تہران میں انٹرنیٹ کی بندش، خامنہ ای مردہ باد کے نعرے
شیئر کریں
ایران کے علاقے ظہران میں رات کو پھیلنے والے مظاہروں کے جواب میں ایرانی دارالحکومت میں انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ہے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق ایرانی اخلاقی پولیس کے اہلکار کے ہاتھوں ایک خاتون پر قابل اعتراض حجاب کی وجہ سے تشدد سے لڑکی کی موت کے بعد تہران سمیت کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں میں ایران کے ولایت فقیہ کے سرپرست اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای مردہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ اس کے علاوہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کارکنوں کی طرف سے گردش کرنے والی ویڈیوز میں دارالحکومت تہران کے مرکز میں ہونے والے مظاہروں کو دکھایا گیا ہے۔ یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب ایرانی "الارشاد” پولیس کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے کے بعد نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت کی خبر سامنے آئی۔ اس کے بعد ایرانی حکومت کے خلاف "خمینی مردہ باد” اور "مرگ بر آمر” کے نعرے لگائے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں ایرانی پولیس کے ناروا سلوک کا نشانہ بننے کے بعد متعدد مظاہرین کی گرفتاری بھی دکھائی گئی۔ واقعے کا آغاز تہران میں "اخلاقی” پولیس کی طرف سے "نامناسب نقاب” پہننے کے بہانے نوجوان خاتون پر کیے گئے حملے سے ہوا۔ متاثرہ لڑکی کو پولیس حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے اسے تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔فارسی میڈیا بشمول "ایران ویئر” اور "شرق” اخبار نے اس کے اہل خانہ کے حوالے سے بتایا کہ اسے گرفتاری کے چند گھنٹے بعد کومے کی حالت میں اسسپتال لے جایا گیا، جہاں اسپتال انتظامیہ نے اس کی موت کی تصدیق کی ہے۔ اکاؤنٹ "1500 امیجز” نے اعلان کیا تھا کہ نوجوان خاتون مھسا امینی ایرانی کردستان کے شہر سقاز سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ دارالحکومت تہران میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے آئی تھی۔ سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی اطلاعات کے مطابق امینی کو منگل کی شام "الارشاد” کے پٹرولنگ پولیس نے "شہید حقانی” میٹرو اسٹیشن کے قریب سے اس وقت گرفتار کیا جب وہ اپنے بھائی کے ہمراہ تھیں۔