کابل میں مجاہدین کی حکومت،مودی سرکارپرلرزہ طاری
شیئر کریں
حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے راجیہ سبھا کے رکن سبرامینیئن سوامی نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین طالبان کے ساتھ مل کر ایک سال کے اندر بھارت پر حملہ کرسکتے ہیں۔افغانستان میں طالبان نے کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد 20 سالہ جنگ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے ملک میں جلد ہی نئی اسلامی عبوری حکومت قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے جس پر بھارت میں حکمراں جماعت گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ اور سابق وفاقی وزیر سبرامینیئن سوامی نے اپنی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ طالبان کی مدد سے پاکستان اور چین بھارت پر حملہ کرسکتے ہیں۔مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ پر اپنی ٹوئٹ میں سبرامینیئن سوامی نے لکھا کہ طالبان پہلے سال معتدل مزاج افغان حکومت کے طور پر سامنے آئیں گے البتہ اسی دوران طالبان کے صوبائی کمانڈرز شدت پسندی جاری رکھیں گے اور اس دوہری پالیسی سے ایک سال میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے بعد طالبان، پاکستان اور چین کے ساتھ مل کر بھارت پر حملہ کردیں گے۔یہ پہلی مرتبہ نہیں جب سبرامینیئن سوامی نے اپنے خوف کا اظہار کیا ہو۔ ایک ہفتہ قبل بھی رکن پارلیمنٹ نے اپنی ہی مودی سرکار سے کابل میں 20 ہزار بھارتی فوج بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا اور طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالتے ہی سبرامینیئن نے وزیر اعظم مودی سے جنگ حکمت عملی طے کرنے کی اپیل بھی کی تھی۔علاوہ ازیں بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نیویارک روانہ ہوئے ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کی تازہ صورت حال بھارت کے لیے کافی پریشان کن ہے اور اس کے لیے کوئی بھی فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ بھارت کو افغانستان کے حوالے سے دو حریف پڑوسی ممالک چین اور پاکستان کے اقدامات کو بھی مدنظررکھنا ہوگا۔ ایسے میں وہ شاید امریکی فیصلے کی تائید کرے۔افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر گوتم مکھوپادھیائے کا کہنا ہے کہ اس وقت بھارت کے سامنے تین اہم سوالات ہیں۔ دہلی کے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں انٹرنیشنل اسٹڈیز کے پروفیسر اور کابل میں افغان وزارت خارجہ کے ایشیا فاونڈیشن کے سربراہ گلشن سچدیو کا کہناہے کہ آنے والے برسوں میں بھارت خود کو افغانستان میں نسبتا مشکلات میں پائے گا لیکن امریکا کی قربت اور اپنی بعض پالیسی فیصلوں کی خامیوں کی وجہ سے اسے اس کی قیمت تو ادا کرنی ہی پڑے گی۔پروفیسر سچدیو کہتے ہیں،افغانستان کا نیا سکیورٹی اور اقتصادی ڈھانچہ گزشتہ 20 برسوں کے مقابلے میں یکسر مختلف ہوگا، اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کرنے والے چین، پاکستان، روس اور ایران یہ دیکھ کر خوش ہوں گے کہ امریکا کے اثرات مزید کم ہو گئے ہیں، چین اور پاکستان بھارت کی موجودگی کو مزید کم کرنے کی کوشش کریں گے۔”پروفیسر سچدیو کا کہنا تھا کہ بھارتی پالیسی سازوں نے طالبان کے حوالے سے مناسب فیصلہ نہیں کیا۔ جب ہر ملک حتی کہ امریکا بھی طالبان کو قانونی طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ کھل کر بات کررہا تھا، بھارتی پالیسی ساز جھجک رہے تھے لیکن اگر اب بھارت نے بات چیت شروع بھی کی تو اس سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔”