہ ہی ختم کر سکتی ہے۔فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیب قانون میں کرپشن کی حد 50 کروڑ تک کرنا عوامی نمائندوں کو معافی دینے کے مترادف ہے۔ معافی کا اختیار صرف عدالت یا سزا کے بعد صدر مملکت کو ہے۔ پارلیمنٹ نے ترامیم کے ذریعے 50 کروڑ سے کم کی کرپشن معاف کرکے عدلیہ کا اختیار استعمال کیا اور 598 ریفرنسز میں سے صرف 54 ریفرنسز دیگر عدالتوں کومنتقل ہوئے۔ کرپشن کے بیشتر ملزمان کے اثاثے بیرون ملک موجود ہیں، آمدن سے زائد اثاثوں پر حساب نہ ہو تو عوام کا کرپشن کی نذر ہونے والا پیسہ ریکور نہیں ہوسکے گا۔
نیب کے قانون میں 27 ترامیم سے متعلق بل گذشتہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مئی 2022 میں منظور کیا گیا تھا تاہم صدر عارف علوی نے اس بل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت نے جون 2022 قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس کی منظوری دی تھی۔اس قانون سازی کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ سمجھا جائے گا۔پی ڈی ایم حکومت کے دور میں ہونے والی نیب ترامیم کے تحت 50 کروڑ سے کم کے کرپشن مقدمات پر نیب کا دائرہ اختیار ختم کردیا تھا۔پہلی نیب ترامیم کی دفعہ 2میں متعدد عوامی عہدوں کو نیب دائرہ اختیار سے باہر کیا گیا، دوسری نیب ترامیم کی دفعہ 3میں 50کروڑ سے کم مالیت کے ریفرنس نیب دائرہ اختیار سے باہر کیے گئے۔فیصلے میں کہا گیاکہ پہلی نیب ترامیم کی دفعہ 8میں آمدن سے زائد اثاثہ جات کی شق 9اے فائیو میں نئے اجزا شامل کیے گئے، شق 9اے فائیو آمدن سے زائد اثاثہ جات کے جرم سے متعلق ہے۔ان ترامیم میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں بھی ایک برس کی کمی کر کے اسے تین سال کر دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بنے گا۔ایک ترمیم کے تحت احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے بھی تین سال کی مدت بھی مقرر کی گئی تھی اور عدالتوں کو ایک سال کے اندر مقدمے کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنایا گیا تھا۔ ترمیمی قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے۔
ان ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں متعدد سابق وزرائے اعظم سمیت ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کے کلیدی رہنما بھی شامل تھے۔سپریم کورٹ کی طرف سے نیب ترامیم کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد آصف علی زرداری کے جعلی اکاؤنٹ کیسز واپس احتساب عدالت کو منتقل ہو جائیں گے اور سابق وزیراعظم شاید خاقان عباسی کا ایل این جی کیس اسپیشل جج سینٹرل سے احتساب عدالت کو واپس منتقل ہوگا۔ نواز شریف، آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کا توشہ خانہ کیس واپس احتساب عدالت کو منتقل ہوگا جبکہ مراد علی شاہ کے خلاف نیب ریفرنس بھی واپس احتساب عدالت کو منتقل ہوگا۔ سلیم مانڈوی والا کے خلاف کڈنی ہل ریفرنس اور اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس واپس احتساب عدالت کو منتقل ہوگا۔سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیسز بھی بحال ہوں گے۔اسی طرح سابق وزیراعظم شوکت عزیز ، سابق وزیرخزانہ شوکت ترین کیخلاف مقدمات بھی دوبارہ کھل جائینگے۔لاہور کی احتساب عدالتوں میں متعدد کیسزبھی بحال ہوگئے ہیں جن میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف رمضان شوگر ملز ریفرنس ، خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کے خلاف پیرا گون ہاؤسنگ ریفرنس بھی بحال ہوگیا۔سپریم کورٹ میں نیب قانون میں تبدیلی سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں فرزانہ راجہ، یوسف رضا گیلانی، سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان بھی شامل، آصف زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید اور انکے بیٹے بھی فائدہ اٹھانے والوں میں شامل، سابق وزیراعظم شوکت عزیز، ظفر گوندل، صادق عمرانی ، نواب اسلم رئیسانی، لشکری رعیسانی، اسفند یار کاکڑ کو بھی نیب ترامیم سے فائدہ پہنچا۔ اسی طرح سے ارباب عالمگیر، عاصمہ ارباب عالمگیر، شیر اعظم وزیر بھی نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔عدالتی فیصلے سے 450 سے زائدسابق ارکان پارلیمنٹ،حاضرسروس اورریٹائرافسران اورکچھ پرائیویٹ کاروباری حضرات نیب کے ریڈارپر آگئے ہیں ۔ تقریباً 1809 ریفرنسز، انوسٹی گیشنز،انکوائریاںاورشکایات دوبارہ کھل گئی ہیں۔ سپریم کورٹ نے تمام 700 ارب روپے کے ہزاروں کرپشن کیسز، انویسٹگیشن اور انکوائریاں دوبارہ کھولنے کا حکم دے دیا۔سابق7وزرائے اعظم ،14وزر اء اعلی، 78وزرا،176ایم پی اور114افسران کے کیس کھل گئے ہیں۔