میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نگران وزیرِا عظم کا انتخاب اور توقعات

نگران وزیرِا عظم کا انتخاب اور توقعات

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۷ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی

اندازوں اور خدشات کے برعکس ملک کے آٹھویں نگران وزیرِ اعظم کی نامزدگی کامشکل مرحلہ نہایت خوش اسلوبی سے طے ہو گیا ہے۔ حالانکہ اُن کانام سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث نہیں تھا۔ آصف زرداری اور نواز شریف نے کئی روز تک دبئی میں جاری رہنے والی مشاورت کے دوران کسی نیک نام سیاستدان کا نام اِس عہدے کے لیے دینے پر اتفاق کیاتھامگر اچانک اور غیر متوقع طورپریہ اہم ترین منصب کسی اور کے حصے میں آگیا۔ واقفان حلقوں کا کہنا ہے کہ تقرری تسلیم کرنے کے باوجودسچ یہ ہے کہ پی ڈی ایم بشمول اپوزیشن نے نام تجویز نہیں کیا۔ خیرملک میں جاری کرسی اور اقتدار کی جنگ کا احسن اختتام اوردوسری دفعہ یہ اہم عہدہ چھوٹے صوبے کو دینا معترض حلقوں کے لیے بھی طمانیت کاباعث بنا ہے، کیونکہ سیاسی منظرنامے پر موجود تنائو کے خاتمے اور پس ماندہ صوبے بلوچستان کے سُلگتے مسائل حل ہونے کا امکان بڑھ گیاہے۔ نگراں وزیرِ اعظم اگر کسی مخصوص سیاسی جماعت یا گروہ کی طرفداری کرنے کے بجائے اپنے منصبی فرائض پر توجہ دیں اور آئین کے مطابق بروقت عام انتخابات یقینی بنائیں توسیاسی تاریخ میں مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ بلااشبہ غیر معمولی حالات غیر معمولی اقدامات کے متقاضی ہوتے ہیں مگر آئین سے تجاوز انتشار کاباعث بنتا ہے۔ امیدہے اقتدارکو طوالت دینے کے بجائے نگران سیٹ اَپ آئینی دائرہ کار میں رہے گااور صاف شفاف انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں کو عنان ِ اقتدار سونپ کر رُخصت ہو جائے گا۔
ملک کے 76ویںیومِ آزادی پر انوار الحق کاکڑ نے منصب کا حلف اُٹھا لیا۔ اب کابینہ کے چُنائو کا مرحلہ درپیش ہے۔ راقم کے ذرائع کے مطابق اب تک وزارتِ قانون کے لیے شریف خاندان اور سابق وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کے قریبی ساتھی احسن بھون کا نام تقریباََ طے ہو گیا ہے، جس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ غیرجانبداری کاتقاضاہے کہ انتہائی احتیاط سے کابینہ کا انتخاب کیاجائے۔ ذرا سی بے احتیاطی سیاسی منظرنامے پر بے چینی بڑھا سکتی ہے۔ نگران وزیرِ اعظم کا حلف اُٹھانے سے قبل ہی انوار الحق کاکڑ کے بارے میں نیب مقدمات کی کہانیاں اور افغان شہری کے طورپر برطانیہ سے مراعات حاصل کرنے جیسے افسانوں سے سوشل میڈیا کے ذریعے ہر خاص و عام آشنا ہو چکا، مزید کوئی ناپسندیدہ کردار مکمل طورپرمتنازع بنادے گا۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض لاکھ کہیں کہ یہ نام اُنھوں نے دیا ہے کوئی بھی ذی شعوراُن کے دعوے پر یقین کرنے کو تیارنہیں۔ بلکہ عام خیال یہ ہے کہ نگران وزیرِ اعظم کا سرپرائز سیاستدانوں نے نہیں دیا بلکہ سیاستدانوں کو دیا گیا ہے۔ اگر یہ بات سچ ہے تواِس کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ سیاسی حلقوں کے ساتھ اُنھیں مقتدرہ کی بھی حمایت حاصل رہے گی۔ اب جبکہ وزیرِ اعظم اورصادق سنجرانی کی صورت میں چیئرمین سینیٹ جیسے دو اہم ترین عہدے بلوچستان کے پاس ہیں اورسولہ ستمبر سے جسٹس فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس سپریم کورٹ بننے سے عدالت ِ عظمٰی کی سربراہی بھی بلوچستان کے پاس چلی جائے گی جس سے نہ صرف بلوچوں کا احساسِ محرومی ختم ہوگا بلکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی حل ہونے کی امید ہے۔
1971ء میں بلوچستان کے علاقے مسلم باغ میں جنم لینے والے نگران وزیر اعظم کوئی ناتجربہ کاریا سیاست میں نو آموز نہیں بلکہ ڈیڑھ عشرے سے سیاسی میدان کاحصہ ہیں۔ وہ بلوچستان کے پہلے پختون ہیں جنھیں یہ منصب ملا ہے۔ ابتدائی تعلیم سن فرانسز ہائی ا سکول کوئٹہ سے حاصل کرنے کے بعد کیڈٹ کالج کوہاٹ داخلہ لیا ۔والد کے انتقال کے بعدکیڈٹ کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس کوئٹہ آگئے۔ انھوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے سوشیالوجی اور پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا۔اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھی گئے۔ شروع میں مقامی ہائی اسکول میں کچھ عرصہ بطور معلم بھی کام کیا۔ انھیں انگریزی لٹریچر،اردو،پشتو،فارسی ادب کے ساتھ فلسفے پر عبورحاصل ہے۔ 2022 میں مشاہدحسین سید کے ہمراہ لندن یونیورسٹی میں بلوچستان کے حوالے سے لیکچر کاحصہ بھی رہے۔ 2008میں ق لیگ کے ٹکٹ پر کوئٹہ سے بطورامیدوارقومی اسمبلی الیکشن میں حصہ لیا لیکن کامیابی نہ ہوئی ۔مگر یہی انتخابی معرکہ عملی سیاست کانکتہ آغاز ثابت ہوا ۔2015 سے 2017تک ن لیگ کے وزیراعلیٰ نواب ثنااللہ زہری کے ترجمان کی حیثیت سے بھی کام کیا مگر وزیرِ اعلیٰ کے خلاف جنم لینے والی بغاوت میں نہ صرف سرفہرت رہے بلکہ تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی میں بھی کلیدی کردارادا کرتے ہوئے سیاسی طورپر عبدالقدوس بزنجو سے مل گئے ۔ وہ بلوچستان میں سی پیک کے بڑے حمایتی اور اِس حوالے سے علاقے کی توانا آواز ہے۔ سیاسی ،سماجی اور سیکورٹی مسائل کے بارے میں اُن کی رائے ریاستی مفاد کے عین مطابق ہے۔ ممکنہ طورپر یہی خوبی اُنھیں اہم ترین عہدے پرلانے میں معاون ثابت ہوئی ہے۔ کیونکہ شورش زدہ علاقوں سے اِداروں کی اولین ترجیح ایسے ہی محب الوطن چہرے ہیں ۔2018 میں وہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر بنے تو بڑی جماعتوں کی تائیدنہ ہونے کے باوجود صادق سنجرانی کا چیئرمین سینٹ منتخب ہونے جیسا واقعہ سبھی کو چونکانے کاباعث توبنا ہی، اب نگران وزیراعظم کی تقرری پر بھی ہنوز سیاسی حلقے ورطہ ٔ حیرت میں ہیں۔
انوارالحق کاکڑنے غیر متوقع طورپر سینیٹر منتخب ہوکربھی سب کو حیران کیا۔ فہمیدہ حلقے متفق ہیں کہ اُن کانام سیاسی جماعتوں کی طرف سے نہیں آیا لیکن حیران کُن پہلو یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی اکثریت ناصرف اتفاق کر چکی ہے بلکہ فیصلے کی تائید اور تحسین میں بھی پیش پیش ہیں۔ دوماہ قبل سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے ہمراہ لاہور میںمریم نواز سے ملاقات کرنے اور دعوت ملنے کے باوجودجہاندیدہ انوارالحق کاکڑن لیگ میں شمولیت اختیار کرنے سے گریز کرگئے۔ اُن کی تجاویز قومی حلقوں میں ہمیشہ پزیرائی حاصل کرتی ہیں۔ اگر عسکری سربراہ جنرل عاصم منیرنے حال ہی میں واضح طورپرکہہ دیا ہے کہ امن کے لیے پاکستان اب ٹی ٹی پی سے نہیں صرف افغان حکومت سے بات کرے گا تو نگران وزیر اعظم بھی ٹی ٹی پی سے غیرامتیازی سلوک کی حامی نہیں، وہ بھی اچھے یا بُرے طالبان پالیسی کے مخالف ہیںجو موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت کی ہم خیالی کاعکاس ہے کیونکہ ملکی سلامتی کودرپیش مسائل اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے دونوں کا نکتہ نظر یکساں ہوناقومی مفادمیں ہے۔
بلوچستان سے تعلق کے باوجودشایدنسلی لحاظ سے پختون ہونے کی بناپرہی اخترجان مینگل نے نواز شریف کو خط لکھ کر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نامزدگی کو سیاست میں اپنے لیے دروازے بندکرنے کے مترادف قرار دیا ہے مگر کچھ دیگر قوتوں کو بھی تحفظات ہیں۔ پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی اور ق لیگ کے چودھری سرور مشاورتی عمل میں شریک نہ کرنے کی بات کرچکے۔ ایساہی اعتراض قوم پرست جماعتوں کوبھی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان نے ابتدامیں تنقید کی بعد ازں خاموش ہو گئے۔ خورشید شاہ نے بھی تلخی کا اظہارکیا تحفظات کے باوجود خوش آئند پہلو یہ ہے کہ سیاسی منظر نامے پر موجود تمام بڑی قوتیں نامزدگی پر اعتماد کرتے ہوئے ساتھ چلنے پرآمادہ ہیں۔ حالانکہ سیاستدان اپنی پسند کو ہی اہم تصور کرتے ہیں۔ چاہے وہ آئین سے متصادم ہی کیوں نہ ہوماضی میں افتخار چوہدری نے یوسف رضا گیلانی کو وزارتِ عظمٰی سے ہٹایا تون لیگ نے تحسین کی لیکن عمر عطا بندیا ل نے پنجاب میں الیکشن کرانے کا فیصلہ دیاتو عملدرآمد کرانے سے انکارکردیا۔ انوارالحق کاکڑکو ملک کے کم عمر ترین بااختیارنگران وزیرِ اعظم کا اعزاز تومل گیا ہے۔ اب منصب کا تقاضا ہے کہ کسی مخصوص حلقے کا پسندیدہ بننے جیسا معرکہ سرانجام دینے کے بجائے خود کو تاریخ میں سرخرو کریں اور عملی طورپر غیرجانبدارہوکر عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنائیں۔ اگر بروقت انتخابات کی توقعات پوری نہیں کرتے تو تاریخ اُنہیںروشن اور اچھے لفظوں سے یاد نہیں کرے گی بلکہ اُن کانام ایسے چہرے کے طورپر رہ جائے گا جس کا دامن نیک نامیوں سے خالی ہو ۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں