عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے!
شیئر کریں
ملک عجیب و غریب صورت حال سے دو چار ہے۔ عوام بھوکے، سہمے اور فکرمند ہیں۔ لوگوں میں بے چینی ہے اور ہر طرف مایوسی کا عالم ہے اور غم و غصہ کا ماحول ہے۔ لوگ حکومت کے فیصلوں سے ناراض ہیں اور اپوزیشن کے رویہ سے خفا ہیں بلکہ اپوزیشن برائے نام ہے۔عام آدمی مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان ہے اور مزدور و کسان مسائل سے عاجز آکر اپنی جان دے رہے ہیں۔ غربت کا سلسلہ چل رہا تھا اور چل رہا ہے اوریہ سلسلہ نہ رک رہا ہے اور نہ روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پھر بھی دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے، ترقی کر رہا ہے حالانکہ ترقی صرف جاگیر دار اور سرمایہ دار کر رہے ہیں۔ گزشتہ 75 برسوں سے اس ملک میں کئی ایک سیاسی گروہ برسراقتدار چکے ہیں۔ اور ہر گروپ یہی نعرہ لے کر میدان میں آیا کے پاکستان کے اصل مسائل کا حل تو میرے پاس ہے اور میں جانتا ہوں کے مسائل کیا ہیں اور ان کو کیسے حل کرنا ہے۔ اور ہر بار عوام کا اعتماد لے کر بدلے میں ان کے ارمانوں کا خون کر کے لوٹ جاتے ہیں اورمسائل جوں کے توں ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ نے گزشتہ دنوں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا جس کے خوش آئند نتائج سامنے آئے ہیں اور ڈالر اور چینی کی قیمتوں میں بتدریج کمی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، ملک کی معیشت کی بہتری کیلئے کیے جانے یہ سارے اقدامات بہت ہی خوش آئند ہیں اور انہیں اٹھایا جانا چاہئے تھا لیکن سوال یہ ہے کہ یہ قدم اٹھانے میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی؟ اس پرکچھ سوال تو پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب دیا جانا چاہئے۔ اسمگلنگ پورے زور شور سے جاری رہی، ڈالر افغانستان جاتے رہے، ملک میں چینی اور آٹے کی قلت پیدا ہوئی جس کے باعث قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا، عوام مشکلات کی دلدل میں دھنستے رہے اور ریاست کے کمزور ہونے کا تاثر مضبوط ہوتا رہا جو ادارے اس صورتحال کو قابو میں رکھنے کے ذمہ دار تھے وہ کس بات کے منتظر تھے۔ ان کا اس غفلت پر محاسبہ ہونا چاہیے۔ اس نگراں حکومت کو بھی ایک ماہ ہونے کو ہے اور اسے معاشی معاملات سے متعلق خصوصی اختیارات بھی حاصل ہیں مگر یہ بھی تماشائی بنی رہی۔ پھر ملک کی معیشت اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر میں تو گزشتہ ایک سال سے اضافہ ہو رہا تھا شہباز شریف کی اتحادی حکومت کیوں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی رہی اور اس کے شہرہ آفاق معاشی جادوگر اسحاق ڈار کوئی کرتب کیوں نہیں دکھا سکے۔ اور سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ موجودہ آرمی چیف بھی اس با اختیار اور فیصلہ کن منصب پر گزشتہ 10 ماہ سے فائز ہیں انہوں نے ان معاملات پر توجہ اتنی تاخیر سے کیوں کی؟ اگرچہ معاشی سدھار کے لیے کوششیں آرمی چیف کی منصبی ذمہ داری نہیں ہے اور نہ وہ اس کے ذمہ دار ہیں تاہم پاکستان کے سیاسی اور انتظامی معاملات میں اس طاقت ور منصب کی فیصلہ کن حیثیت ہمیشہ رہی ہے۔لہٰذا ان سے سوال اسی تاریخی پس منظر کی بنیاد پر بنتاہے۔ اور ایک سوال اس ملک کے تاجروں، صنعتکاروں اور سرمایہ داروں سے بھی ہے۔ انہیں بجلی کی کمیابی اور اس کے بڑھتے ہوئے بلوں سے شکایت ہے وہ حکومت سے خصوصی مراعات اور تحفظات کے خواہاں ہیں۔انہیں اپنے سرمائے کا تحفظ بھی مطلوب ہے اور غیر ضروری دفتری رکاوٹوں سے چھٹکارا بھی۔ ان کے یہ سارے مطالبات اور تحفظات جائز اور ضروری ہیں حکومت کو ان پر توجہ دینی چاہئے مگر کیا ان تاجروں، صنعتکاروں اور سرمایہ داروں نے اس بات پر بھی کبھی غور کیا ہے کہ وہ انکم ٹیکس اور دیگر حکومتی واجبات، خواہ کسی بھی نوعیت کے ہوں کتنی دیانتداری کے ساتھ ادا کرتے ہیں؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس ملک کا سرمایہ دار طبقہ خواہ وہ صنعتکار ہو یا تاجر،ہول سیلر زہو یا ریٹیلرز۔ ریاست سے مراعات تو وہ پوری طلب کرتے ہیں مگر ریاست کو دینے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ بجلی کی بچت کے سلسلے میں جب تاجروں سے سر شام کاروبار بند کرنے کا کہا جا تا ہے تو وہ اس پر عمل کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے۔ قومی مفاد کی خاطر وہ یہ قربانی دینے کیلئے آمادہ نہیں۔کسی بھی سوسائٹی کو مسائل کا پیش آنااور جنگوں اور وبا کا مقابلہ کرنا کوئی نئی بات نہیں،دنیا کی ہر قوم کو مسائل کا سامنا رہا،لیکن وہی قوم اپنے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جو اپنے سامنے ایک مربوط واضح اور دو ٹوک نظریہ رکھتی ہو۔اس تمام صورت حال کو وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس صورت حال کی اصل وجہ ملک میں لیڈر شپ کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ ہر فردفکری انتشار میں مبتلا ہے۔ایک طرف مسائل کا انبار ہے،اور دوسری طرف ان مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے کوئی راستہ نظر نہیں آ تا۔سب سے بڑھ کر یہ کے مسائل کی فہرست ہر مکتبہ فکر کے اپنے ذہن کے مطابق ہے۔ جمہوریت میں حزب اختلاف کا اہم کردار ہوتا ہے اور اپوزیشن لیڈر کو قائد ایوان جتنی مراعات ملتی ہیں۔ اختلاف رائے اپنی جگہ مگر اپوزیشن کا کام حکومت کو تجاویز دینا اور اس کو عوام دشمن فیصلوں سے روکنے کی کوشش کرنا ہوتا ہے،اس کے ساتھ ہی وہ حکومت کو تجاویز پیش کرتی ہے کہ ملک کو درپیش مسائل سے کیسے نکالاجائے، اپوزیشن کا کام حکومت کیلئے مسائل پیدا کرنا نہیں ہوتا۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جو پارٹیاں حزب اختلاف میں ہوتی ہیں ان کا کہنا ہوتا ہے کہ چونکہ ہماری پارٹی کی حکومت نہیں اس لئے یہ مسائل ہیں اور جو پارٹی بر سر اقتدار ہوتی ہے وہ پچھلی حکومت کے دور کے مسائل کا رونا رو کر اپنے 5 سا ل پورے کر لیتی ہے۔مذہبی جماعتیں مذہبی سے زیادہ سیاسی جماعتیں بن چکی ہیں وہ صرف یہ کہہ کر اپنا مذہبی تشخص برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہیں کہ جب تک اسلامی نظام نافذ نہیں ہوتا مسائل حل نہیں ہو سکتے اور جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ اسلامی نظام کیسے نافذ ہو گا تو ہر ایک جماعت کا اپنا ہی فلسفہ ہے۔ان کے طرز عمل سے ظاہرہوتاہے کہ ان مذہبی جماعتوں کا مقصد صرف دین کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کیلئے استعمال کرنا اور ایک دوسرے پہ فتوے جاری کرنا ہے، ان جماعتوں میں سے کچھ مخصوص علاقوں سے ووٹ حاصل کر لیتی ہیں تووہ پارلیمنٹ کا حصہ بن کراسی ظالمانہ نظام کا تحفظ کرتی ہیں۔بعض مذہبی جماعتیں تو ان مسائل کو تقدیر سے جوڑ کے اس ظالمانہ نظام کے ساتھ صلح کرنے کا کام کر رہی ہیں اور اب تو ان کا کام حکمرانوں کے حق میں دعا کرنا رہ گیا ہے۔ کچھ نام نہاد دانشور حضرات نیوز چینلز پر بیٹھ کر اپنی ذہنی اختراع کے مطابق مسائل کی ایک لمبی فہرست بتاتے ہیں اور اپنے منتشر خیالات و افکار کے مطابق اس کا حل پیش کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں پورا سماج کنفیوژن کا شکار ہے،ہر ایک اسی سوچ میں مبتلا ہے کہ کس کی بات مانیں اور کس کی اتباع کریں۔اگر معاشرے کے اجزائے ترکیبی کا علم ہو تو معاملے کی تہہ تک پہنچا جاسکتا ہے۔عمرانیات کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ معاشرہ بنیادی طور پر 3 عناصر سے مل کر بنتا ہے۔ فکر و نظریہ، سیاسی نظام اورمعاشی نظام اب ان تینوں عناصر کو سامنے رکھ کر ہم اپنی سوسائٹی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کوئی نظریہ نہیں ہے۔ کیوں کہ جس نعرے پر ملک حاصل کیا گیا یعنی ہماری فکر اسلام کی ہو گی، معاشی نظام اسلام کے مطابق ہوگا اورسیاسی نظام اسلام کا ہو گا لیکن موجودہ ڈھانچہ جو فی الوقت ہمارے سامنے ہے اس کے قطعی برعکس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے جو نتائج سامنے آرہے ہیں وہ افسوسناک ہیں۔ المناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام لارڈ میکالے کا بنایا ہوا ہے جو صرف کلرک پیدا کرتاہے۔جو نو آبادیاتی دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے سامراج سے مرعوبیت کے حوالے سے ذہن پیدا کرتا ہے۔جو ہماری نوجوان نسل میں جرأت اور سامراج کے اعلیٰ شعور کے بجائے بزدلی اور پست ہمتی پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ سیاسی نظام میکاؤلی کے فکر و فلسفے پر قائم ہے جس کا آخری نتیجہ جھوٹ ہی نکلتا ہے اور دھوکہ دہی، اقربا پروری اور بین الاقوامی سامراج کاآلہ کار کردار اس کا محور ہے اور اسی کو کامیابی کا زینہ تصور کیا جاتا ہے اوراس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اس وقت ہمارا پورا سماج بدامنی اور سیاسی انتشار کا شکار ہے۔ جمہوریت کے نام پر سرمایہ دارانہ نظام کی کلاسیکل شکل نافذ ہے۔پارلیمنٹ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ ہے۔ معاشی نظام ایڈم اسمتھ کے فلسفے پر مبنی ہے۔جو سرمایہ دارانہ نظام کا بانی ہے۔سرمایہ داری نظام معیشت معاشرے میں ایک خاص طبقے کی اجارہ داری قائم کر کے 98 فیصد طبقے کو محروم معیشت بناتا ہے اور یہ نظام سماج میں غربت و افلاس اور بیروزگاری پیدا کرتا ہے۔ سوسائٹی کو آگے بڑھانے کے بجائے عالمی سامراج کے قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیتا ہے۔ اصل مسائل سے فرار ہمارا مجموعی مزاج یہ بن چکا ہے۔افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سب اچھا کی رٹ ہر حکومت میں لگائی جاتی ہے لیکن عوامی مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں جس کی وجہ سے لوگوں کے اندر پیدا ہونے والی بے چینی کی کیفیت، مایوسی میں تبدیل ہورہی ہے اور مایوسی کا یہ عالم اور دلوں میں پلنے والا یہ غم و غصہ کیا رنگ دکھائے گا، یہ سوچ کرہی خوف آتاہے۔ اگر وقت رہتے اس جانب توجہ نہیں دی گئی اور اس مسئلہ کے سد باب کیلئے سرکار ی سطح پر کوشش نہیں کی گئی تو بڑی تباہی پھیلنے کے خدشے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔